مولانا عبد العزیز کی طرف سے شرعی عدالتوں کے قیام کا اعلان

   
۱۰ اپریل ۲۰۰۷ء

جامعہ حفصہ اسلام آباد کی طالبات اور مرکزی جامع مسجد اسلام آباد کے خطیب مولانا عبد العزیز کی مسلسل تگ و دو کا جو نتیجہ سامنے آیا ہے، اس پر بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری ہے۔ ہم اس سے قبل اس مہم کے حوالے سے اس کالم میں معروضات پیش کر چکے ہیں اور گفتگو کو آگے بڑھانے سے قبل اس کا خلاصہ ایک بار پھر قارئین کے سامنے پیش کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔

جہاں تک اسلام آباد کی مساجد کے تحفظ، ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ اور معاشرہ میں فواحش و منکرات کے سدباب کے حوالے سے ان کے موقف اور مطالبات کا تعلق ہے تو ان سے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور یہ ہر مسلمان کے دل کی آواز ہے۔ نیز ان مطالبات کے حق میں معروف طریقوں سے احتجاج کرنے اور حکومت پر دباؤ ڈالنے کی جدوجہد کی افادیت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اس حوالے سے حکومت کے ساتھ تصادم، قانون کو ہاتھ میں لینے یا متوازی نظام قائم کرنے کے طرز عمل سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔ اس سلسلہ میں ملک کے اکابر علمائے کرام نے جو موقف اختیار کیا ہے اور جس کا اظہار حضرت مولانا سلیم اللہ خان دامت برکاتہم نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں کیا ہے، اصولی طور پر وہی موقف درست ہے اور تمام اہل دین کو اس کی حمایت و تائید کرنی چاہیے۔ البتہ مولانا عبد العزیز کی طرف سے شرعی عدالت کے قیام کے اعلان کے بارے میں یہ عرض کرنے کو جی چاہتا ہے کہ اگر مقصد یہی تھا تو اس کے لیے سلیقے کے ساتھ ایسی پیشرفت کی جا سکتی تھی کہ جو خرابیاں اب تک سامنے آ چکی ہیں، ان سے بچتے ہوئے مثبت انداز میں اس جائز مقصد کے لیے رائے عامہ کو تیار کر لیا جائے۔ اس لیے کہ حکومتی نظام سے ہٹ کر پرائیویٹ سطح پر شرعی عدالتوں کا تصور ہمارے ہاں نہ صرف پہلے سے موجود ہے بلکہ اس کے لیے خاصا کام اس سے قبل ہو چکا ہے۔

  • برصغیر میں فرنگی تسلط کے دور میں صوبہ بہار میں امارت شرعیہ کے عنوان سے ایک نظام قائم ہوا تھا جس کے تحت مسلمان قاضی صاحبان شرعی عدالتوں کی صورت میں بعض معاملات میں مسلمانوں کے تنازعات و مقدمات کا فیصلہ کرتے آ رہے ہیں اور یہ سلسلہ آزادی کے بعد بھی بدستور قائم ہے۔ ماضی قریب میں ہمارے محترم و مخدوم بزرگ حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ اس عدالتی نظام کی سربراہی کے فرائض سر انجام دیتے رہے ہیں جبکہ کچھ عرصہ قبل بھارت کے بہت سے دیگر شہروں میں بھی اس طرز کی پنچایتی شرعی عدالتوں کے نظام کو توسیع دی گئی تھی اور ہماری معلومات کے مطابق درجنوں بھارتی شہروں میں یہ پرائیویٹ عدالتی نظام کام کر رہا ہے۔
  • اس طرز کا پرائیویٹ عدالتی نظام امریکہ میں بھی موجود ہے۔ امریکی دستور میں یہودیوں کے لیے یہ سہولت رکھی گئی ہے کہ وہ اپنے خاندانی اور مالیاتی تنازعات و معاملات کے فیصلوں کے لیے الگ عدالتی نظام قائم کر سکتے ہیں، جس کے لیے دستور کے مطابق باقاعدہ منظوری دی جاتی ہے اور متعلقہ امور میں ان عدالتوں کے فیصلوں کا سپریم کورٹ تک میں احترام کیا جاتا ہے۔ یہودیوں نے اس حوالے سے اپنا علیحدہ عدالتی نظام قائم کر رکھا ہے جبکہ اسی گنجائش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلمانوں نے بھی اپنے خاندانی تنازعات کے تصفیہ کے لیے شرعی عدالتوں کے قیام کی طرف پیشرفت کی ہے، اور شکاگو اور نیویارک سمیت بہت سے امریکی شہروں میں اس طرز کی عدالتیں شریعہ بورڈ کے نام سے مصروف عمل ہیں۔ دو سال قبل میں نے خود نیویارک میں ایک شرعی عدالت دیکھی جہاں ہمارے چند فاضل علمائے کرام اس نظام کے تحت فیصلے کر رہے ہیں۔ ان میں ہمارے گوجرانوالہ کے ایک پرانے فاضل دوست مولانا اعجاز احمد بھی ہیں جو مجھے اپنے ساتھ لے گئے اور میں نے انہیں ایک مسلمان جوڑے کے باہمی تنازعہ کا فیصلہ کرتے ہوئے خود دیکھا۔
  • اب سے کوئی تیس برس قبل پاکستان میں جمعیت علمائے اسلام نے شرعی عدالتوں کے قیام کا اعلان کیا تھا۔ اکتوبر ۱۹۷۵ء کے آخری دنوں میں مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں جمعیت علمائے اسلام کا ملک گیر کنونشن تھا جس میں حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ کی زیر صدارت اس کنونشن کی آخری نشست میں حضرت مولانا مفتی محمودؒ نے جمعیت کی مرکزی مجلس شوریٰ کے فیصلے کے مطابق اعلان کیا تھا کہ ملک بھر میں جمعیت علمائے اسلام کے زیر اہتمام ہر سطح پر پرائیویٹ شرعی عدالتیں قائم کی جائیں گی جو پنچایتی عدالتوں کی طرز پر لوگوں کے تنازعات و مقدمات کے فیصلے کریں گی۔ اس مقصد کے لیے وفاقی سطح پر حضرت مولانا مفتی محمودؒ، حضرت مولانا عبد الکریم قریشیؒ آف لاڑکانہ اور حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم پر مشتمل تین رکنی وفاقی عدالتی بنچ قائم کیا گیا تھا۔ اور اس کے بعد جامعہ مدنیہ لاہور میں ممتاز فقہاء اور علمائے کرام پر مشتمل ایک مشاورتی اجتماع منعقد کر کے اس عدالتی نظام کے لیے باقاعدہ قواعد و ضوابط اور طریق کار کا تعین کیا گیا تھا جس میں حضرت مولانا سید حامد میاںؒ قدس سرہ اور حضرت مولانا محمد یوسف خان دامت برکاتہم آف پلندری آزاد کشمیر نے بھی شرکت فرمائی تھی۔ چنانچہ ۱۹۷۶ء کے بعد جمعیت علمائے اسلام کا جو دستور شائع ہوا تھا، اس کے آخر میں ضمیمہ کے طور پر ان عدالتی قواعد و ضوابط اور طریق کار کو بھی دستور کا حصہ بنا کر شائع کیا گیا تھا، لیکن بعد میں کچھ انتظامی کمزوریوں اور پھر ۱۹۷۷ء کی سیاسی تحریک اور انتخابات کے ہنگاموں کے باعث یہ مہم آگے نہیں بڑھ سکی تھی۔

الغرض پرائیویٹ شرعی عدالتوں کا تصور نیا نہیں ہے اور نہ ہی ناقابل عمل ہے، لیکن اس کے لیے مولانا عبد العزیز اور ان کے رفقاء نے جو طریق کار اختیار کیا ہے وہ درست نہیں ہے، اس لیے ان شرعی عدالتوں کا معاملہ بھی مشکوک اور متنازعہ ہو کر رہ گیا ہے۔ یہ شرعی عدالت اگر ملکی دستور کے دائرہ میں رہتے ہوئے قائم ہو اور ملک کے اکابر اہل علم کی مشاورت اور ان کا اعتماد اس کی پشت پر ہو تو اس کی اہمیت و افادیت سے کسی شخص کو انکار نہیں ہو سکتا بلکہ ہم موجودہ حالات میں اس کی ضرورت ۱۹۷۵ء سے کہیں زیادہ محسوس کرتے ہیں۔ اور اگر ملک کی دینی قیادت اس سلسلے میں کوئی مثبت اور مؤثر پیشرفت کر سکے تو ہمارے نزدیک یہ ملک و قوم کی بڑی خدمت ہو گی اور اس میں کوئی اشکال اور الجھن کا جواز بھی نہیں ہے۔ یہ اس لیے کہ اگر اس طرز کی عدالتیں امریکہ اور بھارت میں موجود ہیں اور کام کر رہی ہیں تو پاکستان میں ایسی عدالتوں کے وجود اور کام پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے، لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ مولانا عبد العزیز اور ان کے رفقاء نے اس کے لیے نہ صرف حکومت وقت سے بلاوجہ محاذ آرائی اور تصادم کا راستہ اختیار کیا بلکہ اپنی دینی قیادت اور اکابر کی ہدایت و مشاورت سے انحراف کو بھی ضروری سمجھا، جس نے اس ساری جدوجہد کو شکوک اور شبہات کے دھندلکوں کی نذر کر دیا ہے۔

ہمارے خیال میں اب بھی وقت ہے کہ مولانا عبد العزیز اور ان کے رفقاء اپنے سابقہ رویے پر اپنے بزرگوں سے معذرت کرتے ہوئے معاملات کی باگ ڈور انہی بزرگوں کے ہاتھ میں دے دیں تو بگڑی ہوئی بات پھر بن سکتی ہے، اور پرائیویٹ شرعی عدالتوں کے ایک ایسے نظام کی طرف مؤثر پیشرفت ہو سکتی ہے جو ملک کی ضرورت ہے اور اسلامی قوانین کی عملداری کی منزل کی طرف مسلسل سفر میں ایک سنگ میل بھی ثابت ہوگا۔

   
2016ء سے
Flag Counter