مولانا طارق جمیل کو نائن زیرو میں دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ میں آج صبح (۳۱ جولائی) نیویارک کے علاقہ لانگ آئی لینڈ میں مولانا عبد الرزاق عزیز کے ہاں تھا، وہ ایک عرصہ کراچی میں رہے ہیں، شیرشاہ کی جامع مسجد طور میں خطابت کے فرائض سرانجام دیتے رہے ہیں اور جمعیۃ علماء اسلام کے سرگرم راہنماؤں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ ناشتے کے بعد برونکس روانگی سے قبل انہوں نے مجھے کہا کہ جانے سے قبل ایک نظر خبروں پر ڈال لیتے ہیں۔ خبروں میں دیکھا کہ مولانا طارق جمیل ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پہنچے ہوئے ہیں اور کراچی والوں کو محبت کا پیغام دے رہے ہیں۔ دو روز قبل رائے ونڈ کے تبلیغی مرکز کے بارے میں وزیرداخلہ عبد الرحمان ملک کا بیان پڑھ کر جو کوفت ہوئی تھی وہ یکدم دور ہوگئی اور تبلیغی جماعت کے تربیت یافتہ عالمی خطیب کو اس روپ میں دیکھ کر صوفیاء کرام کی اس جدوجہد کا منظر نگاہوں کے سامنے گھوم گیا جو محبت کی شمع ہاتھوں میں لیے اس خطے میں آئے تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں کو پیار کی نظر سے گھائل کرتے چلے گئے تھے۔
جنوبی ایشیا کے اس وسیع خطے میں مجاہدین بھی آئے تھے، علماء کرام بھی آئے تھے اور عرب تاجروں نے بھی اس خطے میں اسلام کی دعوت پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اپنے اپنے انداز میں ان سب کی خدمات کا ایک متنوع اور وسیع دائرہ ہے اور اسلام کی دعوت و تعارف میں ان میں سے کسی کے کردار کی اہمیت کو کم نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اس خطے کے کروڑوں لوگوں کو مسلمان کرنے میں جو حصہ صوفیاء کرام کا ہے وہ شاید ہی کسی دوسرے طبقے کے حصے میں آیا ہو۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ خالصتاً محبت کے لہجے میں، خیر خواہی کے جذبے سے، جھگڑے کھڑے کیے بغیر بلکہ جھگڑوں کو نظر انداز کرتے ہوئے، اور ہمدردی کے ساتھ اسلام کی دعوت اور عام مسلمانوں کو دین کی طرف واپس لانے کی جو محنت اور جدوجہد تبلیغی جماعت کر رہی ہے اس میں حضرات صوفیاء کرام کی اسی سعی مشکور کی جھلک دکھائی دیتی ہے جن کے سرخیل کے طور پر حضرت خواجہ معین الدین اجمیریؒ اور حضرت سید علی ہجویریؒ جیسے بزرگوں کا نام لیتے ہوئے ہمارے سر خودبخود عقیدت سے جھک جاتے ہیں۔
دعوت اور محبت آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ محبت، خیر خواہی اور ہمدردی نہ ہو تو دعوت کا ماحول ہی نہیں بنتا۔ بگڑے ہوئے کو بگڑا ہوا کہہ کر اس کی اصلاح کی کوشش کی جائے گی تو وہ اصلاح کی طرف نہیں آئے گا مزید بگاڑ کی طرف بڑھے گا۔ اس لیے دعوت اور اصلاح دونوں کے لیے پہلی شرط محبت او رخیرخواہی کا اظہار ہے۔
تحفظ اور دفاع کا میدان اس سے مختلف ہے۔ اسلامی عقائد و روایات کے تحفظ کا مرحلہ درپیش ہو یا اسلام اور مسلمانوں پر کفر کی یلغار کا سامنا ہو تو اس محاذ پر ڈٹ جانا بھی ہمارے دینی فرائض میں سے ہے۔ علماء، متکلمین او رمجاہدین نے ہر دور میں یہ فریضہ ادا کیا ہے اور قیامت تک ادا کرتے رہیں گے۔ لیکن یہ میدان بہرحال دعوت و تبلیغ سے مختلف ہے، اس کے تقاضے مختلف ہیں اور اس کے رجال کار بھی مختلف ہوتے ہیں۔ اس ناگزیر فرق کو نظر انداز کر کے ہم بسا اوقات بہت سی الجھنوں کا شکار ہو جاتے ہیں اور کبھی کبھی باہمی شکایات کا پنڈوراباکس کھول کر ایک دوسرے کے لیے مشکلات کھڑی کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ میں اس کی ایک مثال دیا کرتا ہوں کہ کسی بھی قوم اور ملک کے لیے سفارت کار اور ڈپلومیٹ بھی اتنے ہی ضروری ہوتے ہیں جتنا کہ جرنیل اور سپاہی ضروری ہوتے ہیں۔ ایک کا ضروری ہونا دوسرے کے ضروری ہونے کی نفی نہیں کرتا لیکن دونوں کا مزاج مختلف ہوتا ہے، زبان مختلف ہوتی ہے، دائرہ کار مختلف ہوتا ہے اور تربیت مختلف ہوتی ہے۔ جبکہ ان باتوں کا مختلف ہونا بہرحال ضروری بھی ہوتا ہے۔ جرنیل اگر سفارت کار کا لب و لہجہ اور طرزِ عمل اختیار کرے گا تو جنگ نہیں لڑ سکے گا، اسی طرح سفیر اپنے فرائض کی ادائیگی میں جرنیل بننے کی کوشش کرے گا تو ملک و قوم کے لیے مشکلات کھڑی کر دے گا۔
میں خود تحفظ و دفاع کی دنیا کا آدمی ہوں اور میری تربیت، ذہنی ساخت اور طرز عمل تینوں اس سانچے میں ڈھلے ہوئے ہیں۔ بحمد اللہ تعالیٰ نصف صدی سے اسی محاذ پر اپنی استطاعت و صلاحیت کے مطابق سرگرم عمل ہوں اور مرتے دم تک اسی میں مصروف رہنے کو اپنے لیے سعادت اور نجات کا ذریعہ سمجھتا ہوں۔ لیکن کسی داعی اور مصلح کے لیے کبھی یہ پسند نہیں کروں گا کہ میری طرح کسی کو مخالف سمجھ کر اس کی کمزوریاں تلاش کرے اور ان کمزوریوں کو اجاگر کر کے اپنا موقف ثابت کرنے کی کوشش کرے۔ داعی کا کام یہ ہے کہ کسی بھی مخاطب کو مخالف سمجھ کر اپنی گفتگو کا آغاز نہ کرے بلکہ اسے یہ احساس دلائے کہ وہ اس کا خیرخواہ اور ہمدرد ہے، اس کی تمام تر کمزوریوں سے آنکھیں بند کرتے ہوئے محبت اور پیار کے لہجے میں اسے قریب لانے کی کوشش کرے اور دنیا کے کسی بھی طبقے یا فرد کو اپنی تگ و تاز کے دائرے سے باہر نہ سمجھے۔ دعوت و دفاع کے دائرے الگ الگ ہیں اور ان کے تقاضے اور ضروریات بھی الگ الگ ہیں، دونوں کو گڈمڈ کر دینے سے کوئی کام بھی صحیح طریقے سے نہیں ہو سکے گا۔
ہمارے ایک فاضل اور دانشور بزرگ ڈاکٹر حمید اللہؒ حیدر آباد دکن کی ریاست ختم ہوجانے کے بعد وہاں سے یورپ چلے گئے تھے۔ وہ ہمارے ہی علمی و فکری حلقے کے بزرگ تھے، جامعہ عثمانیہ حیدرآباد ان کی تعلیمی جولانگاہ رہی ہے اور وہ حضرت مولانا مناظر احسنؒ گیلانی کے تلامذہ میں سے تھے۔ انہوں نے پیرس کو اپنا مسکن قرار دیا اور دعوت و تبلیغ کو مشغلہ بنا لیا۔ قدیم صوفیاء کرام کی طرح محبت اور خیرخواہی ان کا سب سے بڑا ہتھیار تھے، انہوں نے نصف صدی تک اپنا درویش خانہ آباد رکھا اور جب وہ دنیا سے اٹھے تو ان کے ہاتھ پر مسلمان ہونے والوں کی تعداد تیس ہزار کے لگ بھگ بیان کی جاتی ہے۔ ہم اگر اپنے بنائے ہوئے پیمانوں سے ان کے عمل و کردار کو ماپنا شروع کر دیں تو شاید بہت سے دوستوں کو انہیں راسخ العقیدہ مسلمان قرار دینے میں بھی تامل ہو لیکن ان کا جو کردار تاریخ نے اپنے سینے میں محفوظ کر لیا ہے اس میں وہ بلاشبہ حضرت خواجہ معین الدین اجمیریؒ اور حضرت سید علی ہجویریؒ کی نمائندگی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
میں آج کے حالات کے تناظر اور تقاضوں کے پیش نظر قومی سیاست میں علماء کرام کے کردار کو ضروری سمجھتا ہوں، خود اس کا داعی اور اس میں شریک کار رہا ہوں، لیکن حضرت مجدد الفؒ ثانی کے عظیم تاریخی کردار کو ایک لمحے کے لیے اپنی آنکھوں سے اوجھل کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں جنہوں نے اقتدار کی کشمکش میں فریق بنے بغیر، بلکہ بعض روایات کے مطابق اقتدار کی پیشکش کو ٹھکراتے ہوئے اور سب کو اپنا سمجھتے ہوئے بے غرضی اور سعی مسلسل کے ہتھیاروں کے ساتھ اکبر بادشاہ کے خودساختہ ’’دین الٰہی‘‘ کو شکست سے دوچار کیا۔ حتیٰ کہ محبت اور پیار کے ساتھ حکمران مغل خاندان میں ایسی ’’نقب‘‘ لگائی جس سے نمودار ہو کر خود اکبر بادشاہ کے پڑپوتے محی الدین اورنگزیب عالمگیر نے برصغیر میں اسلام کی سربلندی اور اسلامی شریعت کے عملی نفاذ کا پرچم گاڑ دیا۔ تاریخ کے ایک طالب علم کے طور پر مجھے یہ بات سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی کہ اگر حضرت مجدد الفؒ ثانی اپنے دور کے حالات اور تقاضوں کو سامنے رکھ کر حکمت و فراست کا یہ پہلو اختیار نہ کرتے اور بے غرضی اور بے لوثی کی عزیمت کا دامن نہ تھامتے تو ان کی سعی و محنت کے عالم اسباب میں یہ ثمرات و نتائج شاید تاریخ کا حصہ نہ بن پاتے۔
مولانا طارق جمیل سے بہت سے دوستوں کو شکایات ہوں گی، بعض امور میں شاید مجھے بھی ہوں، لیکن میں ان کی جدوجہد کی حمایت کرتا ہوں اور اسے دین کا ایک ناگزیر تقاضا سمجھتا ہوں۔ مجھے ان کے طرزِ خطابت اور اندازِ گفتگو میں یہ بات سب سے زیادہ اچھی لگتی ہے کہ وہ کسی کے خلاف بات نہیں کرتے، اپنے مخاطبین کو مخالف سمجھ کر ان سے خطاب نہیں کرتے، وہ دعوت و تبلیغ کے کام میں اپنے اور پرائے کے فرق سے بے پروا ہو جاتے ہیں، مسلمانوں کے باہمی اختلافات کو زیربحث نہیں لاتے، اپنی بات سننے والوں کے دماغ سے نہیں بلکہ دل سے بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں، محبت و خیر خواہی اور ہمدردی کے جذبے میں ڈوب کر گفتگو کرتے ہیں اور کسی طبقے یا مکتب فکر کو اپنے دائرۂ خطاب سے باہر نہیں رہنے دیتے۔ یہ کام شاید میں نہ کر سکوں اور اسلام کے غلبہ، نفاذ، تحفظ اور دفاع کے محاذ کے کسی بھی کارکن کے لیے یہ باتیں اس کی جدوجہد کی مصلحت اور ضرورت سے شاید ہم آہنگ نظر نہ آئیں لیکن دعوت اور اصلاح کی ضرورت یہی ہے اور اس محاذ کے تقاضے یہی ہیں۔ اسی لیے مولانا طارق جمیل کا نائن زیرو جانا مجھے بہت اچھا لگا ہے، یہ کراچی کی ضرورت بھی ہے، ملک کے امن کی ضرورت بھی ہے اور دعوت و تبلیغ کی ضرورت بھی ہے۔ انہیں سب باتیں بھول کر اور ہر جھگڑے کو پس پشت ڈال کر بلاامتیاز ہر سیاسی مرکز میں جانا چاہیے اور اس پیغام محبت کو عام کرنا چاہیے۔ حضرت خواجہ معین الدین اجمیریؒ، حضرت سید علی ہجویریؒ اور حضرت مجدد الفؒ ثانی کی روایات کی نمائندگی کرنے والا ہمارے دور میں آخر کوئی تو ہو۔