میں گزشتہ جمعرات کو مدرسہ اسلامیہ محمودیہ سرگودھا کے سالانہ جلسہ تقسیمِ اسناد میں شرکت کے لیے سرگودھا پہنچا ہی تھا کہ عزیزم محمد عمار خان ناصر نے موبائل فون پر علامہ محمد احمد لدھیانوی کی وفات کی خبر دی، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ جنازہ کے بارے میں پوچھا تو بتایا کہ نمازِ جنازہ کل صبح ہوگی۔ دو تین روز قبل علامہ صاحب سے میری سرِ راہ ملاقات ہو گئی تھی، حال احوال دریافت کیا اور کچھ مسائل پر گفتگو ہوئی، یہ ہماری آخری ملاقات ثابت ہوئی اور اس کے بعد جنازہ کے موقع پر ان کا چہرہ ہی دیکھ سکا۔
علامہ صاحب کے ساتھ میری جماعتی اور تحریکی رفاقت کا دورانیہ کم و بیش اڑتیس سال کے عرصہ کو محیط ہے اور کم و بیش ربع صدی تک ضلع گوجرانوالہ کی دینی اور قومی سیاست میں علامہ محمد احمد لدھیانوی، مولانا احمد سعید ہزاروی، ڈاکٹر غلام محمد مرحوم، مولانا علی احمد جامیؒ اور راقم الحروف جمعیۃ علمائے اسلام اور دیوبندی مسلک کی نمائندگی کرتے رہے۔ ہم مولانا مفتی عبد الواحدؒ کی ٹیم شمار ہوتے تھے اور یہ ٹیم ان کی سرپرستی اور قیادت میں دینی و قومی سیاست میں ضلع کی سطح پر ایک بھرپور کردار کی حامل رہی۔ اس ٹیم کے تین اہم اور فعال ارکان مولانا علی احمد جامی، ڈاکٹر غلام محمد اور علامہ محمد احمد لدھیانوی رحمہم اللہ تعالیٰ گزشتہ تین ماہ کے عرصہ میں یکے بعد دیگرے اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوگئے اور ضلع کی دینی، سیاسی اور مسلکی جدوجہد میں ایک ایسا خلا چھوڑ گئے ہیں جس کے جلد پر ہونے کی بظاہر کوئی توقع نہیں ہے۔
علامہ محمد احمد لدھیانوی مرحوم کا تعلق علمائے لدھیانہ کے معروف خاندان سے تھا۔ رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمان لدھیانویؒ علامہ محمد احمد مرحوم کے خالو تھے، جبکہ علامہ صاحبؒ کے والد محترم مولانا محمد عبد اللہ لدھیانویؒ شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کے تلامذہ میں سے تھے اور ایک عرصہ تک دینی علوم کی تدریس و اشاعت میں مصروف رہے۔
۱۹۷۰ء میں جب میں نے مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں مولانا مفتی عبد الواحدؒ کے معاون کی حیثیت سے نائب خطیب کی ذمہ داری سنبھالی اور جمعۃ المبارک کا خطبہ دینے کا سلسلہ شروع کیا تو خطبۂ جمعہ کے سامعین میں تین بزرگ شخصیات ایسی ہوتی تھیں جن کا مجھ پر رعب تو رہتا تھا مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بات میرے لیے باعثِ فخر و شرف بھی تھی کہ یہ بزرگ ہمیشہ میری حوصلہ افزائی کرتے اور مشفقانہ دعاؤں سے نوازتے تھے۔ ان میں سے ایک مولانا محمد عبد اللہ لدھیانویؒ تھے، دوسرے بزرگ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے مجاز صحبت مولانا سید عنایت علی شاہؒ تھے، جبکہ تیسرے بزرگ حافظ نظام الدین تھے جنہوں نے گوجرانوالہ میں قیامِ پاکستان کے وقت سے قرآن کریم حفظ و ناظرہ کی درسگاہ کا اہتمام کر رکھا تھا اور شہر کے سینکڑوں افراد نے اس دور میں ان سے قرآن کریم کی تعلیم حاصل کی۔ مولانا محمد عبد اللہ لدھیانویؒ کا گھر جامع مسجد سے قریب ہی تھا، میں متعدد بار گھر میں بھی ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور ایک بار انہوں نے حضرت شیخ الہندؒ کی عطا کردہ تحریری سند کی زیارت بھی کروائی جو انہوں نے مولانا محمد عبد اللہ لدھیانویؒ کو بطور خاص مرحمت فرمائی تھی۔
مولانا محمد عبد اللہ لدھیانویؒ نے گوجرانوالہ آنے کے بعد دارالعلوم نعمانیہ کے نام سے ایک باقاعدہ درسگاہ کا آغاز کیا لیکن محکمۂ بحالیات کے ساتھ مقدمہ بازی نے ایسا طول پکڑا کہ یہ درسگاہ باقاعدہ دارالعلوم کا روپ اختیار نہ کر سکی۔ ان کے بڑے فرزند مولانا عبد الواسع لدھیانویؒ مجلس احرارِ اسلام کے سرگرم رہنماؤں میں شمار ہوتے تھے اور قیامِ پاکستان کے بعد بھی ایک عرصہ تک دینی تحریکات بالخصوص تحریک ختم نبوت میں متحرک رہے لیکن عملی سیاست سے کم و بیش کنارہ کش ہی ہوگئے تھے۔ جبکہ مولانا محمد عبد اللہ لدھیانویؒ کے سب سے چھوٹے فرزند علامہ محمد احمد لدھیانویؒ تھے، ان کی ولادت ۱۹۳۱ء میں لدھیانہ میں ہوئی۔ قیامِ پاکستان کے وقت وہ دارالعلوم دیوبند میں تعلیم حاصل کر رہے تھے کہ ہجرت کا مرحلہ پیش آگیا۔ اس خاندان نے گوجرانوالہ کو نیا مسکن بنایا، اس کے بعد جامعہ عباسیہ بہاولپور اور مدرسہ عربیہ گوجرانوالہ میں تعلیم حاصل کرتے رہے۔ ۱۹۵۰ء میں جامعہ مظہر العلوم کھڈہ کراچی میں دورۂ حدیث شریف مکمل کر کے سندِ فراغت حاصل کی۔
علامہ محمد احمد لدھیانویؒ نے گوجرانوالہ میں ’’حبیب کالج‘‘ کے نام سے ایک پرائیویٹ تعلیمی ادارہ قائم کیا جو ان کی وفات سے چند سال پہلے تک تعلیمی میدان میں مسلسل خدمات سرانجام دیتا رہا۔ اپنے بھائی مولانا عبد الواسع لدھیانویؒ کے ساتھ مجلسِ احرارِ اسلام میں سرگرم عمل تھے کہ ایوبی آمریت کے آخری دور میں جمعیۃ علمائے اسلام کے قائدین مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ، مولانا مفتی محمودؒ اور مولانا غلام غوث ہزارویؒ کی جدوجہد سے متاثر ہو کر جمعیۃ علمائے اسلام میں شامل ہوگئے اور تا دمِ آخر جمعیۃ میں ہی متحرک رہے۔ طویل عرصہ تک جمعیۃ علمائے اسلام گوجرانوالہ کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے مولانا مفتی عبد الواحدؒ کے دستِ راست رہے۔ آخر عمر میں جمعیۃ علمائے اسلام کے صوبائی نائب امیر تھے، پاکستان قومی اتحاد اور اسلامی جمہوری اتحاد کے شہری سطح پر سیکرٹری جنرل رہے اور کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کا بھی سرگرم کردار رہے۔
علامہ صاحب مرحوم علمائے لدھیانہ کے تاریخی کردار اور جرأت و استقامت کی روایات کے امین تھے اور انہیں دیکھ کر اس عظیم علمی خاندان کے بزرگوں کی جرأت و استقلال کے بارے میں اندازہ ہوتا تھا کہ وہ کیسے حوصلہ مند اور جری رہنما ہوں گے۔ اس خاندان کی روایات میں یہ تاریخی اعزاز شامل ہے کہ ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی کے موقع پر پنجاب میں برطانوی استعمار کے خلاف مسلح جدوجہد کا فتویٰ سب سے پہلے اس خاندان کے بزرگوں نے دیا اور اس میں پرجوش کردار بھی ادا کیا۔ اسی طرح اس خاندان کا یہ بھی اعزاز ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے جب اوٹ پٹانگ قسم کے دعووں کا سلسلہ شروع کیا تو اس کے خلاف کفر کا سب سے پہلا فتویٰ اس خاندان کے علماء نے صادر کیا جبکہ بہت سے اکابر علماء ابھی تذبذب میں تھے لیکن بعد میں انہیں اس فتویٰ کی تائید کرنا پڑی۔
مولانا حبیب الرحمان لدھیانویؒ مجلس احرار اسلام کے بانیوں میں سے تھے اور اس پلیٹ فارم پر ہمیشہ ان کا قائدانہ کردار رہا۔ تقسیمِ ہند کے بعد بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں کی جان و مال اور عزت و ناموس کے تحفظ کے لیے شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمدؒ مدنی اور مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمان سیوہارویؒ کے بعد رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمان لدھیانویؒ کا کردار سب سے نمایاں تھا اور انہوں نے اس موقع پر مسلمانوں کو سنبھالا دینے کے لیے جو جدوجہد کی وہ تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔
دارالعلوم دیوبند کے صد سالہ اجلاس کے موقع پر مجھے بھی حاضری کی سعادت حاصل ہوئی، اس موقع پر میں نے قافلے سے ہٹ کر بھارت کے بہت سے شہروں کا چکر لگایا اور لدھیانہ میں مولانا حبیب الرحمان لدھیانویؒ کے گھر میں دو تین روز رہنے اور ان کے دو فرزندوں مولانا محمد احمد لدھیانویؒ اور مولانا سعید الرحمان لدھیانویؒ کے ساتھ وقت گزارنے کا شرف حاصل کیا جو میری زندگی کے چند یادگار مواقع میں سے ہے۔
علامہ محمد احمد لدھیانویؒ اسی خاندان کی شاندار روایات کے امین تھے اور انہوں نے ان روایات کا پرچم ہمیشہ بلند رکھا۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کہ جس روز ان کا انتقال ہوا اسی دن ضلع گوجرانوالہ کی دینی سیاست کے ایک اور اہم کردار مولانا فضل الٰہی عابدؒ نے بھی دنیا سے منہ موڑ لیا۔ وہ واہنڈو کے قریب صابوکی دندیاں کے رہنے والے تھے، گزشتہ چالیس برس سے دینی و سیاسی تحریکات میں سرگرم حصہ لے رہے تھے۔ وہ شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوریؒ اور شیخ العلماء مولانا بشیر احمد پسروری ؒسے نسبت کا شرف رکھتے تھے اور واہنڈو کے علاقہ میں ہمارے ایک پرانے بزرگ مولانا حکیم نذیر احمدؒ کے ساتھ اس علاقہ میں جمعیۃ علماء اسلام کی تنظیم اور مسلکی جدوجہد کے فروغ کے لیے ہمیشہ متحرک رہے۔ اللہ تعالیٰ ان بزرگوں کو جنت الفردوس میں جگہ دیں اور پسماندگان کو صبرِ جمیل کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔