جہاد کے حوالے سے راجہ صاحب کی الجھن
راجہ صاحب نے لکھا ہے کہ ’’جہاں مسلم ریاست اپنا وجود یا اپنا اقتدار اعلیٰ کھو دے وہاں عوامی حمایت (اجتہاد) کے ذریعے مسلح تحریک آزادی (یعنی جہاد) کا آغاز تو کسی حد تک قابل فہم معاملہ ہے لیکن جہاں مسلم ریاست مکمل طور پر اپنا وجود رکھتی ہو اور اس کا اقتدار اعلیٰ بھی کلیتاً اس کے پاس ہو وہاں جہاد کا اعلان کون کرے گا؟‘‘ گویا اس طرح راجہ صاحب محترم نے متحدہ ہندوستان میں برطانوی سامراج کے خلاف مسلمانوں کے جہاد آزادی اور روسی استعمار کے خلاف افغان عوام کے جہاد میں فرق ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
جمعہ کی چھٹی اور راجہ صاحب کا فلسفہ
راجہ انور صاحب نے اپنے مضمون میں جمعہ کی چھٹی کا ذکر کیا ہے، میثاق مدینہ کا حوالہ دیا ہے، کسی مسلم مملکت کو ’’اسلامی‘‘ قرار دینے پر اعتراض کیا ہے، اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم کردہ ریاست کو ’’دولۃ العربیۃ‘‘ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔ اس لیے ان امور کے بارے میں کچھ معروضات پیش کرنا چاہتا ہوں۔ جمعہ کی چھٹی کے بارے میں راجہ صاحب کا ارشاد یہ ہے کہ اس پر بلاوجہ زور دیا جا رہا ہے حالانکہ اسلامی تاریخ میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
دینی مدارس کی مشکلات اور اساتذہ و طلبہ کا عزم
اب سے ڈیڑھ سو برس قبل جب دینی مدارس کے قافلہ کا سفر شروع ہوا تو تاریخ کے سامنے یہ منظر تھا کہ متحدہ ہندوستان 1857ء کی جنگ آزادی میں اہل وطن کی ناکامی بلکہ خانماں بربادی کے زخموں سے چور ہے ، خاص طور پر مسلمانوں کا ملی وجود اپنی تہذیبی روایات و اقدار اور دینی تشخص کے تحفظ و بقا کے لیے کسی اجتماعی جدوجہد کی سکت کھو چکا ہے۔ بیرونی استعمار کے ہاتھوں اپنے تعلیمی، سیاسی، معاشی، انتظامی، معاشرتی و ثقافتی تشخص اور ملی اداروں سے محروم ہو کر اس خطہ کے مسلمان پھر سے ’’زیرو پوائنٹ‘‘ پر کھڑے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
مشرقِ وسطیٰ کی سنگین صورتحال اور درکار لائحہ عمل
اس زمینی حقیقت سے کسی صاحب شعور کے لیے انکار کی گنجائش نہیں ہے کہ جو سنی شیعہ اختلافات موجود ہیں وہ اصولی اور بنیادی ہیں اور صدیوں سے چلے آرہے ہیں، نہ ان سے انکار کیا جا سکتا ہے، نہ دونوں میں سے کوئی فریق دوسرے کو مغلوب کر سکتا ہے، اور نہ ہی ان اختلافات کو ختم کرنا ممکن ہے۔ ان اختلافات کو تسلیم کرتے ہوئے اور ایک دوسرے کے وجود کا اعتراف کرتے ہوئے باہمی معاملات کو ازسرنو طے کرنے کی ضرورت بہرحال موجود ہے جس کے لیے آبادی کے تناسب اور دیگر مسلمہ معروضی حقائق کو سامنے رکھ کر ہی توازن کا صحیح راستہ اختیار کیا جا سکتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
دستور کی اسلامی دفعات اور ڈاکٹر محمود احمد غازی کی وضاحت
وزارت قانون کے ترجمان کی مذکورہ وضاحت کے اس جملہ کو دوبارہ دیکھ لیں کہ ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی دفعات معطل ہونے کے باوجود پاکستان کو ہر ممکن طور پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے مطابق ہی چلایا جائے گا۔‘‘ اس جملہ میں ہمیں دو باتیں کھٹک رہی ہیں: ایک بات دستور معطل ہونے یا دستور کی دفعات معطل ہونے میں اٹکی ہوئی ہے۔ اگر دستور معطل ہوا ہے تو اس کی اسلامی دفعات کیسے باقی ہیں اور اگر دستور کی دفعات معطل ہوئی ہیں تو معطل ہونے والی اور بحال رہنے والی دستوری دفعات کی تفصیل کہاں ہے؟ دوسری بات ’’ہر ممکن طور پر’’ کا جملہ ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
عورت کا طلاق کا اختیار
اسلام نے طلاق کا غیر مشروط حق صرف مرد کو دیا ہے کہ وہ جب چاہے عورت کو طلاق دے کر اپنی زوجیت سے الگ کر دے۔ اگرچہ بلاوجہ طلاق کو شریعت میں سخت نفرت کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے اور جناب نبی اکرمؐ نے طلاق کو مباح امور میں مبغوض ترین چیز قرار دیا ہے لیکن گناہ اور ناپسندیدہ ہونے کے باوجود مرد کو یہ حق بہرحال حاصل ہے کہ وہ اگر طلاق دے تو اس سے دونوں میں نکاح کا رشتہ ختم ہو جاتا ہے۔ جبکہ عورت کو براہ راست اور غیر مشروط طلاق کا حق اسلام نے نہیں دیا۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسے اس حوالہ سے کوئی حق ہی سرے سے حاصل نہیں ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
حضرت عیسٰیؑ کی شان میں گستاخی اور عالمی کلیسا
گوجرانوالہ سے شائع ہونے والے مسیحی جریدہ ماہنامہ کلام حق نے نومبر ۱۹۹۹ء کی اشاعت میں عالمی مسیحی کلیسا کے اس طرز عمل پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ اس نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شان میں ایک بدبخت مسیحی کی طرف سے کی جانے والی بدترین گستاخی پر بے حسی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس سلسلہ میں ماہنامہ کلام حق کے مدیر محترم میجر ٹی ناصر نے لکھا ہے کہ ’’گزشتہ دنوں انگلستان کا ایک بدبخت ملحد نام نہاد مسیحی خداوند یسوع مسیح کی شان میں بدترین گستاخی کا مرتکب ہوا، عالمگیر کلیسا نے اس بے ادبی پر اپنے منافق لب سی لیے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
امیر امان اللہ خان اور افغانستان میں مغربی ثقافت کی ترویج
امیر امان اللہ خان افغانستان میں سیاسی اور ثقافتی انقلاب برپا کرنا چاہتے تھے جس کے لیے انہوں نے یورپ کے مختلف ممالک کا دورہ کیا اور وہاں کے جدید کلچر سے اس قدر متاثر ہوئے کہ یورپی ثقافت کو افغانستان میں طاقت کے زور پر رائج کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ عزیز ہندی کے بقول امان اللہ خان نے سردار محمود خان یاور کے ذمہ لگا رکھا تھا کہ وہ ان کے واپس آنے تک افغانستان میں رائے عامہ کو ثقافتی انقلاب کے لیے ہموار کرنے کی کوشش کریں اور خاص طور پر آزاد خیالی اور برہنہ روئی کا پرچار کریں۔ برہنہ روئی کا مطلب یہ ہے کہ وہ عورتوں کے لیے پردہ کو ضروری نہیں سمجھتے تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
مصطفیٰ کمال اتاترک اور جدید ترکی
مصطفیٰ کمال اتاترک جدید ترکیہ کے بانی اور معمار ہیں جنہوں نے اب سے پون صدی قبل جمہوریہ ترکیہ کی بنیاد رکھی اور ترکی اس کے بعد سے انہی کے متعین کردہ خطوط پر پوری سختی کے ساتھ گامزن ہے۔ انہوں نے ایک طرف یورپی ملکوں بالخصوص یونان کا مقابلہ کرتے ہوئے ترکی کی داخلی خودمختاری کی حفاظت کی اور بیرونی حملہ آوروں کو نکال کر ترکی کی وحدت کا تحفظ کیا جبکہ دوسری طرف خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کر کے ترکی کو عالم اسلام سے بھی الگ کر لیا۔ وہ ترک قوم پرستی کے علمبردار تھے اور انہوں نے اس بنیاد پر ترک قوم کو بیدار کرنے اور ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ۔ عربوں کا برطانیہ کے ساتھ تعاون
برطانوی استعمار نے خلافت عثمانیہ کے خاتمہ اور عربوں کو خلافت سے بے زار کرنے کے لیے مختلف عرب گروپوں سے سازباز کی تھی اور نہ صرف لارنس آف عریبیہ بلکہ اس قسم کے بہت سے دیگر افراد و اشخاص کے ذریعہ عرب قومیت اور خود عربوں کے داخلی دائرہ میں مختلف علاقائی و طبقاتی عصبیتوں کو ابھارنے کے لیے ایک وسیع نیٹ ورک قائم کر رکھا تھا۔ یہ اسی تگ و دو کا نتیجہ ہے کہ خلافت عثمانیہ کا صدیوں تک حصہ رہنے والی عرب دنیا آج چھوٹے چھوٹے بے حیثیت ممالک میں بٹ کر رہ گئی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
Pages
- « شروع
- ‹ پچھلا صفحہ
- …
- 354
- 355
- …
- اگلا صفحہ ›
- آخر »