دینی شعبوں کی ’’ریکروٹنگ ایجنسی‘‘

میں تبلیغی جماعت کو مسجد و مدرسہ اور دین کے دیگر شعبوں کی ’’ریکروٹنگ ایجنسی‘‘ کہا کرتا ہوں جو عام مسلمانوں کے گھروں میں جا کر اور ایک ایک دروازے پر دستک دے کر انہیں دین کے کام کے لیے بھرتی کرتی ہے اور گھیر گھار کر مسجد میں لے آتی ہے۔ اس کے بعد دین کے مختلف شعبوں کے ذمہ دار حضرات کا کام ہے کہ وہ انہیں سنبھالیں اور ان کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کر کے دینی محنت کے کسی نہ کسی کام میں کھپائیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۷ نومبر ۱۹۹۹ء

قرآن کریم اور نو مسلم خواتین

’’نومسلم خواتین کی آپ بیتیاں‘‘ محترمہ نگہت عائشہ نے ترتیب دی ہے اور اس میں مختلف ممالک کی ستر نو مسلم خواتین کی آپ بیتیاں شامل کی گئی ہیں۔ پونے چار سو سے زائد صفحات پر مشتمل یہ خوبصورت کتاب ندوۃ المعارف ۱۳ کبیر اسٹریٹ اردو بازار لاہور نے شائع کی ہے اور اس میں جسٹس مولانا مفتی محمد تقی عثمانی کے ایک سفرنامے کو بطور دیباچہ شامل کیا گیا ہے جس میں انہوں نے لندن کے معروف روزنامہ لندن ٹائمز کی ۹ نومبر ۱۹۹۳ء کی ایک رپورٹ کی بنیاد پر ماضی قریب میں مسلمان ہونے والی بعض نومسلم خواتین کے تاثرات بیان کیے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۱ دسمبر ۱۹۹۹ء

اکیسویں صدی کا آغاز اور اس کے تقاضے

برطانیہ والوں کے بقول اکیسویں صدی عیسوی کا آغاز ہوگیا ہے اور میں نے بھی نئی صدی کا آغاز برطانیہ میں ہی کیا ہے۔ اگرچہ اکیسویں صدی کے آغاز میں اختلاف ہے کہ ۲۰۰۰ء سے نئی صدی شروع ہوگئی ہے یا ۲۰۰۱ء میں شروع ہوگی۔ چین اور اس کے ساتھ بعض اور حلقوں کا خیال ہے کہ بیسویں صدی ۲۰۰۰ء کا سال مکمل ہونے پر ختم ہوگی اور اس کے بعد ۲۰۰۱ء سے اکیسویں صدی کا آغاز ہوگا اس لیے وہ نئی صدی کی تقریبات اگلے سال منائیں گے۔ مگر برطانیہ نے نئی صدی کا آغاز گزشتہ روز کر دیا ہے اور پورے جوش و خروش کے ساتھ کیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۲ جنوری ۲۰۰۰ء

کرسمس کے موقع پر مسیحی دنیا کے نام ایک پیغام

۲۵ دسمبر کا دن پوری دنیا میں مسیحی امت حضرت عیسٰی علیہ السلام کی ولادت باسعادت کے دن کے طور پر ’’کرسمس‘‘ کے نام سے مناتی ہے۔ اسی مناسبت سے سال بھر کے سب سے چھوٹے دنوں میں سے ہونے کے باوجود اسے ’’بڑا دن‘‘ کہا جاتا ہے اور اسے مسیحی دنیا کی عالمی عید اور قومی تہوار کی حیثیت حاصل ہے۔ معروف مسیحی مصنف ایف ایس خیر اللہ اپنی کتاب ’’قاموس الکتاب‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’کرسمس یوم ولادت مسیح کے سلسلے میں منایا جاتا ہے، چونکہ مسیحیوں کے لیے یہ ایک اہم اور مقدس دن ہے اس لیے اسے بڑا دن کہا جاتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۵ دسمبر ۱۹۹۹ء

انصاف، وحی اور عقل

وحی اور عقل دونوں علم کے ذرائع ہیں اور اپنی اپنی جگہ دونوں میں کسی کی اہمیت سے انکار نہیں ہے ۔البتہ یہ فرق سمجھنا ضروری ہے کہ وحی علمِ یقینی کا ذریعہ ہے جبکہ عقل کے ذریعہ جو علم حاصل ہوتا ہے وہ زیادہ سے زیادہ غلبہ ظن تک پہنچاتا ہے، اور محض عقل کے واسطہ سے کسی کو یقینی علم حاصل نہیں ہو پاتا۔ اس لیے عقل اگر اپنے درجہ میں رہے تو وہ بہت بڑی نعمت ہے اور مفید و کارآمد چیز ہے مگر جب عقل وحی کے مقابل پر آئے تو سوائے گمراہی کے اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوگا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۶ نومبر ۱۹۹۹ء

محراب و منبر کے وارث محنت مزدوری کیوں نہیں کرتے؟

محترم راجہ انور صاحب کو شکایت ہے کہ محراب و منبر کے وارث محنت مزدوری کیوں نہیں کرتے؟ ان کی بڑی تعداد محنت مزدوری یا نوکری اور تجارت سے اپنا پیٹ کیوں نہیں پالتی؟ ان میں سے اکثر چندے اور قربانی کی کھالیں جمع کرنے کی بجائے جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر یا وزن اٹھا کر اپنی روزی کیوں نہیں کماتے؟ یہ شکایت نئی نہیں بہت پرانی ہے اور جب سے مسجد اور مدرسہ نے ایک ریاستی ادارے کی حیثیت سے محروم ہو کر پرائیویٹ ادارے کی حیثیت اختیار کی ہے اور اسے اپنا وجود برقرار رکھنے اور نظام چلانے کے لیے صدقہ، زکوٰۃ، قربانی کی کھالوں اور عوامی چندے کا سہارا لینا پڑا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۰ مارچ ۲۰۰۰ء

جنرل پرویز مشرف سے دینی جماعتوں کی توقعات

افغانستان میں جہادی ٹریننگ کے مراکز، طالبان کی اسلامی حکومت، پاکستان کے دینی مدارس اور دہشت گردی کی وارداتوں کے حوالے سے میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کی پریس کانفرنسوں کے بعد ملک کے دینی حلقوں میں یہ خدشات بڑھتے جا رہے تھے کہ حکومت، طالبان کے ساتھ ساتھ پاکستان کے دینی مراکز و مدارس کے خلاف بھی کسی کارروائی کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس پس منظر میں مجلس عمل علماء اسلام پاکستان نے ۱۶ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں ’’علماء کنونشن‘‘ منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء

دستور سازی، سوشل کنٹریکٹ اور اسلام

نفاذِ اسلام کے فکری مسائل میں دستور سازی، قانون سازی اور معاہدۂ عمرانی کی اصطلاحات علمی و فکری حلقوں میں مسلسل زیربحث ہیں اور ان کے حوالہ سے مختلف افکار و نظریات سامنے آرہے ہیں۔ ایک طرف یہ کہا جا رہا ہے کہ قرآن و سنت اور فقہ و شریعت کی صورت میں اسلامی احکام و قوانین کا وسیع ترین ذخیرہ موجود ہے اس لیے کسی قسم کی دستور سازی، قانون سازی اور عمرانی معاہدات کی ضرورت نہیں ہے۔ اور چونکہ ایک اسلامی ریاست قرآن و سنت اور فقہ و شریعت کی ہدایات کے مطابق مملکت و حکومت کا نظام چلانے کی پابند ہے اس لیے مزید قانون سازی محض تکلف ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

یکم جولائی ۲۰۱۷ء

ناروے میں ’’عمرؓ الاؤنس‘‘

ہم اس سے قبل ایک مضمون میں لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس افتخار احمد چیمہ صاحب کے حوالہ سے ذکر کر چکے ہیں کہ برطانیہ میں اس وقت ویلفیئر اسٹیٹ کا جو نظام رائج ہے اور جس کے تحت بے روزگاروں، ضرورت مندوں اور معذوروں کو ریاست کی طرف سے گزارہ الاؤنس ملتا ہے اس نظام کو ترتیب دینے والے برطانوی دانشور سے جسٹس چیمہ کی اس دور میں ملاقات ہوئی تھی جب وہ برطانیہ میں زیر تعلیم تھے۔ اور اس ملاقات میں مذکورہ برطانوی دانشور نے انہیں بتایا تھا کہ ’’ویلفیئر اسٹیٹ‘‘ کا یہ تصور انہوں نے حضرت عمرؓ کے نظام سے لیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۹ مارچ ۲۰۰۳ء

کیا نکاح کے لیے مرد و عورت کا باہمی ایجاب و قبول کافی ہے؟

وفاقی شرعی عدالت کے ایک حالیہ فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے گزشتہ روز اپنے کالم میں ہم نے گزارش کی تھی کہ نکاح میں صرف میاں بیوی کے اقرار کو کافی سمجھتے ہوئے گواہوں کی موجودگی کو ضروری قرار نہ دینا قرآن و سنت کے احکام کے صریح منافی ہے۔ اس سلسلہ میں وفاقی شرعی عدالت کی وضاحت ہمارے کالم کی اشاعت سے پہلے ہی سامنے آچکی ہے جو لاہور کے ایک قومی روزنامہ نے ۲۲ جنوری ۲۰۰۰ء کو یوں شائع کی ہے کہ مکمل تحریر

۳ فروری ۲۰۰۰ء

Pages


2016ء سے
Flag Counter