خلافت راشدہ کا نظام اور ہماری موجودہ حالت

نعت خواں نے نظم پڑھی جس میں امیر المومنین حضرت عمرؓ کے مناقب ذکر کرتے ہوئے یہ دعا کی گئی کہ یا اللہ! حضرت عمرؓ کو ایک بار پھر ہم میں بھیج دے۔ میں نے اپنے خطاب میں نعت خواں سے کہا کہ بھئی ہم اس قابل نہیں ہیں، اس لیے کہ حضرت عمرؓ بالفرض ہم میں دوبارہ آ جائیں تو ہم میں سے کوئی ان کے نزدیک نہ مسلمان قرار پا سکے گا اور نہ ہی ان کے کوڑے سے بچے گا۔ اس لیے اتنا اونچا ہاتھ مت مارو۔ بس سلطان شمس الدین التمشؒ، سلطان صلاح الدین ایوبیؒ، سلطان اورنگ زیب عالمگیرؒ، اور سلطان محمد فاتحؒ جیسے حکمرانوں کے ساتھ گزارہ کر لو ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۵ اپریل ۱۹۹۹ء

محترم راجہ انور کی چند غلط فہمیاں

جہاں تک اختلاف رائے کا تعلق ہے میں اس کا حق ہر صاحب الرائے کے لیے تسلیم کرتا ہوں، پھر وہی حق اپنے لیے کسی رو رعایت کے بغیر مانگتا ہوں اور اسے بے جھجھک استعمال بھی کرتا ہوں۔ راجہ صاحب محترم کو یہ غلط فہمی ہے کہ اہل دین کج بحث ہوتے ہیں اور کسی منطق اور استدلال کے بغیر محض تقدس اور احترام کے زور پر اپنی بات منوانے کے درپے ہو جاتے ہیں۔ ممکن ہے ان کا واسطہ کبھی کسی کج بحث سے پڑ گیا ہو، ورنہ جہاں تک دین کے اصولوں کا تعلق ہے ان کی بنیاد ہمیشہ استدلال اور جائز حدود میں اختلاف رائے کے احترام پر رہی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

یکم اپریل ۲۰۰۰ء

قائد اعظم محمد علی جناح اور مصطفٰی کمال اتاترک

مصطفی کمال اتاترک نے اسلامی نظام کو جدید دور کے تقاضوں کے لیے ناکام اور ناکافی قرار دیتے ہوئے ترکی میں شرعی قوانین اور شرعی عدالتوں کا خاتمہ کر دیا اور مغربی قوانین اور نظام مختلف شعبوں میں نافذ کیے۔ جبکہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے مغربی نظام کو ناکام قرار دیتے ہوئے اسلامی نظام کو پاکستان کی منزل قرار دیا اور اس کے لیے مسلمانوں کو منظم کیا۔ اور اس طرز فکر و نظریہ اور ہدف و مقصد کے لحاظ سے دونوں لیڈروں کا رخ ایک دوسرے سے بالکل الٹ دکھائی دے رہا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۸ نومبر ۱۹۹۹ء

حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ

مغربی ثقافت اور جدید کلچر کی نقاب کشائی اور اسلامی تہذیب و ثقافت کے تعارف کے حوالہ سے ان کی تحریریں میرے لیے خصوصی دلچسپی کا باعث تھیں۔ اور کئی جلدوں پر محیط ان کی ضخیم تصنیف ’’کاروان دعوت و عزیمت‘‘ نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا جس میں انہوں نے امت مسلمہ کے ان ارباب عزیمت و استقامت کی جدوجہد سے نئی نسل کو متعارف کرایا ہے جو ہر دور میں ارباب اقتدار کی ناراضگی اور غیظ و غضب کی پروا کیے بغیر حق اور اہل حق کی نمائندگی کرتے رہے ہیں، اور حق گوئی کی پاداش میں انہیں بے پناہ مصائب اور مشکلات کا شکار ہونا پڑا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۴ جنوری ۲۰۰۰ء

سلطنت برطانیہ اور آل سعود کے درمیان معاہدہ

تاریخ کا وہ حصہ میری خصوصی دلچسپی کا موضوع ہے جس کا تعلق اب سے دو صدیاں پہلے کی دو عظیم مسلم سلطنتوں خلافت عثمانیہ اور سلطنت مغلیہ کے خلاف یورپی ملکوں کی سازشوں سے ہے۔ اور اس حوالہ سے وقتاً فوقتاً ان کالموں میں کچھ لکھتا بھی رہتا ہوں۔ اسی مناسبت سے مجھے ایک معاہدہ کی تفصیلات کی تلاش تھی جو برطانوی حکومت اور آل سعود کے درمیان ہوا تھا اور جس پر اب تک بدستور عمل ہو رہا ہے ۔ ۔ ۔ یہ معاہدہ قارئین کے سامنے لانا چاہتا ہوں مگر پہلے اس کا تھوڑا سا پس منظر واضح کرنا بھی ضروری ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۴ نومبر ۱۹۹۹ء

فلسطین میں یہودیوں کی آبادکاری اور خلافتِ عثمانیہ

عالمی یہودی تحریک کے نمائندہ لارنس اولیفینٹ نے پیشکش کی کہ اگر یہودیوں کو فلسطین میں آباد کاری کی سہولت فراہم کر دی جائے تو اس کے عوض یہودی سرمایہ کار سلطنت عثمانیہ کی تمام مشکلات میں ہاتھ بٹانے کے لیے تیار ہیں۔ سلطان عبد الحمید مرحوم نے کہا کہ یورپی ملکوں سے نکالے جانے والے یہودیوں کو سلطنت عثمانیہ کے کسی بھی حصہ میں آباد ہونے کی اجازت دینے کے لیے تیار ہیں، مگر فلسطین میں چونکہ یہودی ریاست قائم کرنے کا منصوبہ ان کے ذہنوں میں ہے اس لیے اس خطہ میں کسی یہودی کو آباد ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۶ نومبر ۱۹۹۹ء

خدیو مصر اور خدیو پنجاب

ہم میاں شہباز شریف سے با ادب یہ گزارش کرنا چاہیں گے کہ وہ جو کردار ادا کرنا چاہیں بڑے شوق سے کریں، انہیں ہر رول ادا کرنے کا حق حاصل ہے۔ لیکن تاریخ میں ہر کردار کے لیے ایک مخصوص باب ہوتا ہے، اس کا مطالعہ بھی کر لیں۔ اور بطور خاص ’’خدیو مصر‘‘ اسماعیل پاشا کے حالات زندگی کا مطالعہ کریں ۔ ۔ ۔ خدیو مصر کی پالیسیوں کے نتیجہ میں تو برطانیہ کی فوجیں مصر پر قابض ہوئی تھیں، لیکن خدیو پنجاب کے منصوبوں میں یہ کردار کس ملک کی فوج کے لیے تجویز کیا گیا ہے؟ میاں صاحب خود ہی وضاحت فرمادیں تو ان کا بے حد کرم ہوگا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۰ اکتوبر ۱۹۹۹ء

قاہرہ پر برطانوی فوج کے قبضے کا پس منظر

نہر سویز کی کھدائی فرانسیسی ماہرین نے کی تھی لیکن حکومت برطانیہ پہل کر گئی اور اس نے یہ حصص خرید لیے۔ مگر نہر سویز کے یہ حصص فروخت کر کے بھی قرضوں کی ادائیگی نہ ہو سکی جس کے نتیجہ میں اسماعیل پاشا نے ۱۸۷۶ء میں سرکاری ہنڈیوں پر لوگوں کو رقوم کی ادائیگی روک دی اور ملک میں خلفشار کی کیفیت پیدا ہوگئی۔ قرض دینے والے یورپی ملکوں نے قرض خواہوں کے مفادات کے تحفظ کے عنوان سے مشترکہ طور پر ایک نگران کمیشن قائم کر لیا جس نے مصر کے مالی معاملات میں مداخلت کر کے دباؤ بڑھانا شروع کر دیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۴ اکتوبر ۱۹۹۹ء

عثمانی خلیفہ سلطان عبد الحمیدؒ ثانی کی یادداشتیں (۳)

سلطان مرحوم کے بقول جب وہ کھانے کی دعوت پر برطانوی ماہرین کا خیر مقدم کرتے ہوئے یہ بتا رہے تھے کہ برطانوی حکومت نے سلطنت عثمانیہ کے مختلف علاقوں میں آثار قدیمہ کی دریافت اور تاریخی نوادرات کی تلاش کے لیے اپنے خرچہ پر کھدائی کی پیشکش کی ہے جو انہوں نے قبول کر لی ہے، تو محفل میں موجود روسی سفیر کے لبوں پر انہیں عجیب سی مسکراہٹ کھیلتی دکھائی دی۔ حالانکہ اس سے قبل روسی سفیر گہری توجہ اور سنجیدگی کے ساتھ ان کی گفتگو سن رہے تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۰ ستمبر ۱۹۹۹ء

عثمانی خلیفہ سلطان عبد الحمیدؒ ثانی کی یادداشتیں (۲)

عثمانی خلیفہ سلطان عبد الحمید ثانی مرحوم کی یادداشتوں کا گزشتہ ایک کالم میں ذکر کیا تھا، ان میں سے کچھ اہم امور کا دو تین کالموں میں تذکرہ کرنے کو جی چاہتا ہے تاکہ قارئین یہ جان سکیں کہ خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کن حالات میں اور کن لوگوں کے ہاتھوں ہوا۔ یہ یادداشتیں سلطان عبد الحمید کی ذاتی ڈائری کے ان صفحات پر مشتمل ہیں جو خلافت سے معزولی کے بعد نظر بندی کے دوران انہوں نے قلمبند کیے۔ یہ پہلے ترکی زبان میں مختلف جرائد میں شائع ہو چکی ہیں اور عربی میں ان کا ترجمہ و ایڈیٹ کا کام عین شمس یونیورسٹی کے استاد پروفیسر محمد حرب نے کیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۱ ستمبر ۱۹۹۹ء

Pages


2016ء سے
Flag Counter