مغرب کے تین دعووں کی حقیقت

مغرب کا دعویٰ ہے کہ اس نے نسل انسانی کو ایک ایسی تہذیب سے روشناس کرایا ہے جو جدید ترین تہذیب ہے، انسانی سوسائٹی کی خواہشات و ضروریات کو پورا کرتی ہے، اور یہ تہذیب انسانی تمدن کے ارتقاء کے نتیجہ میں ظہور پذیر ہوئی ہے۔ یہ نسل انسانی کے اب تک کے تجربات کا نچوڑ ہے اور اس سے بہتر تہذیب اور کلچر کا اب کوئی امکان باقی نہیں ہے۔ اس لیے یہ انسانی تاریخ کی آخری تہذیب اور فائنل کلچر ہے، اس کے بعد اور کوئی تہذیب نہیں آئے گی اور دنیا کے خاتمے تک اسی تہذیب نے حکمرانی کرنی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۰ جولائی ۲۰۰۲ء

پاکستان میں مسیحی ریاست کے قیام کا منصوبہ

ہمارے پاس اس کی ایک عملی مثال موجود ہے کہ قیام پاکستان کے بعد پنجاب کے انگریز گورنر سر موڈی نے چنیوٹ کے ساتھ دریائے چناب کے کنارے پر قادیانیوں کو زمین لیز پر دی تھی جہاں انہوں نے ربوہ کے نام سے شہر آباد کیا۔ اور اب تحریک ختم نبوت کے مسلسل مطالبہ پر اس کا نام تبدیل کر کے ’’چناب نگر‘‘رکھ دیا گیا ہے۔ یہ زمین اب بھی سرکاری کاغذات میں ’’صدر انجمن احمدیہ‘‘کے نام لیز پر ہے لیکن عملاً اس سے کوئی فرق رونما نہیں ہوا کہ وہاں لیز والی زمین پر اب بھی خالصتاً قادیانی کالونی ہے جہاں کسی مسلمان کو رہنے کی اجازت نہیں ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۶ جون ۲۰۰۲ء

اسلام کے خلاف عالمی میڈیا کی یلغار اور ہماری ذمہ داریاں

غزوۂ احزاب میں مشرکین کا محاصرہ ناکام ہوا تو اس پر جناب سرور کائناتؐ نے صحابہ کرامؓ کو یہ بشارت دی کہ یہ مکہ والوں کی آخری یلغار تھی، اس کے بعد مشرکین عرب کو مدینہ منورہ کا رخ کرنے کی جرأت نہیں ہوگی، اب جب بھی موقع ملا ہم ادھر جائیں گے۔ البتہ ہتھیاروں کی جنگ میں ناکامی کے بعد اب مشرکین ہمارے خلاف زبان کی جنگ لڑیں گے، عرب قبائل ہمارے خلاف شعر و ادب کی زبان میں منافرت پھیلائیں گے اور خطابت و شعر کے ہتھیاروں کو استعمال میں لائیں گے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۹ جون ۲۰۰۲ء

نظام کی ناکامی کا فطری ردعمل

حاجی محمد سرور نے خود اپنی جان اور عزت دونوں کو خطرے میں ڈال کر ہماری غفلت اور کوتاہیوں کو بے نقاب کیا ہے اور مروجہ سسٹم کی ناکامی پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔ حاجی محمد سرور اپنے اعتراف کے مطابق چار قتلوں کا مجرم ہے اور اسے قانون ہاتھ میں لینے کی سزا ضرور ملنی چاہئے لیکن اس کے ساتھ وہ مروجہ نظام کی فرسودگی اور ناکامی کا عنوان بن کر سامنے آیا ہے اور حوالات کی سلاخوں کے پیچھے سے اس سسٹم کے ذمہ داروں اور شریک طبقات کا منہ چڑا رہا ہے۔ کیا اس کے اس چیلنج کا سامنا کرنے کا ہم میں سے کسی طبقہ یا شخص میں حوصلہ ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۹ جنوری ۲۰۰۳ء

ڈاکٹر مراد ولفرڈ ہوف مین کے خیالات

ڈاکٹر مراد ہوف مین جرمنی کے دفتر خارجہ میں اہم عہدوں پر فائز رہے، نیز مراکش اور الجزائر میں سفیر کے منصب پر فائز رہنے کے علاوہ برسلز میں نیٹو کے ڈائریکٹر انفرمیشن کی حیثیت سے بھی خدمات سر انجام دیتے رہے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد انہوں نے مختلف مضامین و مقالات میں اسلام اور مغرب کی تہذیبی کشمکش کا تفصیل سے جائزہ لیا ہے اور اس ثقافتی جنگ کے اسباب و علل کی نشاندہی کرنے کے ساتھ مستقبل کے امکانات کا نقشہ بھی پیش کیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۸ دسمبر ۲۰۰۰ء

جابر حکمران کے سامنے کلمۂ حق کہنے کی روایت

خلیفہ ہارون الرشید کو ایک دفعہ مسجد نبویؐ میں حضرت امام مالکؒ کی مجلس میں حدیث رسولؐ پڑھنے کا شوق ہوا تو وہ اپنے صاحبزادوں سمیت حاضر ہوا۔ امام مالکؒ کی مجلس عروج پر تھی۔ خلیفۂ وقت نے گزارش کی کہ وہ آپ کی خدمت میں چند احادیث پڑھنا چاہتا ہے مگر دوسرے لوگوں کو تھوڑی دیر کے لیے یہاں سے اٹھا دیا جائے۔ امام مالکؒ نے جواب دیا کہ ’’اگر خواص کی خاطر عوام کو محروم کر دیا جائے گا تو پھر خود خواص کو بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔‘‘ یہ کہہ کر امام مالکؒ نے مجلس میں حدیث رسولؐ کی قرأت کرنے کے لیے شاگرد کو پڑھنے کی ہدایت دی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۴ نومبر ۲۰۰۰ء

ڈاکٹر عبید اللہ غازی سے ملاقات

دوسرا مسئلہ آج کے عالمی ماحول اور ضروریات کے لیے علماء کرام اور اسکالرز تیار کرنے کا ہے جس کا ہمارے ہاں بہت بڑا خلاء ہے اور بدقسمتی سے اس خلاء کو پر کرنے یا کم کرنے کی ضرورت تک محسوس نہیں کی جا رہی۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ ہمیں ایسے علماء کی ضرورت ہے جو آج کے فکری چیلنجز اور معاصر افکار و نظریات کو سمجھتے ہوں، ان کا تقابلی مطالعہ رکھتے ہوں، دنیا میں مروج مذاہب سے واقفیت رکھتے ہوں، انگلش و دیگر عالمی زبانوں میں گفتگو اور تحریر کی صلاحیت رکھتے ہوں، اور ابلاغ عامہ کے جدید ترین ذرائع کے استعمال کی صلاحیت سے بہرہ ور ہوں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۸ نومبر ۲۰۰۰ء

تذکرہ عمر فاروقؓ اور حسنین کریمینؓ

حضرت عمرؓ کے بارے میں تو ہمارے چیف جسٹس صاحب بھی فرماتے ہیں کہ اگر ملک میں کرپشن کو ختم کرنا ہے اور گڈ گورننس کا قیام عمل میں لانا ہے تو ہمیں حضرت عمر فاروقؓ کے طرز حکومت کو اپنانا ہوگا۔ جبکہ حضرت حسنؓ کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ امت کی وحدت کے لیے بڑی سے بڑی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہیے اور مسلمانوں میں اتحاد کے لیے ہر وقت محنت کرنی چاہیے۔ اسی طرح سیدنا حضرت حسینؓ کی قربانی اور شہادت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ظلم و جبر کے خاتمہ اور عدل و انصاف کے قیام کے لیے ٹوٹ جانا ہی اہل حق کی نشانی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۷ دسمبر ۲۰۱۱ء

ان کو ڈھونڈے گا اب تو کہاں راشدی

شیخ صفدرؒ بھی ہم سے جدا ہو گئے۔ علم و دین پر وہ آخر فدا ہو گئے۔ علم تھا ان کا سب سے بڑا مشغلہ۔ ذوق و نسبت میں اس کی فنا ہو گئے۔ وہ جو توحید و سنت کے منّاد تھے۔ شرک و بدعت پہ رب کی قضا ہو گئے۔ خواب میں ملنے آئے مسیح ناصریؐ۔ شرف ان کو یہ رب سے عطا ہو گئے۔ بو حنیفہؒ سے ان کو عقیدت رہی۔ اور بخاریؒ کے فن میں سَوا ہو گئے۔ شیخ مدنی ؒ سے پایا لقب صفدری۔ اور اس کی علمی نہج کی ادا ہو گئے۔ میانوالی کا اک بطل توحید تھا۔ جس کی صحبت میں وہ با صفا ہو گئے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جون ۲۰۰۹ء

۱۰ اکتوبر کے ’’الاہرام‘‘ پر ایک نظر

مرکزی سرخی مصر کے صدر حسنی مبارک اور فلسطینی لیڈر یاسر عرفات کی ملاقات کے بارے میں ہے جس میں اسرائیل کی تازہ صورتحال، نہتے فلسطینیوں پر اسرائیلیوں کے حالیہ وحشیانہ تشدد، اور چند روز میں ہونے والی عرب سربراہ کانفرنس کے ایجنڈے کے اہم نکات زیر بحث آئے۔ اس کے ساتھ ہی صفحۂ اول پر خبر ہے کہ عرب سربراہ کانفرنس میں کم و بیش ستر بادشاہوں اور حکومتی سربراہوں کی شرکت متوقع ہے۔ اور مصری صدر کی اہلیہ سوزان مبارک کی سربراہی میں فلسطینی شہداء کے خاندانوں کی امداد کے لیے فنڈ کے قیام کا اعلان ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۵ اکتوبر ۲۰۰۰ء

Pages


2016ء سے
Flag Counter