پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں ملکوں میں تحریک ختم نبوت کے حوالہ سے سرگرمیوں میں کچھ عرصہ سے اضافہ ہو رہا ہے۔ بنگلہ دیش میں قادیانیوں کے لٹریچر کو خلاف قانون قرار دے دیا گیا ہے، جبکہ قادیانی امت کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے لیے دینی حلقوں کی جدوجہد جاری ہے، عوامی جلسے اور مظاہرے ہو رہے ہیں اور اخبارات و جرائد میں مطالبات اور مضامین کا سلسلہ جاری ہے۔
گذشتہ روز مولانا منظور احمد چنیوٹی سے ملاقات کے لیے چنیوٹ گیا تو لندن سے بنگلہ دیشی عالم دین مولانا محمد عبد المنتقم سلہٹی کا ایک مراسلہ ہم دونوں کے نام وہاں آیا ہوا تھا کہ قادیانیوں نے اپنے دفاع میں ایک اشتہار وسیع پیمانے پر تقسیم کیا ہے، جس میں عوام کو مغالطہ دینے کے لیے نئی نکتہ آفرینیاں کی گئی ہیں۔ اس کے ساتھ بنگلہ زبان کے اس اشتہار کا اردو ترجمہ بھی تھا، جس کے جواب کے سلسلہ میں ہم سے رابطہ قائم کیا گیا تھا۔ اس اشتہار میں بہت سے روایتی سوالات و اعتراضات ہیں جو سینکڑوں بار دہرائے گئے ہیں اور سینکڑوں بار ان کا جواب دیا جا چکا ہے۔ مگر ایک دو باتیں نئی بھی تھیں، جن کے جواب کے لیے ہمارا مشورہ ہوا۔
- ایک نکتہ یہ تھا کہ کیا موجودہ مسلم حکومتوں کو یہ اتھارٹی شرعاً حاصل ہے کہ وہ کسی فرد یا گروہ کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیں؟ اس کے جواب میں ہم نے عرض کیا کہ اگر قرآن و سنت کی بنیاد پر خلافت یا اسلامی امارت کا نظام قائم ہو تو یہ اتھارٹی اسی کی ہے کہ کسی شخص یا گروہ کو اسلام کے عقائد سے انحراف کی بنیاد پر دائرہ اسلام سے خارج قرار دے اور اس کا فیصلہ شرعاً نافذ ہو گا۔ لیکن اگر کوئی مسلمان حکومت اسلامی امارت کے معیار پر پوری نہیں اترتی تو اس کا یہ اختیار فی الواقع محل نظر ہو گا اور اسلامی امارت کے خلا کی صورت میں یہ ذمہ داری علماء کرام اور دینی اداروں کی طرف منتقل ہو جائے گی اور ان کا فیصلہ نافذ العمل ہو گا۔ اس لیے موجودہ مسلمان حکومتوں سے ہمارا مطالبہ یہ نہیں ہے کہ وہ قادیانیوں کے غیر مسلم ہونے کا شرعی فیصلہ کریں، بلکہ ان سے ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ دنیا بھر کے علماء امت نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا جو فیصلہ شرعی طور پر کر دیا ہے اور جس پر امت کے تمام مکاتب فکر کے علماء کرام اور دینی مراکز متفق ہیں، اس شرعی فیصلہ کو مسلمان حکومتیں اپنے اپنے ملکوں میں دستوری اور قانونی حیثیت دے کر اسلامی عقائد کا تحفظ کریں۔
- ایک سوال اس اشتہار میں یہ ہے کہ قرآن کریم میں صراحت کی گئی ہے کہ دین کے معاملہ میں کوئی جبر نہیں ہے اور کسی شخص کو کوئی بھی مذہب اختیار کرنے یا اسے ترک کرنے کا حق حاصل ہے۔ ہم نے جواب میں گزارش کی ہے کہ قرآن کریم نے مذہب اختیار کرنے کے بارے میں جبر کی نفی کی ہے کہ کسی شخص کو زبردستی مسلمان نہیں بنایا جا سکے گا۔ لیکن مذہب ترک کرنے کے بارے میں قرآن کریم نے یہ بات نہیں کہی، بلکہ بنی اسرائیل میں بچھڑے کی پوجا کرنے والوں کو مرتد قرار دے کر ان کو موت کی سزا دینے کا تذکرہ قرآن کریم میں موجود ہے اور دیگر متعدد آیات میں ارتداد کی مذمت کرتے ہوئے مسلمانوں کو اس سے باز رہنے کی تلقین کی گئی ہے اور اس کی سزا بیان کی گئی ہے۔ اس لیے یہ کہنا قطعی طور پر غلط ہے کہ قرآن کریم نے مذہب اختیار کرنے اور اس کو ترک کرنے کو یکساں درجے میں رکھا ہے۔
- ایک سوال یہ بھی تھا کہ اقوام متحدہ کے منشور کے مطابق مذہبی آزادی ہر شخص کو حاصل ہے اور مذہب اختیار کرنے یا ترک کرنے کی آزادی بین الاقوامی طور پر مسلمہ انسانی حقوق میں شامل ہے۔ اس کے جواب میں عرض کیا گیا کہ یہ درست ہے، لیکن اس کے ساتھ بین الاقوامی قوانین میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ہر گروہ اور قوم کو اپنے جداگانہ تشخص اور امتیاز کے تحفظ کا حق حاصل ہے اور اگر کسی قوم یا مذہب کے لوگ دوسرے مذہب یا قوم کے مخصوص شعائر اور علامات استعمال کر کے اشتباہ اور دھوکہ کی صورت اختیار کرتے ہیں تو متاثرہ فریق کو اس کے خلاف آواز اٹھانے اور اپنے مذہبی تشخص اور علامات و اصطلاحات کے تحفظ کے لیے اقدامات کرنے کا حق حاصل ہے۔
اس پس منظر میں قادیانی گروہ اپنے مذہب کو دنیا بھر کے مسلمانوں کے مذہب سے الگ سمجھتا ہے اور ایک ارب سے زیادہ مسلمانوں کو اپنا ہم مذہب قرار نہیں دیتا، لیکن نام اور اصطلاحات الگ اختیار کرنے کی بجائے مسلمانوں کے شعائر اور علامات و اصطلاحات کے ذریعہ دنیا میں اپنا تعارف کراتا ہے، جس سے دھوکہ اور اشتباہ کی فضا قائم ہوتی ہے۔ اس لیے بین الاقوامی قوانین کی رو سے بھی مسلمانوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مذہبی شناخت اور علامات و اصطلاحات کے تحفظ کے لیے دستور و قانون سے رجوع کریں اور اشتباہ کی فضا کو ختم کرنے کے لیے ضروری اقدامات کا مطالبہ کریں۔
بنگلہ دیش میں تحریک ختم نبوت کی قیادت مجلس تحفظ ختم نبوت کر رہی ہے جس کے امیر جامع مسجد بیت المکرم ڈھاکہ کے خطیب حضرت مولانا عبید الحق مدظلہ ہیں اور مولانا نور الاسلام سیکرٹری جنرل کے طور پر متحرک کردار ادا کر رہے ہیں۔ قارئین سے گزارش ہے کہ اس کے لیے بطور خاص دعاؤں کا اہتمام کریں کہ اللہ تعالیٰ بنگلہ دیش میں تحریک ختم نبوت کو جلد از جلد کامیابی سے ہمکنار کریں، آمین۔
ادھر پاکستان میں گزشتہ دنوں نئے ووٹروں کے اندراج کے سلسلہ میں ووٹر فارموں کی تقسیم شروع ہوئی تو اس میں عقیدہ ختم نبوت کا وہ حلف نامہ غائب تھا جو اپنا نام مسلم ووٹروں کی فہرست میں درج کرانے کے لیے ہر مسلمان کو پُر کرنا پڑتا ہے اور جس کی بنیاد پر قادیانیوں کے ووٹروں کا اندراج الگ طور پر غیر مسلم ووٹروں کے طور پر ہوتا ہے۔ اس سے قبل بھی ایک موقع پر یہ حلف نامہ ووٹر فارم سے حذف کر دیا گیا تھا، لیکن دینی حلقوں کے مسلسل مطالبہ پر اسے دوبارہ شامل کیا گیا۔ اس بار پھر یہی صورت حال پیش آ گئی اور نئے ووٹروں کے اندراج میں اس حلف نامہ کے بغیر فارم تقسیم ہونے لگے تو دینی حلقوں میں اضطراب اور تشویش کی لہر اٹھی۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ اور دیگر دینی جماعتوں نے اس سلسلہ میں مؤثر آواز اٹھائی اور ملک بھر میں جمعۃ المبارک کے خطبات، دینی اجتماعات اور اخبارات میں اس پر احتجاج کیا گیا۔ جبکہ انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے سیکرٹری جنرل مولانا منظور احمد چنیوٹی نے ایک وفد کے ہمراہ چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) ارشاد حسن خان سے ملاقات کر کے انہیں اس طرف متوجہ کیا کہ ووٹر فارم سے اس حلف نامہ کا حذف کرنا دستور اور قانون کے تقاضوں کے بھی خلاف ہے، جس پر چیف الیکشن کمشنر نے اس موقف کو تسلیم کرتے ہوئے ایک پریس ریلیز میں الیکشن کمیشن کی تمام شاخوں کو ہدایت کر دی کہ وہ نئے ووٹروں سے یہ حلف نامہ پُر کرائیں اور اس سے قبل جو ووٹر اس حلف نامہ کے بغیر درج ہوئے ہیں، اگر ان میں سے کسی کو چیلنج کیا جائے تو وہ اسے دوبارہ طلب کر کے یہ حلف نامہ اس سے پُر کرائیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے نئے ووٹروں کے اندراج کی آخری تاریخ میں ایک ماہ کی توسیع کر دی ہے اور اب نئے ووٹروں کا اندراج یا اس حلف نامہ کی بنیاد پر کسی ووٹر کے اندراج کو اٹھائیس فروری تک چیلنج کیا جا سکے گا۔