روزنامہ پاکستان لاہور (۱۹ ستمبر ۲۰۱۱ء) کی ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ:
’’سوئس بینک کے ایک ڈائریکٹر نے کہا ہے کہ سوئس بینکوں میں پاکستان کی ۹۷ ارب ڈالر کی رقم پڑی ہے، پاکستانی غریب ہیں لیکن پاکستان غریب نہیں ہے کیونکہ پاکستان کے ۹۷ ارب ڈالر کی رقم سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں ڈیپازٹ ہیں۔ اگر اس رقم کو استعمال کیا جائے تو پاکستان جیسا ملک اس رقم سے ۳۰ سال تک ٹیکس فری بجٹ بنا سکتا ہے، تمام پاکستانیوں کو چھ کروڑ ملازمتیں دی جا سکتی ہیں، کسی بھی دیہات سے اسلام آباد تک دو رویہ سڑکیں تعمیر کی جا سکتی ہیں، ۵۰۰ سوشل پروجیکٹس کو ہمیشہ کے لیے بجلی فراہم کی جا سکتی ہے، پاکستان کا ہر شہری ۶۰ سال کے لیے ماہانہ بیس ہزار روپے تنخواہ حاصل کر سکتا ہے، اور پاکستان کو کسی عالمی بینک یا آئی ایم ایف کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔‘‘
ہم ایک عرصہ سے سنتے آرہے ہیں کہ سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں، جہاں دنیا کے کسی بھی شخص کو خفیہ ڈیپازٹ رکھنے کی سہولت حاصل ہے، رقم جمع کرانے والا شخص خود کو ہر قسم کے مالی احتساب سے محفوظ رکھ سکتا ہے، پاکستانی سرمایہ داروں کی بہت زیادہ رقم موجود ہے۔ یہ رقم اگر ملک میں واپس لائی جائے تو پاکستان کی بیشتر معاشی مشکلات اور پریشانیاں دور ہو سکتی ہیں اور وہ قرضوں سے نجات حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ترقی کی راہ پر بھی گامزن ہو سکتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ رقوم زیادہ تر ان لوگوں کی ہیں جنہوں نے:
- بددیانتی اور کرپشن کے ذریعے ملک کا خزانہ لوٹا ہے،
- یا ملک کے ساتھ دھوکہ اور فراڈ کر کے بین الاقوامی سودوں میں کمیشن کمایا ہے،
- یا ناجائز طریقہ سے قومی دولت ذاتی طور پر اپنے ناموں سے ان بینکوں میں جمع کرا رکھی ہے۔
ادھر وطن عزیز کی داخلی صورتحال یہ ہے کہ بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ نے عوام کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے، مہنگائی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے، روزگار اور ملازمت کے مواقع کم ہوتے جا رہے ہیں، صنعت و حرفت روبہ زوال دکھائی دے رہی ہے، اور تجارت پیشہ طبقات و افراد اپنی پریشانیوں کے ہاتھوں بیزار نظر آتے ہیں۔
دوسری طرف سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں پاکستانیوں کی اتنی رقم پڑی ہے جس سے پاکستان سالانہ بجٹ میں کم از کم تیس سال تک ٹیکسوں سے بے نیاز ہو سکتا ہے، یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان میں وسائل اور دولت کی کمی نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس ملک کو وسیع تر وسائل سے مالامال کر رکھا ہے، مگر اصل مسئلہ بدعنوانی، کرپشن اور دولت کی غلط تقسیم کے نظام کا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اگر آج بھی ملک کے معاشی نظام کو اسلامی اصولوں اور خلفاء راشدینؓ کے رفاہی نظام کی راہنمائی میں از سر نو تشکیل دیا جائے تو وطن عزیز ایک رفاہی اور خوشحال ریاست کی شکل اختیار کر سکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ایسا کون کرے گا؟ ہماری گزارش یہ ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان جو قومی زندگی کے دیگر شعبوں میں کرپشن کو ختم کرنے کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں کیا قومی کرپشن کے اس پہلو کی طرف توجہ نہیں دے سکتے؟