طویل عرصہ کے بعد ۲۵ مارچ کو ایک دن کے لیے بنوں جانے کا موقع ملا۔ ایک دور میں بنوں کافی آنا جانا رہا ہے، حضرت مولانا صدر الشہیدؒ بنوں سے قومی اسمبلی کے رکن تھے اور حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے قریبی رفقاء میں ان کا شمار ہوتا تھا، میری بھی ان سے نیاز مندی رہی ہے اور ان کے ہاں مدرسہ معراج العلوم میں کئی بار حاضری ہوئی مگر بنوں میں میرا اصل ٹھکانہ منڈی نیل گراں کی مسجد حق نواز خان تھی جہاں ہمارے پرانے دوست اور جماعتی ساتھی مولانا قاری حضرت گلؒ امام و خطیب تھے۔ قاری صاحب مرحوم جمعیۃ علماء اسلام کے انتہائی سرگرم راہنماؤں میں تھے، ملک بھر میں جماعتی کارکنوں اور علماء کرام کے ساتھ رابطہ میں رہتے تھے اور مرکزی اور صوبائی اجلاسوں میں پابندی کے ساتھ شریک ہوتے تھے۔
بنوں میں ایک بزرگ مولانا حاجی محمد جاذبؒ تھے جن کی دینی و علمی خدمات کا دائرہ وسیع ہے، ان کے فرزند مولانا مفتی سعید الرحمان کا اصرار تھا کہ میں ایک دن کے لیے ان کے ہاں ضرور حاضری دوں۔ مدرسہ کے اسباق سے فارغ ہو کر سفر کا آغاز کیا، خیال تھا کہ رات بنوں پہنچ جاؤں گا مگر پبلک ٹرانسپورٹ کا معاملہ ’’پل میں تولہ پل میں ماشہ‘‘ والا ہوتا ہے۔ اچھی سواری مل جائے تو توقع سے بھی پہلے انسان منزل پر پہنچ جاتا ہے مگر سواری دو یا تین نمبر ہو تو خاصا پریشان ہونا پڑتا ہے۔ میں جب میانوالی پہنچا تو مغرب اور عشاء کے درمیان کا وقت تھا، مفتی سعید الرحمان صاحب سے رابطہ ہوا تو مشورہ میں طے پایا کہ رات آگے کا سفر نہ کیا جائے اور میانوالی میں رات رہ کر صبح بنوں کے لیے روانگی کی جائے۔
میانوالی میں جامعہ تبلیغ الاسلام موتی مسجد ہمارے پرانے دینی مراکز میں سے ہے جس کے بانی فاضل دیوبند حضرت مولانا محمد رمضانؒ جمعیۃ علماء اسلام کے سرگرم راہنما تھے، شعلہ نوا خطیب اور بے باک مقرر تھے اور حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے معتمد رفقاء میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ میری ان کے ساتھ طویل جماعتی رفاقت رہی ہے اور ہم بہت سے سرد و گرم مراحل سے ایک ساتھ گزرے ہیں۔ ان کے فرزند مولانا عبد الجلیل ان کی جگہ تعلیمی، مسلکی اور جماعتی خدمات سرگرمی کے ساتھ سرانجام دے رہے ہیں۔ میں چاند گاڑی کے ذریعے اچانک ان کے ہاں پہنچا تو معلوم ہوا کہ وہ عمرہ کے لیے گئے ہیں، ان کے بیٹوں نے بڑی محبت اور احترام کا معاملہ کیا، رات ان کے ساتھ قیام رہا، انہوں نے مکہ مکرمہ میں مولانا عبد الجلیل سے فون پر گفتگو بھی کرائی جو اس وقت مطاف میں تھے اور مجھے ان سے دعا کے لیے عرض کرنے کا موقع مل گیا۔ اس سے قبل اسی دن ظہر کے وقت تھوڑی دیر کے لیے سرگودھا رکا اور اسی طرح جامعہ اسلامیہ محمودیہ میں ’’چھاپہ‘‘ مارا۔ جامعہ اسلامیہ محمودیہ کے مہتمم مولانا اشرف علی بھی عمرہ کے لیے گئے ہوئے تھے، ان کے فرزند مولانا قاری ابوبکر نے کھانا کھلایا اور اپنے والد محترم سے فون پر بات کرائی، وہ اس وقت مدینہ منورہ میں داخل ہو رہے تھے، بڑی خوشی ہوئی اور ان سے روضۂ اطہر پر ہدیہ صلوٰۃ و سلام پیش کرنے کی درخواست کی۔ اس طرح مجھے ایک ہی دن میں تھوڑے وقفہ کے ساتھ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی فضاؤں میں دوستوں سے گفتگو کی سعادت حاصل ہوئی۔
مولانا محمد رمضانؒ کے ہونہار پوتوں نے موتی مسجد میں نمازِ فجر کے بعد درس کا اعلان کر دیا جبکہ عشاء کے بعد قریب ہی طالبات کے ایک دینی مدرسہ میں حاضری کی فرمائش کی جو میرے لیے سعادت کی بات تھی، کم و بیش تین سو طالبات تعلیم حاصل کرتی ہیں اور پچیس طالبات دورۂ حدیث میں ہیں، ان کے سامنے کچھ معروضات پیش کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ صبح نماز فجر کے بعد موتی مسجد میں مختصر درس دیا اور بنوں کے لیے روانہ ہوگیا۔
بنوں شہر میں داخل ہوتے ہی ایک دینی مدرسہ کا سالانہ پروگرام تھا جس میں حاضری ہوئی اور مدارس کی اہمیت کے حوالہ سے کچھ گزارشات پیش کیں۔ اس موقع پر بنوں کے بزرگ علماء بالخصوص مولانا حفیظ الرحمان ابن مولانا صدر الشہید سے ملاقات ہوئی، ظہر سے عصر تک مولانا مفتی سعید الرحمان کے مدرسہ کا پروگرام تھا، متعدد حفاظ کے حفظ قرآن کریم کی تکمیل کے علاوہ فہمِ دین کورس کے شرکاء اور درس نظامی کی ایک کلاس کے طلبہ میں اسناد کی تقسیم کا پروگرام تھا۔ قرآنِ کریم کی تعلیم کی اہمیت اور دینی مدارس کے تعلیمی نظام کی افادیت پر معروضات پیش کیں۔
بنوں میں مولانا سید نصیب علی شاہ الہاشمیؒ کا قائم کردہ ’’المرکز الاسلامی‘‘ دیکھنے کی ایک عرصہ سے خواہش تھی، سامنے سے گزرتے ہوئے کئی بار دیکھا مگر اس میں حاضری اور اساتذہ و طلبہ سے ملاقات کا کوئی پروگرام نہ بن سکا۔ خود مولانا سید نصیب علی شاہؒ نے متعدد بار اصرار کیا بلکہ ایک دفعہ تو ناراضگی کا اظہار بھی کیا مگر ہر کام کا وقت مقرر ہوتا ہے۔ شاہ صاحبؒ کی زندگی میں یہ مقدر میں نہیں تھا، اب اس کا موقع ملا اور ۲۵ مارچ کو عصر کی نماز کے وقت وہاں تھوڑی دیر کے لیے حاضری دی اور اساتذہ و طلبہ کے اجتماع سے کچھ گزارشات کیں۔ المرکز الاسلامی کا اصل امتیاز اس کا وہ علمی کام ہے جو آج کے جدید مسائل کے حوالہ سے بڑی سنجیدگی کے ساتھ ہو رہا ہے۔ یہ خود میرے ذوق کا کام ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ بھارت میں حضرت مولانا مجاہد الاسلام قاسمیؒ، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی اور ان کے رفقاء کی علمی محنت کی طرز پر پاکستان میں جو کام اجتماعی طور پر بڑے شہروں میں ہونا چاہیے تھا وہ بنوں جیسے دور دراز اور پسماندہ شہر میں ہو رہا ہے جس پر اس کارِ خیر میں شریک سب حضرات شکریہ و تبریک کے مستحق ہیں۔ مولانا سید نصیب علی الہاشمیؒ کی اچانک وفات کے بعد خدشہ تھا کہ یہ کام شاید اب رک جائے گا مگر ان کے ہونہار فرزند مولانا سید نسیم علی شاہ الہاشمی سلمہ، ان کے رفیق کار مولانا قاری محمد عبد اللہ اور دیگر رفقاء نے حوصلہ اور حکمت کے ساتھ اس کام کو جاری رکھا ہوا ہے۔ سید نسیم علی شاہ الہاشمی سے ملاقات کر کے اور ان کے ذوق و محنت کو دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی، اللہ تعالیٰ نظرِ بد سے محفوظ رکھیں اور اپنے باذوق والد کے علمی ذوق کو آگے بڑھانے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔