حالات حاضرہ ۔ علمائے دیوبند کا اجتماعی موقف

ہمارے ملک کے بہترین وسائل ان عوامی امنگوں کو دور کرنے اور ان کے اسباب کا ازالہ کرنے کی بجائے امریکہ کی مسلط کی ہوئی جنگ میں امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے خرچ ہو رہے ہیں۔ جبکہ امریکہ کی طرف سے ہماری سرحدوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر کے ان ڈرون حملوں کا سلسلہ برابر جاری ہے جن میں ہمارے بے گناہ شہریوں، عورتوں او ر بچوں کی بہت بڑی تعداد شہید ہو کر بستیاں اجڑ چکی ہیں۔ اور یہ بات واضح ہے کہ امریکہ نے اپنی بالادستی قائم کرنے اور عالم اسلام کے وسائل پر قبضہ کرنے اور اسلام اور امت مسلمہ کے تہذیب و تمدن کو تباہ کرنے کی کاروائیوں میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

مئی ۲۰۱۰ء

دستوری ترامیم اور حکمران طبقے کا رویہ

ستم بالائے ستم یہ کہ ہماری رولنگ کلاس کے اوپر ایک اور ’’رولنگ کلاس‘‘ ورلڈ اسٹیبلشمنٹ کی صورت میں مسلط ہے جو پہلے ان دیکھی اور خفیہ ہوتی تھی، اب کھلم کھلا ملک کے ہر شہری کو دکھائی دے رہی ہے۔ اور صورتحال یہ ہے کہ دستور و قانون کی جو صورت ان دونوں کے مفاد میں ہوتی ہے اور اس پر عملدرآمد سے ان میں سے کسی کا مفاد مجروح نہیں ہوتا، وہ کسی درجے میں عمل میں آجاتی ہے۔ لیکن جمہوریت، رائے عامہ اور دستور وقانون کی جو تعبیر ان میں سے کسی کی ترجیحات کے لیے رکاوٹ بنتی ہے، وہ ان دیکھے فریزر میں منجمد ہو کر رہ جاتی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اپریل ۲۰۱۰ء

مسلکی اختلافات اور امام اہل سنتؒ کا ذوق ومزاج

آج کی نشست میں، میں مسلکی اختلافات ومعاملات کے حوالے سے والد محترم، امام اہل سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر اور ان کے دست راست حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی رحمہما اللہ کے ذوق وفکر اور طرز عمل کا ایک سرسری خاکہ قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں، اس لیے کہ گزشتہ نصف صدی کے دوران پورے برصغیر میں حضرت والد محترمؒ کو علماء دیوبند کے مسلکی ترجمان کی حیثیت حاصل رہی ہے اور پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت کے دیوبندی علما انھیں اپنا مسلکی اور علمی راہ نما سمجھتے آ رہے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

مارچ ۲۰۱۰ء

دینی جدوجہد کے عصری تقاضے اور مذہبی طبقات

انقلاب ایران کے بعد مجھے علماء کرام اور وکلا کے ایک وفد کے ساتھ ایران جانے کا موقع ملا جس میں مولانا منظور احمد چنیوٹی اور حافظ حسین احمد بھی شامل تھے۔ یہ ۱۹۸۷ء کی بات ہے۔ اس موقع پر ایک مجلس میں یہ سوال سامنے آیا کہ کیا پاکستان میں کوئی عالم دین اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ خمینی صاحب کی طرح ایک عوامی انقلاب کی قیادت کر سکے؟ میں نے عرض کیا کہ ایک نہیں بلکہ ہمارے پاس دو شخصیات ایسی موجود تھیں جو خمینی بن سکتی تھیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

فروری ۲۰۱۰ء

مساجد ومدارس کے ملازمین کے معاشی مسائل

مساجد و مدارس کے ملازمین کو تنخواہیں اور دیگر مراعات ان کے معاشرتی مقام سے بہت کم ملتی ہیں اور ان کی بنیادی ضروریات کے حوالے سے یہ بہت ہی کم ہیں۔ یہ ایک معروضی حقیقت ہے جس کا چند بڑے اور معیاری اداروں کو چھوڑ کر، جن کا تناسب مجموعی طور پر شاید پانچ فیصد بھی نہ ہو، ملک میں ہر جگہ مشاہدہ کیا جا سکتا ہے- لیکن امام، خطیب، مدرس، مفتی، حافظ، قاری اور موذن قسم کے لوگ اپنی تربیت کے لحاظ سے تنخواہ اور معاشی مفادات کے لیے احتجاج، ہڑتال، جلوس، مظاہرہ اور بائیکاٹ وغیرہ کے عادی نہیں ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جنوری ۲۰۱۰ء

دہشت گردی کے خلاف جنگ اور علماء

علماء کرام سے ملک کے بعض حلقوں کا یہ مسلسل مطالبہ ہے کہ وہ خود کش حملوں کے خلاف اجتماعی فتویٰ جاری کریں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حکومتی پالیسی کی حمایت کا دو ٹوک اعلان کریں، لیکن موجودہ صورت حال میں یہ بات بہت مشکل ہے کہ علماء کرام حکومت کی پالیسیوں کی آنکھیں بند کر کے حمایت کریں اور نہ ہی حکومت کو اس کی توقع کرنی چاہیے، اس لیے کہ جو بات جس حد تک درست ہوگی، اس کی ضرور حمایت کی جائے گی، لیکن جو بات درست نہیں ہوگی، اس کی حمایت نہیں کی جائے گی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جنوری ۲۰۱۰ء

مذہبی طبقات، دہشت گردی اور طالبان ۔ ڈاکٹر یوگندر سکند کا سوالنامہ

جو دینی جماعتیں اور افراد پر امن طور پر اور سیاسی و جمہوری جدوجہد کے ذریعے کام کر رہی ہیں، وہ بھی انہی دینی مدارس کے تعلیم یافتہ ہیں اور جو لاکھوں علماء کرام، مدرسین اور خطبا و ائمہ ملک بھر میں امن و سلامتی کے ماحول میں دینی خدمات کی انجام دہی میں مصروف ہیں انہوں نے بھی انہی مدارس میں تعلیم پائی ہے۔ یہ حضرات نہ صرف پاکستان میں بلکہ دنیا بھر میں پر امن طور پر تعلیمی اور دعوتی خدمات بجا لا رہے ہیں۔ جبکہ وہ لوگ جو مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کیے ہوئے ہیں، ان کا تناسب آٹے میں نمک کا بھی نہیں ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

نومبر ۲۰۰۹ء

تدریس حدیث کے چند اہم تقاضے

جب ہم حدیث پڑھا رہے ہوں تو جس طرح ایک عام اجتماع میں حدیث بیان کرتے ہوئے پبلک کی ذہنی نفسیات، ذہنی سطح اور اس کے معروفات ومسلمات کو سامنے رکھنا ضروری ہے، اسی طرح ہمارے سامنے جو کلاس بیٹھی ہے اس کی ذہنی سطح کو بھی سامنے رکھنا ضروری ہے کہ کون سی بات ان کے ذہن میں جائے گی اور کون سی نہیں جائے گی۔ کیونکہ آج ہمارے سامنے جو طلبہ حدیث پڑھنے بیٹھتے ہیں ان کا لیول آج سے پچاس سال پہلے والا نہیں ہے۔ چالیس پچاس سال پہلے سامنے بیٹھے ہوئے طلبہ کی اکثر یت مطالعہ کرکے آتی تھی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵ فروری ۲۰۰۹ء

ارباب علم ودانش کی عدالت میں ماہنامہ الشریعہ کا مقدمہ

وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے آرگن ماہنامہ ’’وفاق المدارس‘‘ کا شکر گزار ہوں کہ اس کے گزشتہ شمارے میں ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ کی عمومی پالیسی پر نقد وتبصرہ کرتے ہوئے کچھ ایسے امور کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جن کی وضاحت کے لیے قلم اٹھانا ضروری ہو گیا ہے۔ چنانچہ ’’وفاق المدارس‘‘ کے تفصیلی تبصرہ کے جواب کے طور پر نہیں، بلکہ توجہ دلانے پر شکریہ ادا کرتے ہوئے اہم امور کی وضاحت کے لیے یا ’’ارباب علم ودانش کی عدالت میں ’الشریعہ‘ کامقدمہ‘‘ کے طورپر کچھ معروضات پیش کر رہا ہوں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

مئی ۲۰۰۹ء

مولانا قاری خبیب احمد عمرؒ

گزشتہ دنوں میرے بہنوئی مولانا قاری خبیب احمد عمر کا انتقال ہو گیا ہے جو ایک متحرک دینی جماعت ’’تحریک خدام اہل سنت‘‘ کے صوبہ پنجاب کے امیر اور ملک کے معروف دینی ادارہ’’ جامعہ تعلیم الاسلام‘‘ جہلم کے مہتمم تھے۔ وہ ایک ماہ قبل برطانیہ کے تبلیغی دورے پر گئے اور نوٹنگھم میں اپنی بیٹی کے ہاں قیام پذیر تھے کہ انھیں نمونیہ کی تکلیف ہوگئی۔ اسی حالت میں تکلیف کے باوجود انہوں نے بریڈ فورڈ کی ایک مسجد میں جمعہ پڑھایا جس سے تکلیف بڑھ گئی۔ انہیں برمنگھم کے ایک ہسپتال میں لے جایا گیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اپریل ۲۰۰۹ء

Pages


2016ء سے
Flag Counter