گزشتہ روز اسلام آباد میں ’’برصغیر میں مطالعۂ حدیث‘‘ کے عنوان پر ایک سیمینار میں شرکت کا موقع ملا۔ اس سیمینار کا اہتمام ادارہ تحقیقات اسلامی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد نے کیا اور یہ ۲۱ و ۲۲ اپریل ۲۰۰۳ء کو دو دن تک جاری رہا۔ ادارہ تحقیقات اسلامی کا قیام صدر محمد ایوب خان مرحوم کے دور میں وزارت مذہبی امور کے تحت عمل میں لایا گیا تھا جس کے پہلے سربراہ ڈاکٹر فضل الرحمٰن تھے۔ ڈاکٹر فضل الرحمٰن چوبرجی لاہور کے ایک فاضل دیوبندی بزرگ حضرت مولانا شہاب الدینؒ کے فرزند تھے اور علوم قدیم و جدید پر گہری نظر رکھتے تھے لیکن اسلامی احکام کی تعبیر و تشریح میں ضرورت سے زیادہ توسیع کے قائل تھے اور بسا اوقات وہ ’’ ریڈ لائن‘‘ بھی کراس کر جایا کرتے تھے جسے کراس کرنے کی اجازت کسی دور میں بھی علماء امت نے نہیں دی۔ چنانچہ مختلف دینی احکام کے حوالہ سے ان کی تشریحات و تعبیرات پر ملک کے دینی حلقوں کی طرف سے شدید اعتراضات ہوئے اور صدر ایوب خان کے خلاف عوامی تحریک میں وہ بھی ایک مستقل موضوع گفتگو قرار پا گئے۔ حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ نے اس مہم میں علمی محاذ کی کمان سنبھالی اور علمی دلائل کے ساتھ واضح کیا کہ ڈاکٹر فضل الرحمٰن کی تعبیرات و تشریحات کو قرآن و حدیث کی تعبیر و تشریح کے ان مسلمہ اصولوں کی روشنی میں قبول نہیں کیا جا سکتا جو گزشتہ چودہ صدیوں میں امت مسلمہ کے علمی و دینی حلقوں میں میں اجماعی طور پر طے شدہ چلے آرہے ہیں۔ چنانچہ ڈاکٹر فضل الرحمٰن اپنے منصب سے سبکدوش ہو کر واپس شکاگو یونیورسٹی چلے گئے اور وہیں انہوں نے زندگی کے آخری ایام بسر کیے۔
اب تحقیقات اسلامی کا یہ ادارہ وزارت مذہبی امور کی بجائے بین الاقوامی یونیورسٹی اسلام آباد کے تحت کام کر رہا ہے اور اس کے ڈائریکٹر جنرل محترم ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری ہیں جو تحریک پاکستان کے ممتاز راہنما حضرت مولانا ظفر احمد انصاریؒ کے فرزند ہیں اور دینی و عصری علوم کی مہارت سے بہرہ ور ہیں۔ ادارہ تحقیقاتی اسلامی کے ساتھ بہت سے اصحاب علم و دانش وابستہ ہیں اور مختلف شعبوں میں قابل قدر علمی و تحقیقی کام ہو رہا ہے۔ ادارہ کی ایک عظیم لائبریری ہے جس میں ہزاروں نایاب کتابوں کو جمع کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے اور ’’فکر و نظر‘‘ کے عنوان سے ایک جریدہ بھی شائع ہوتا ہے جس میں ملک کے نامور اصحاب قلم کی نگارشات مختلف موضوعات پر شائع ہوتی ہیں۔
’’برصغیر میں مطالعۂ حدیث‘‘ کے عنوان پر ادارہ تحقیقات اسلامی نے دو روزہ علمی سیمینار کا اہتمام کیا جس کی پانچ نشستیں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے آڈیٹوریم میں ہوئیں اور ان میں حدیث نبوی علیٰ صاحبھا التحیہ والسلام سے تعلق رکھنے والے بیسیوں عنوانات پر ممتاز اصحاب علم و دانش نے مقالات پیش کیے۔ برصغیر کے دینی مدارس میں حدیث نبویؐ کی تدریس و تعلیم، نامور محدثین کی علی و دینی خدمات کا جائزہ، اور حدیث نبویؐ کے مطالعہ کے حوالہ سے حال و مستقبل کی ضروریات کی نشاندہی بطور خاص ان موضوعات کا حصہ تھے۔ راقم الحروف کو’’ احادیث نبویہؐ پر موجودہ کام اور مستقبل کی ضرورتوں کا جائزہ‘‘ کے عنوان پر سیمینار میں مضمون پڑھنے کی دعوت دی گئی تھی اور فون پر بتایا گیا تھا کہ میری حاضری آخری نشست میں طے پائی گئی ہے۔
عزیزم حافظ محمد عمار خان ناصر سلمہ کے ہمراہ ۲۲ اپریل کو عصر سے قبل فیصل مسجد میں پہنچا تو دیکھا کہ سامان سمیٹا جا رہا ہے۔ یونیورسٹی کے گیٹ پر ایک صاحب سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ سیمینار تو ختم ہو چکا ہے، یہ سن کر بے حد پریشانی ہوئی کہ مجھے تو آخری نشست کا وقت مغرب کے بعد کا بتایا گیا تھا۔ اتنے میں محترم پروفیسر ڈاکٹر سفیر اختر صاحب نے دیکھ لیا جو سامان سمیٹ کر واپس جا رہے تھے، وہ دوڑے دوڑے آئے اور بتایا کہ آخری نشست علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے آڈیٹوریم میں ہونا طے پائی ہے اور سب مہمان وہیں ہاسٹل میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب موصوف بھی ادارہ تحقیقات اسلامی سے وابستہ ہیں اور سیمینار کے منتظمین میں سے ہیں، اس لیے پریشانی دور ہو گئی اور ہم ان کے ساتھ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے جناح ہاسٹل میں چلے آئے۔
ہاسٹل پہنچ کر ایک اور لطیفہ ہوا، جو لطیفہ بھی ہے اور لمحۂ فکریہ بھی۔ وہ یہ کہ جب مجھے اور عزیزم عمار سلمہ کو ہاسٹل کے ایک کمرہ میں ٹھہرایا گیا اور ہمیں آرام کا کہہ کر میزبان کچھ دیر کے لیے چلے گئے تو تھوڑی دین کے بعد ایک محترم بزرگ دو ساتھیوں کے ہمراہ تشریف لائے اور ہمیں کمرے میں دیکھ کر انہیں تعجب ہوا۔ ان کا فرمانا یہ تھا کہ یہ کمرہ تو انہیں دیا گیا تھا اور ان کے واپس جانے سے قبل ہی آپ کو دے دیا گیا ہے، خیر وہ اس وقت واپسی ہی کی تیاری میں تھے اس لیے مسئلہ زیادہ لمبا نہیں ہوا۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کا آپ اتنی تاخیر سے کیوں آئے ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ مجھے آخری نشست کے لیے ہی کہا گیا تھا۔ انہوں نے مجھے سر سے پاؤں تک غور سے دیکھا ، میری ہیئت کذائیہ پر نظر ڈالی پھر اپنے ساتھیوں کی طرف متوجہ ہوئے اور قدرے حیرت کے ساتھ یوں گویا ہوئے کہ ’’شاید دعا وغیرہ کے لیے کہا ہو گا‘‘۔ میں بمشکل ہنسی ضبط کر سکا اور ان سے عرض کیا کہ ہاں ہو سکتا ہے یہی بات ہو، مگر ذہن کے سمندر میں کئی لہریں طلاطم خیز ہونے لگیں۔ موصوف کا نام لینا مناسب نہیں سمجھتا مگر وہ ایک معروف دانشور ہیں اور انہوں نے بھی اس سیمینار میں مقالہ پڑھا ہے۔ دراصل انہیں مجھے دیکھ کر یہ یقین نہیں آرہا تھا کہ اس شکل و صورت اور ہیئت کذائیہ کے لوگ بھی اس قسم کے علمی سیمینار میں مدعو ہو سکتے ہیں اور وہ بھی اختتامی نشست میں۔ ان کا خیال تھا کہ اس طرز کے لوگوں کا اب صرف یہی کام رہ گیا ہے کہ وہ کسی مجلس کے اختتام پر برکت کے لیے دعا کر دیا کریں۔ میرے نزدیک یہ بات علماء کرام کے پورے حلقے کے لیے لمحۂ فکر یہ ہے کہ ہمارے بارے میں ملک کے علمی حلقوں کا عمومی تاثر کیا ہے؟
نماز مغرب کے بعد اقبال اوپن یونیورسٹی کے آڈیٹوریم میں ’’برصغیر میں مطالعۂ حدیث‘‘ پر ادارہ تحقیقات اسلامی کے دو روزہ علمی سیمینار کی اختتامی نشست کا انعقاد ہوا اور یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ مختلف علمی اداروں اور یونیورسٹیوں سے تعلق رکھنے والے بہت سے ارباب علم و دانش جمع تھے اور انتہائی سنجیدگی کے ساتھ اس علمی مباحثہ میں شریک تھے۔ اس نشست کی صدارت علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر محترم ڈاکٹر سید الطاف حسین نے کی اور مہمان خصوصی کی کرسی پر مجھے بٹھا دیا گیا۔ جبکہ خطاب کرنے والوں میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے وائس چانسلر فضیلۃ الدکتور حسن محمود الشافعی، پروفیسر ڈاکٹر علی اصغر چشتی، پروفیسر ڈاکٹر سفیر اختر، پروفیسر ڈاکٹر احمد الغزالی، پروفیسر ڈاکٹر سہیل حسن، پروفیسر ڈاکٹر ضیاء الحق، اور پروفیسر ڈاکٹر باقر خاکوانی شامل تھے۔
محترم ڈاکٹر حسن الشافعی نے حدیث نبوی کے حوالہ سے مستقبل کی ضروریات کی خوبصورت انداز میں وضاحت کی اور خاص طور پر حضرت امام ولی اللہ دہلویؒ کے فلسفہ پر روشنی ڈالی کہ اسلامی نظام کے بارے میں آج کی ضرورت یہ ہے کہ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے فلسفہ و فکر سے دنیا کو متعارف کرایا جائے اور اس کی روشنی میں انسانی حقوق، جدید عمرانی علوم، اور سیاسی اجتماعیت جیسے مسائل پر احادیث نبویہؐ کی تحقیق و تشریح کی جائے۔ ڈاکٹر حسن الشافعی نے ایک اور ضرورت کی طرف بھی توجہ دلائی کہ اہل سنت اور اہل تشیع کی روایات اور ان کے ذرائع مختلف ہیں لیکن اگر دونوں مذاہب کی مشترکہ روایات کو یکجا کرنے کا اہتمام کیا جا سکے تو ان کے خیال میں ستر فیصد روایات ایسی ہیں جو اہل سنت اور اہل تشیع کی احادیث کی کتابوں میں مشترک ہیں۔ ڈاکٹر شافعی کا خیال ہے کہ اگر ایسا ہو جائے تو یہ ایک بڑی علمی خدمت ہوگی اور اس سے دونوں کے درمیان خلیج کو کم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔
راقم الحروف نے حسب الحکم مذکورہ بالا عنوان پر اپنا مضمون پڑھ کر سنایا جس میں حدیث نبوی پر اب تک ہونے والے علمی کام کی اہمیت پر اجمالی تبصرہ کے ساتھ دو تین اہم جدید تقاضوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جن پر کام کی ضرورت ہے۔ اور روایتی دینی و علمی حلقوں سے گزارش کی گئی ہے کہ انہیں اس طرف متوجہ ہونا چاہیے کیونکہ اصل میں یہ کام انہی کے کرنے کا ہے اور انہی کی ذمہ داریوں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ اس کالم میں ان گزارشات کا خلاصہ پیش کرنے کی گنجائش نہیں ہے، یہ مضمون ماہنامہ الشریعہ ( پوسٹ بکس ۳۳۱) گوجرانوالہ کے مئی ۲۰۰۳ء کے شمارے میں شائع ہو رہا ہے۔ دلچسپی رکھنے والے حضرات اس میں ملاحظہ کر سکتے ہیں۔