سودی نظام کا خاتمہ، غیر روایتی اقدامات کی ضرورت

دہشت گردی کی لعنت کو عام دستوری اور قانونی ذرائع سے کنٹرول کرنے میں کامیابی نہ پا کر اس کے لیے ایمرجنسی طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے جسے بظاہر قومی سطح پر قبول کر لیا گیا ہے۔ جبکہ اس طریقہ کار کے تحت کیے جانے والے اقدامات کا بڑا حصہ عام قانونی اور عدالتی پراسیس سے بالاتر دکھائی دیتا ہے ۔ ۔ ۔ سودی نظام بھی ’’معاشی دہشت گردی‘‘ سے کم نہیں ہے جس کے نقصانات اور تباہ کاریاں ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں۔ اس لیے اس سے نجات حاصل کرنے کے لیے بھی خصوصی اقدامات اور طریق کار کی ضرورت ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۱ اپریل ۲۰۱۶ء

حضرت مولانا شاہ احمد نورانیؒ

مولانا شاہ احمد نورانیؒ مسلکاً‌ بریلوی تھے اور ڈھیلے ڈھالے نہیں بلکہ متصلب اور پختہ کار بریلوی تھے۔ اور میں اس بات کا عینی شاہد ہوں کہ جہاں بھی مسلک کی بات آئی ہے ان میں کوئی لچک دیکھنے میں نہیں آئی۔ لیکن اس کے باوجود مشترکہ دینی معاملات میں انہوں نے مشترکہ جدوجہد اور رابطہ و معاونت سے کبھی گریز نہیں کیا۔ سیاسی معاملات ہوں یا دینی، ملک کی مختلف الخیال جماعتوں اور حلقوں کے درمیان رابطہ و مفاہمت کے فروغ اور اتحاد و اشتراک کے اہتمام میں ان کا کردار ہمیشہ نمایاں رہا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۴ دسمبر ۲۰۰۳ء

بغداد کی تاریخ پر ایک نظر

دجلہ کے کنارے بغداد نامی بستی کافی عرصہ سے آباد تھی جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ ’’بغ‘‘ نامی ایک بت سے منسوب تھی جبکہ ’’داد‘‘ فارسی کا لفظ ہے جس کا معنی ’’عطیہ‘‘ ہے۔ اس طرح اس کا معنٰی بنتا ہے ’’بغ کا عطیہ‘‘۔ بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ ’’بغ‘‘ کا لفظ اللہ تعالیٰ کے لیے بھی بولا جانے لگا تھا اس لیے یہ ’’اللہ تعالیٰ کا عطیہ‘‘ کے معنی میں ہے۔ اور بعض مؤرخین کی نکتہ رسی نے اسے ’’باغ داد‘‘ کی صورت میں پیش کیا ہے اور بتایا ہے کہ نوشیرواں عادل اس جگہ باغ میں بیٹھ کر داد انصاف دیا کرتا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵ اپریل ۲۰۰۳ء

حضرت مولانا قاضی عبد الکریم کلاچویؒ

حضرت مولانا قاضی عبد الکریمؒ نکتہ رس مدرس اور نکتہ شناس دانشور تھے۔ زندگی بھر درس و تدریس، افتاء و ارشاد اور تربیت و سلوک کے ماحول میں گزری۔ لیکن ملکی و قومی معاملات اور دینی تحریکات کے متنوع تقاضوں پر اظہار خیال کا سلسلہ بھی جاری رہتا تھا۔ صاحب مطالعہ اور تجزیہ و تبصرہ کے عمدہ ذوق سے بہرہ ور تھے ۔ ۔ ۔ قاضی صاحب مرحوم کو بعض امور میں اختلاف بھی تھا۔ خاص طور پر وہ پاکستان کی اسمبلیوں میں غیر مسلموں کی نمائندگی کے حق میں نہیں تھے اور اس پر مستقل موقف اور دلائل رکھتے تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۸ اپریل ۲۰۱۶ء

میڈیا سے متعلق چند لطائف

جہاں میڈیا کے افراد اپنے قارئین کے ذہنوں کو کنفیوژ کرنے کا رول ادا کرتے ہیں، وہاں سیاسی رہنما اور کارکن بھی میڈیا کو استعمال کرنے میں محتاط نہیں ہوتے۔ اس کا تعلق ہمارے عمومی کلچر سے ہے کہ ہم کسی بھی چیز کے صحیح اور ضرورت کے مطابق استعمال کرنے کے عادی نہیں ہیں اور ہر چیز سے ذاتی اور وقتی فائدہ حاصل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کے لیے عمومی اصلاحی جدوجہد کی ضرورت ہے۔ ایک ایسی تحریک جو ہمیں ذاتی، گروہی، اور وقتی اغراض و مفادات سے بالاتر ہو کر قومی اور اجتماعی سوچ کے تحت اپنا اپنا کردار ادا کرنے کی طرف متوجہ کر دے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳ جنوری ۲۰۱۱ء

رفاہ عامہ۔ نظریات کی ترویج کا سب سے مؤثر ذریعہ

یہ این جی اوز تعلیم، صحت اور رفاہ عامہ کے دیگر شعبوں میں سرگرم ہوتی ہیں اور اس کی آڑ میں اپنے فکری و تہذیبی ایجنڈے کو آگے بڑھاتی ہیں۔ یہ اس وقت مسلم معاشروں میں شکوک و شبہات پھیلانے، ایمان و یقین کو کمزور کرنے، اور اسلامی احکام و قوانین کے حوالہ سے تذبذب کی فضا قائم کرنے کے لیے مغرب کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ اس میں ہماری کوتاہی اور غفلت کا زیادہ دخل ہے کیونکہ ہم رفاہ عامہ کے محاذ پر، عوام کی تعلیم و صحت کی بہتری کے محاذ پر، اور ان کے حقوق و مفادات کے محاذ پر سرگرم نہیں ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲ جولائی ۲۰۰۲ء

شیطان کا پچھتاوا

حافظ ابن حجر المکی نے ایک روایت نقل کی ہے کہ ابلیس نے سیدنا حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ایک ملاقات کے موقع پر گزارش کی کہ میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کرنا چاہتا ہوں، آپ اس کی قبولیت کی سفارش کر دیجیے۔ حضرت موسیٰؑ نے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں سفارش کی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ابلیس سے کہہ دیجیے کہ اگر وہ آدمؑ کی قبر کو سجدہ کر دے تو اس کی توبہ قبول ہو سکتی ہے۔ حضرت موسیٰؑ نے ابلیس کو یہ بات بتائی تو وہ غصے میں آگیا اور کہا کہ میں نے زندہ آدم کو سجدہ نہیں کیا تھا تو اب اس کی قبر کے سامنے کیسے سجدہ ریز ہو سکتا ہوں؟ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۷نومبر ۲۰۱۱ء

خیر القرون میں خواتین کے علم و فضل کا اعتراف

حضرت سعید بن الحسیبؒ معروف بزرگ ہیں جنہیں ’’افقہ التابعین‘‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنی بیٹی کا نکاح اپنے شاگردوں میں سے ایک ذہین شخص سے کر دیا۔ شادی کے بعد شب عروسی گزار کر صبح جب وہ صاحب گھر سے نکلنے لگے تو نئی نویلی دلہن نے پوچھا کہ کہاں جا رہے ہیں؟ جواب دیا کہ استاد محترم حضرت سعید بن الحسیبؒ کی مجلس میں حصول علم کا سلسلہ جاری رکھنے کے لیے جا رہا ہوں۔ اس پر خاتون نے کہا کہ اس کے لیے وہاں جانے کی ضرورت نہیں ہے، ابا جان کا سارا علم میرے پاس ہے اور وہ میں ہی آپ کو سنا دوں گی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۶ اگست ۱۹۹۹ء

اقوام متحدہ، بی بی سی اور عالم اسلام

اب اگر وہی باتیں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان اور بی بی سی کے ڈائریکٹر جنرل سر جان برٹ کی زبانوں پر بھی آرہی ہیں تو ہمارے لیے خوشی کی بات ہے کہ مسلمانوں کا موقف کسی حد تک تو سنا اور سمجھا جانے لگا ہے۔ لیکن اس سلسلہ میں اصل کام ابھی باقی ہے کہ درج ذیل امور کے اہتمام کے لیے مسلمان حکومتیں منظم اور مربوط لائحہ عمل کی راہ ہموار کریں۔ کیونکہ مغرب اگر فی الواقع مسلمانوں کی ناراضگی کو محسوس کر رہا ہے اور اسے کم کرنے کا خواہشمند ہے تو اس کا کم سے کم درجہ یہی ہو سکتا ہے، ورنہ اس کے علاوہ تو صرف زبانی جمع خرچ ہوگا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۴ جولائی ۱۹۹۹ء

خلیفہ سلیمان بن عبد الملکؒ اور حضرت ابو حازمؒ کے درمیان مکالمہ

اہل دنیا اور اصحاب اقتدار کے لیے علم کی عظمت کو ملحوظ رکھنے کا راستہ یہ ہے کہ وہ علم کی ضرورت کو محسوس کریں، اہل علم کو تلاش کر کے ان سے رابطہ رکھیں، ان سے استفادہ کریں، ان کی دعائیں لیں، ان کا احترام کریں اور ان کی نصیحتوں کو غور سے سنیں۔ جبکہ خود اہل علم کے لیے علم کی عظمت کو ملحوظ رکھنے کی صورت یہ ہے کہ وہ علم کے وقار کو قائم رکھیں، اسے اہل دنیا اور اصحاب اقتدار تک رسائی کا ذریعہ نہ بنائیں، استغنا اور بے نیازی کا دامن نہ چھوڑیں، علم کے بدلے دنیا حاصل کرنے کا راستہ اختیار نہ کریں، اور ہر حال میں حق گوئی کو اپنا شعار بنائیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

یکم جولائی ۱۹۹۹ء

Pages


2016ء سے
Flag Counter