ڈاکٹر عبید اللہ غازی سے ملاقات

دوسرا مسئلہ آج کے عالمی ماحول اور ضروریات کے لیے علماء کرام اور اسکالرز تیار کرنے کا ہے جس کا ہمارے ہاں بہت بڑا خلاء ہے اور بدقسمتی سے اس خلاء کو پر کرنے یا کم کرنے کی ضرورت تک محسوس نہیں کی جا رہی۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ ہمیں ایسے علماء کی ضرورت ہے جو آج کے فکری چیلنجز اور معاصر افکار و نظریات کو سمجھتے ہوں، ان کا تقابلی مطالعہ رکھتے ہوں، دنیا میں مروج مذاہب سے واقفیت رکھتے ہوں، انگلش و دیگر عالمی زبانوں میں گفتگو اور تحریر کی صلاحیت رکھتے ہوں، اور ابلاغ عامہ کے جدید ترین ذرائع کے استعمال کی صلاحیت سے بہرہ ور ہوں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۸ نومبر ۲۰۰۰ء

تذکرہ عمر فاروقؓ اور حسنین کریمینؓ

حضرت عمرؓ کے بارے میں تو ہمارے چیف جسٹس صاحب بھی فرماتے ہیں کہ اگر ملک میں کرپشن کو ختم کرنا ہے اور گڈ گورننس کا قیام عمل میں لانا ہے تو ہمیں حضرت عمر فاروقؓ کے طرز حکومت کو اپنانا ہوگا۔ جبکہ حضرت حسنؓ کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ امت کی وحدت کے لیے بڑی سے بڑی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہیے اور مسلمانوں میں اتحاد کے لیے ہر وقت محنت کرنی چاہیے۔ اسی طرح سیدنا حضرت حسینؓ کی قربانی اور شہادت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ظلم و جبر کے خاتمہ اور عدل و انصاف کے قیام کے لیے ٹوٹ جانا ہی اہل حق کی نشانی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۷ دسمبر ۲۰۱۱ء

ان کو ڈھونڈے گا اب تو کہاں راشدی

شیخ صفدرؒ بھی ہم سے جدا ہو گئے۔ علم و دین پر وہ آخر فدا ہو گئے۔ علم تھا ان کا سب سے بڑا مشغلہ۔ ذوق و نسبت میں اس کی فنا ہو گئے۔ وہ جو توحید و سنت کے منّاد تھے۔ شرک و بدعت پہ رب کی قضا ہو گئے۔ خواب میں ملنے آئے مسیح ناصریؐ۔ شرف ان کو یہ رب سے عطا ہو گئے۔ بو حنیفہؒ سے ان کو عقیدت رہی۔ اور بخاریؒ کے فن میں سَوا ہو گئے۔ شیخ مدنی ؒ سے پایا لقب صفدری۔ اور اس کی علمی نہج کی ادا ہو گئے۔ میانوالی کا اک بطل توحید تھا۔ جس کی صحبت میں وہ با صفا ہو گئے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جون ۲۰۰۹ء

۱۰ اکتوبر کے ’’الاہرام‘‘ پر ایک نظر

مرکزی سرخی مصر کے صدر حسنی مبارک اور فلسطینی لیڈر یاسر عرفات کی ملاقات کے بارے میں ہے جس میں اسرائیل کی تازہ صورتحال، نہتے فلسطینیوں پر اسرائیلیوں کے حالیہ وحشیانہ تشدد، اور چند روز میں ہونے والی عرب سربراہ کانفرنس کے ایجنڈے کے اہم نکات زیر بحث آئے۔ اس کے ساتھ ہی صفحۂ اول پر خبر ہے کہ عرب سربراہ کانفرنس میں کم و بیش ستر بادشاہوں اور حکومتی سربراہوں کی شرکت متوقع ہے۔ اور مصری صدر کی اہلیہ سوزان مبارک کی سربراہی میں فلسطینی شہداء کے خاندانوں کی امداد کے لیے فنڈ کے قیام کا اعلان ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۵ اکتوبر ۲۰۰۰ء

قرآنی اصول اور جناب معین قریشی

حسب منشاء نئے احکام و قوانین وضع کرنے کی یہی خواہش فقہائے اربعہ حضرت امام ابوحنیفہؒ ، حضرت امام مالکؒ ، حضرت امام شافعیؒ ، اور حضرت امام احمد بن حنبلؒ کے فقہی اجتہادات کے حوالہ سے تعامل امت سے انحراف کی راہ ہموار کرتی ہے۔ اسی خواہش کی کوکھ سے اجماع صحابہؓ کی اہمیت سے انکار جنم لیتا ہے۔ یہی خواہش سنت نبویؐ کو غیر ضروری قرار دینے پر اکساتی ہے۔ اور یہی تقاضا قرآن کریم کے ظاہری احکام کو چودہ سو سالہ پرانے دور کی ضرورت قرار دینے اور اس کی روح کے مطابق نئے احکام و قوانین تشکیل دینے پر آمادہ کرتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۷ اکتوبر ۲۰۰۰ء

مولوی اور وکیل

زمینی حقیقت یہ ہے کہ مولوی دینی علوم اور شریعت کے قوانین کا علم تو رکھتا ہے مگر مروجہ قوانین اور قانونی نظام کا علم اس کے پاس نہیں ہے۔ جبکہ وکیل مروجہ قوانین اور قانونی نظام کا علم و تجربہ تو رکھتا ہے مگر شریعت کے قوانین و احکام اس کے علم کے دائرہ میں شامل نہیں ہیں۔ اس لیے یہ ضروری ہوگیا تھا کہ مولوی اور وکیل دونوں مل کر اس ذمہ داری کو قبول کریں اور اس کے لیے کام کریں لیکن ایسا نہیں ہوا۔ جس کی وجہ سے ملک میں دستور اور قانون و شریعت میں سے کسی کی حکمرانی ابھی تک عملاً قائم نہیں ہو سکی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳ مئی ۲۰۱۶ء

محبت کی شادیاں اور ہماری اعلیٰ عدالتیں

ہمارے فاضل جج صاحبان اس پورے پراسیس سے آنکھیں بند کرتے ہوئے محبت اور رضامندی کی شادیوں کو جواز کا سرٹیفکیٹ مہیا کرتے چلے جا رہے ہیں۔ اس لیے بڑے ادب کے ساتھ ہائی کورٹس کے جج صاحبان سے یہ سوال کرنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ محبت اور رضامندی دونوں کی اہمیت مسلم ہے۔ مگر ہمارے معاشرے میں اس محبت اور رضامندی تک پہنچنے کے جو مراحل مروج ہیں، کیا قرآن و سنت نے ان مراحل کے بارے میں بھی کوئی حکم دیا ہے یا نہیں؟ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۵ ستمبر ۲۰۰۰ء

افغانستان کے اخبارات پر ایک نظر

اخبار انیس کا 12 اگست کا شمارہ میرے سامنے ہے اور چونکہ یہ دن افغانستان میں ’’یوم استقلال‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے اس لیے زیادہ تر مضامین اور کچھ خبریں اسی حوالہ سے ہیں۔ ’’یوم استقلال‘‘ برطانوی استعمار کے خلاف افغانستان کی جنگ آزادی میں کامیابی اور برطانیہ کی طرف سے افغانستان کی آزادی کو تسلیم کرنے کی خوشی میں منایا جاتا ہے جو اگست 1919ء میں ’’معاہدہ راولپنڈی‘‘ کی صورت میں تسلیم کی گئی تھی۔ اس سے قبل افغانستان پر برطانوی فوجوں کی یلغار رہتی تھی اور متعدد بار کابل، قندھار اور جلال آباد پر برطانوی فوجوں کا قبضہ ہوا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۰ اگست ۲۰۰۰ء

افغانستان میں این جی اوز کا کردار

دوسری شکایت یہ کہ این جی اوز میں بین الاقوامی اداروں کے انتظامی اور غیر ترقیاتی اخراجات کا تناسب بہت زیادہ ہے۔ یعنی ان کے فراہم کردہ فنڈز میں سے افغان عوام کی ضروریات پر رقم کم خرچ ہوتی ہے اور ان اداروں کے اپنے دفاتر، عملہ کی تنخواہوں، آمد و رفت اور دیگر ضروریات پر اس سے کہیں زیادہ رقوم خرچ ہو جاتی ہیں۔ مثلاً جناب سہیل فاروقی نے بتایا کہ افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کا سالانہ فنڈ 200 ملین ڈالر ہے مگر اس کا 80 فیصد انتظامی اخراجات پر لگ جاتا ہے اور صرف 20 فیصد رقم افغان عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہو پاتی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۹ اگست ۲۰۰۰ء

افغانستان کے عدالتی اور تعلیمی نظام پر ایک نظر

مولانا پیر محمد روحانی نے بتایا کہ ہم انٹرمیڈیٹ تک ضروریات دین اور ضروری عصری علوم کا مشترکہ نصاب مرتب کر رہے ہیں جو سب طلبہ اور طالبات کے لیے لازمی ہوگا اور اس کے بعد طلبہ کے ذوق و صلاحیت اور ملکی ضروریات کے پیش نظر الگ الگ شعبوں کی تعلیم کا نظام وضع کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ ہم نے زیرو پوائنٹ سے کام شروع کیا ہے اور دھیرے دھیرے بتدریج آگے بڑھ رہے ہیں اس لیے بہت سا خلاء دکھائی دے رہا ہے۔ لیکن جب ہم آگے بڑھیں گے اور یہ نظام تکمیل تک پہنچے گا تو سب لوگ مطمئن ہو جائیں گے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۷ اگست ۲۰۰۰ء

Pages


2016ء سے
Flag Counter