میں ایک عرصہ سے علماء کرام اور دینی حلقوں سے گزارش کر رہا ہوں کہ اپنے پیغام اور موقف کو آج کے ماحول میں آج کے انداز اور اسلوب میں پیش کریں اور بریفنگ اور لابنگ کے جدید ذرائع اور تکنیک پر دسترس حاصل کریں، ورنہ وہ اپنی بات آج کی نسل تک صحیح طور پر نہیں پہنچا سکیں گے، اور آج کی نسل کے صحیح بات تک رسائی حاصل نہ کر سکنے کی ذمہ داری نئی نسل کی نسبت علماء کرام اور دینی حلقوں پر زیادہ عائد ہوگی۔ اپنے موقف اور پیغام کو جدید اسلوب اور تکنیک کے ساتھ پیش کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ موقف میں کوئی لچک پیدا کی جائے، یا پیغام کو گول مول کر دیا جائے، بلکہ موقف اور پیغام کو اپنی اصل حالت میں رکھتے ہوئے اسے بیان کرنے کا انداز ایسا اختیار کیا جائے کہ مخاطب اس بات کو بخوبی سمجھ سکے اور پیغام رسانی کا دائرہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک وسیع ہو۔
اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ جن حلقوں، لابیوں اور قوتوں کے خلاف آپ فکری کشمکش اور نظریاتی محاذ آرائی میں مصروف ہیں، ان کے ساتھ بھی آپ کا رابطہ اس حد تک بہرحال باقی ہو کہ آپ کی بات ان تک صحیح طور پر پہنچے اور ان کی بات سے آپ پوری طرح باخبر ہوں۔ ورنہ دونوں طرف کی نامکمل معلومات اور ناتمام سوال و جواب کا نتیجہ فریقین کے لیے فائدہ کی بجائے نقصان کا باعث ہوگا۔ اس لیے مجھے جہاں بھی علماء کرام یا دینی کارکنوں کے کسی حلقہ میں اس حوالہ سے کچھ عرض کرنے کا موقع ملتا ہے تو یہ ضرور گزارش کرتا ہوں کہ جس کے خلاف بھی آپ جنگ لڑ رہے ہیں
- اس کے بارے میں آپ کے پاس معلومات مکمل اور تازہ ہونی چاہئیں،
- اس کی ذہنی سطح اور نفسیات سے آپ کو باخبر ہونا چاہیے،
- اس کے طریقۂ واردات اور مورچوں سے آپ کو پوری طرح آگاہ ہونا چاہیے،
- اور اس کی قوت کے سرچشموں پر آپ کی نظر ہونی چاہیے۔
کیونکہ اس کے بغیر کوئی بھی جنگ خواہ وہ فکری ہو یا عسکری، علمی ہو یا تہذیبی، صحیح طور پر نہیں لڑی جا سکتی۔ اور محض جذبات کے سہارے لڑی جانے والی جنگوں کے مقدر میں ناکامی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔
اس پس منظر میں گزشتہ دنوں دو خبریں کسی حد تک اطمینان کا باعث بنیں اور تسلی ہوئی کہ ہماری دینی قیادت نے آج کے تقاضوں کو سمجھنے اور ان کے مطابق طرز عمل اختیار کرنے میں اگرچہ دیر کر دی ہے، لیکن ابھی بہت زیادہ دیر نہیں ہوئی اور معاملات کے کسی حد تک سنبھلنے کی توقع پیدا ہو رہی ہے۔
ان میں سے ایک خبر افغان ڈیفنس کونسل کی دینی قیادت کا اسلام آباد میں مختلف ممالک کے سفارتی نمائندوں سے ملاقات کر کے انہیں افغانستان کے بارے میں پاکستان کے عوام اور دینی حلقوں کے جذبات سے آگاہ کرنا، اور کونسل کے سرکردہ قائدین کی مختلف ممالک کا دورہ کر کے وہاں کی حکومتوں سے براہ راست گفتگو کا پروگرام طے کرنا ہے۔
جبکہ دوسری خبر یہ ہے کہ راولپنڈی اور اسلام آباد کے علماء کرام نے اسلام آباد میں اقوام متحدہ کے دفتر کے سامنے خاموش مظاہرہ کر کے اقوام متحدہ کے سفارتی اہلکاروں کو یادداشت پیش کی ہے۔ جب مجھے بتایا گیا کہ اس مظاہرہ میں سینکڑوں علماء کرام شامل تھے اور اس کے باوجود یہ مکمل طور پر ایک خاموش مظاہرہ تھا تو ایک خوشگوار حیرت کے احساس نے دل و دماغ کا احاطہ کر لیا۔ چنانچہ میں نے اس پیشرفت پر مظاہرہ کی قیادت کرنے والے راہنما مولانا قاری سعید الرحمٰن کو خود مل کر مبارکباد دی اور خوشی کا اظہار کیا۔
یہ مظاہرہ ماہِ رواں کی چھ تاریخ کو ہوا۔ اس کا اہتمام جمعیت اہل السنۃ والجماعۃ راولپنڈی و اسلام آباد نے کیا تھا، اور اس کی قیادت کرنے والوں میں پاکستان شریعت کونسل پنجاب کے امیر مولانا قاری سعید الرحمٰن کے ساتھ جمعیت اہلِ سنت کے قائدین مولانا قاضی عبدالرشید، مولانا ظہور احمد علوی، مولانا عبد الرشید، مولانا محمد اکرم ہمدانی، مولانا محمد نذیر فاروقی، مولانا قاری محمد رفیق، مولانا سید چراغ الدین شاہ، مولانا عبدالکریم، مولانا تاج محمد، مولانا عبد الخالق، مولانا قاری احسان اللہ، مولانا گوہر رحمان، قاری محمد حنیف، مولانا حافظ محمد اسحاق، مولانا ممتاز الحق، مولانا شاکر محمود اور مولانا حبیب الرحمٰن شامل تھے، جبکہ دیگر شرکاء کی تعداد سینکڑوں میں بیان کی جاتی ہے۔ ان رہنماؤں کی طرف سے اقوام متحدہ کے اسلام آباد آفس کو جو یادداشت پیش کی گئی اس میں:
- دینی و تعلیمی میدان میں دینی مدارس اور علماء کرام خود دہشت گردی کا شکار ہو رہے ہیں اور پاکستان کے دینی حلقوں کو بلا وجہ دنیا بھر میں بدنام کیا جا رہا ہے۔
- یادداشت میں یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ پاکستان میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کی جو صورت نظر آ رہی ہے، اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ریاستی ادارے اس دہشت گردی کے اسباب و عوامل کی نشاندہی اور ذمہ دار افراد کے خلاف کارروائی میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ جس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ کشمکش دراصل سنی اور شیعہ گروہوں میں نہیں، بلکہ اس کے پیچھے کوئی اور ہاتھ کار فرما ہے جو اس کشمکش اور کشیدگی میں مسلسل اضافہ کے لیے سرگرمِ عمل ہے۔
- یادداشت میں اقوام متحدہ سے کہا گیا ہے کہ اگر اسے اس خطہ کے امن سے دلچسپی ہے تو وہ اس دہشت گردی کے خاتمہ میں دلچسپی لے اور اس سلسلہ میں اپنا کردار ادا کرے۔
ممکن ہے کچھ دوستوں کو علماء کرام کے اس طرح اقوام متحدہ کے سامنے یادداشت پیش کرنے پر اعتراض ہو، مگر مجھے اس لحاظ سے خوشی ہوئی ہے کہ علماء کرام نے متعلقہ اداروں تک اپنا موقف براہ راست پہنچانے کی ضرورت کو محسوس کیا ہے۔ اور میرے نزدیک اس کی حیثیت درخواست پیش کرنے کی نہیں بلکہ اتمامِ حجت کرنے کی ہے، جو نہ صرف ایسے معاملات میں ضروری ہے بلکہ ہماری شرعی ذمہ داری ہے۔