’’صاحبِ قرآن‘‘

آج کی دنیا میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و سنت کے ہمارے لیے سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ بھٹکی ہوئی بلکہ مسلسل بھٹکتی ہوئی انسانی سوسائٹی کو آسمانی تعلیمات اور فطرت سلیمہ کی طرف واپس لانے کے لیے قرآن کریم اور سنت نبوی کو عصر حاضر کی زبان و اسلوب اور نفسیات و ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے پورے شعور و ادراک کے ساتھ پیش کیا جائے اور ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

مئی ۲۰۱۳ء

’’اطراف‘‘

پروفیسر میاں انعام الرحمٰن ہمارے عزیز ساتھیوں میں سے ہیں۔ ان کا تعلق ایک علمی خاندان سے ہے۔ ان کے دادا محترم حضرت مولانا ابو احمد عبد اللہ لدھیانوی قدس اللہ سرہ العزیز علماء لدھیانہ کے معروف خانوادہ کے بزرگ تھے اور رئیس الاحرار حضرت مولانا حبیب الرحمٰن لدھیانوی نور اللہ مرقدہ کے ساتھ قریبی تعلق داری بھی رکھتے تھے۔ مولانا عبد اللہ لدھیانویؒ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کے شاگرد تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جنوری ۲۰۱۲ء

حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کو ہمارے دیوبندی حلقوں میں سید الطائفۃ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ، یعنی ہمارے پورے دیوبندی گروہ کے سب سے بڑے سردار۔ دیوبندیت کوئی مذہب نہیں ایک مکتبِ فکر ہے۔ ہم حنفی ہیں اور اہلِ سنت کے اجتماعی دھارے کا حصہ ہیں۔ لیکن دیوبندیت کے حوالے سے فکری اور علمی تحریک کے طور پر ہمارا تعارف ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۰ اپریل ۲۰۱۳ء

سودی نظام کے خاتمہ کی جدوجہد: پس منظر اور موجودہ صورتحال

پاکستان جب بنا تو بنیادی مقصد یہ قرار دیا گیا تھا کہ یہاں اسلامی نظام ازسرنو لایا جائے گا اور مسلمانوں کی ثقافت اور عقائد پر ایک اسلامی معاشرہ کی بنیاد رکھی جائے۔ چنانچہ پاکستان بننے کے بعد جب مختلف شعبوں میں کام کا آغاز ہوا اور پاکستان کے ریاستی بینک ’’اسٹیٹ بینک آف پاکستان‘‘ کا افتتاح قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم نے کیا تو اس موقع پر ان کی تقریر ریکارڈ پر ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اپریل ۲۰۱۵ء

غیر سودی بینکاری کی عالمی پیشرفت

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ سود کے حوالے سے ملکی صورتحال تو یہ ہے کہ تفصیلی فیصلے موجود ہیں اور کوئی ابہام نہیں ہے لیکن عملدرآمد کے حوالے سے اب تک جو ہوا ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔ سودی نظام کی عالمی صورتحال بھی ہمارے سامنے رہنی چاہیے۔ اب تو عالمی سطح کے معاشی ماہرین بھی یہ کہتے ہیں کہ سودی نظام انسانی معاشرے کے لیے فائدے کی نہیں بلکہ نقصان کی چیز ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اپریل ۲۰۱۵ء

’’اسوۂ سرورِ کونین ﷺ‘‘

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ سرورِ کائنات حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ ایک ایسا بحرِ ناپیدا کنار ہے جس کی وسعتوں اور گہرائی کو آج تک نہیں ماپا جا سکا، اور چونکہ اسوۂ نبوی علیٰ صاحبہا التحیۃ والسلام انسانی سماج کی قیامت تک ہمہ نوع ضروریات کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے جن کا حل وقت اور ضرورت کے ساتھ ساتھ سامنے آتا رہے گا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۸ نومبر ۲۰۲۴ء

’’عصرِ حاضر میں نو مسلمین کو درپیش سماجی، معاشی، قانونی مسائل اور ان کا حل‘‘

دنیا کے ہر انسان تک دینِ اسلام کی دعوت پہنچانا اور اسے اسلام قبول کرنے کی ترغیب دینا ہماری دینی و ملّی ذمہ داری ہے اور اسلام کے عالمگیر مذہب ہونے کا منطقی تقاضہ ہے، مگر آج کی گلوبل سوسائٹی میں مختلف ثقافتوں اور تہذیبوں کے مسلسل اختلاط اور شہری و انسانی حقوق کے نئے تصورات نے جو مسائل کھڑے کر دیے ہیں، ان سے غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت کا عمل بہت سی پیچیدگیوں کا شکار ہو گیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۲ نومبر ۲۰۲۴ء

ناموس رسالتؐ کے تحفظ کا قانون: چند ضروری گزارشات

ناموس رسالتؐ کا قانون ایک بار پھر بعض حلقوں میں زیربحث ہے اور گزشتہ دنوں اسلام آباد میں اس قانون کے تحت گرفتار بہت سے خاندانوں نے متاثرین کے عنوان سے جمع ہو کر یہ موقف اختیار کیا ہے کہ ان کے عزیزوں کو توہین رسالتؐ کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے اور وہ ان کے بقول بے گناہ ہیں اس لیے ان کے کیسوں پر نظرثانی کی جائے۔ اس کے ساتھ اس سلسلہ میں ان کی طرف سے ایک تفصیلی رپورٹ جاری کی گئی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۳ نومبر ۲۰۲۴ء

’’صوفیائے کرام اور اصلاحِ امت‘‘

تصوف و سلوک دینِ اسلام کا اہم شعبہ ہے جس کے دائرہ میں اولیائے امت رحمہم اللہ تعالیٰ نے قلب و نظر کی طہارت اور اعمالِ صالحہ کو بہتر سے بہتر بنانے کے بارے میں قرآن و سنت کی تعلیمات اور جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کو عملی طور پر منظم کیا ہے اور امتِ مسلمہ کی راہنمائی فرمائی ہے۔ اس شعبہ کے ساتھ میرا تعلق ہمیشہ سے کچھ اس نوعیت کا رہا ہے کہ ’’احب الصالحین و لست منہم، لعل اللہ یرزقنی صلاحاً‌‘‘ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۸ نومبر ۲۰۲۴ء

’’خطباتِ فتحیہ: احکام القرآن اور عصرِ حاضر‘‘

جامعہ فتحیہ اچھرہ لاہور ہمارے خطے کے قدیم ترین دینی اداروں میں سے ایک ہے جو ۱۸۷۵ء سے دینی تعلیم و تدریس اور عوامی اصلاح و ارشاد کی مساعی جمیلہ میں مصروف چلا آرہا ہے اور مختلف اوقات میں جہاں مشاہیر اہلِ علم و فضل تعلیمی خدمات دیتے رہے ہیں وہاں بہت سی علمی شخصیات نے اس سے استفادہ کیا ہے ۔ یہ ادارہ اپنی تاریخ کے حوالے سے دارالعلوم دیوبند، مظاہر علوم سہارنپور، مدرسہ شاہی مراد آباد ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۲ جولائی ۲۰۲۲ء

Pages


2016ء سے
Flag Counter