عدالتی بحران اور وکلاء برادری کی جدوجہد

کیونکہ وہ ملک کا بادشاہ ہونے کے ساتھ ساتھ چرچ آف انگلینڈ کا بھی سربراہ ہوتا ہے اور چرچ آف انگلینڈ کیتھولک نہیں ہے، اس لیے اس کا سربراہ کیتھولک نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ بادشاہت کے قواعد وضوابط میں یہ بات باقاعدہ طور پر شامل ہے کہ چونکہ برطانیہ کا بادشاہ چرچ کا بھی سربراہ ہوتا ہے، اس لیے اس کا تعلق کیتھولک فرقہ سے نہیں ہوگا۔ اگر اس نزاکت کا برطانیہ کے نظام میں لحاظ رکھا گیا ہے اور وہاں اس پابندی کا اہتمام ضروری سمجھا گیا ہے تو ہمارے ہاں بھی اس اصولی موقف کے احترام میں کوئی حجاب محسوس نہیں کیا جانا چاہیے، مکمل تحریر

اپریل ۲۰۰۷ء

اسلام کی تشکیل نو کی تحریکات اور مارٹن لوتھر ۔ مولانا سید سلیمان ندویؒ کا مکتوب

بہت سے مسلم دانشوروں نے مارٹن لوتھر کی اس تحریک کے پس منظر اور نتائج کی طرف نظر ڈالے بغیر اس کے نقش قدم پر چلنے کو ضروری خیال کرلیا اور اب جب کہ مغرب اس کے تلخ نتائج کی تاب نہ لاتے ہوئے واپسی کے راستے تلاش کر رہا ہے، ہمارے یہ دانشور اب بھی اسی کی پیروی میں اسلام کی تعبیر وتشریح کے روایتی فریم ورک کو توڑدینے کی مسلسل کوششوں میں مصروف ہیں ۔ ۔ ۔ ’’اسلامی تہذیب وثقافت‘‘ کی جلد اول میں اس حوالے سے مولانا سید سلیمان ندویؒ کا ایک مکتوب گرامی ہے جس سے ہماری مذکورہ بالا گزارشات کی تائید ہوتی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

مارچ ۲۰۰۷ء

روشن خیالی کے مغربی اور اسلامی تصور میں فرق

مغرب نے تاریکی سے روشنی کی طرف سفر انقلاب فرانس سے شروع کیا اور مغرب کے ہاں تاریک دور اور روشن دور میں فاصل انقلاب فرانس ہے۔ اس سے پہلے کا دور تاریکی، جہالت اور ظلم و جبر کا دور کہلاتا ہے جبکہ اس کے بعد کے دور کو روشنی، علم اور انصاف و حقوق کا دورکہا جاتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں دور جاہلیت جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے کے دور کو سمجھا جاتاہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے زمانہ جاہلیت، ظلم وجبراور تاریکی کا دورکہلاتاہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۸ جنوری ۲۰۰۷ء

تجدد پسندوں کا تصور اجتہاد

ہمارے بعض دانشور دوستوں کے دل میں بھی یہ خیال آیا کہ ہم آخر کیوں ایسا نہیں کرسکتے کہ دین کی تعبیرو تشریح کے اب تک صدیوں سے چلے آنے والے فریم ورک کو چیلنج کرکے اس کی نفی کریں اورمارٹن لوتھر کی طرح قرآن وسنت کی نئی تعبیرو تشریح کی بنیاد رکھیں۔ چنانچہ انہوں نے بھی ’’ری کنسٹرکشن‘‘ کے جذبہ کے ساتھ مارٹن لوتھر کی ’’قدم بہ قدم‘‘پیروی کا راستہ اختیار کیا اور قرآن وسنت کی تعبیر نو کے کام کا آغاز کر دیا۔ اس سلسلے میں سب سے پہلا کام مارٹن لوتھر کی وفات کے فوراً بعد اکبر بادشاہ کے دور میں شروع ہوگیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جنوری ۲۰۰۷ء

اقبالؒ کا تصور اجتہاد

علامہ محمد اقبالؒ ایک عظیم فلسفی، مفکر، دانشور اور شاعر تھے جنہوں نے اپنے دور کی معروضی صورت حال کے کم وبیش ہر پہلو پر نظر ڈالی اور مسلمانوں کو ان کے مستقبل کی صورت گری کے لیے اپنی سوچ اور فکر کے مطابق راہ نمائی مہیا کی۔ ۔ ۔ ۔ علامہ محمد اقبالؒ فکری اور نظری طور پر اجتہاد کی ضرورت کا ضرور احساس دلا رہے تھے اور ان کی یہ بات وقت کا ناگزیر تقاضا تھی، لیکن اس کے عملی پہلوؤں کی تکمیل کے لیے ان کی نظر ان علمائے کرام پر تھی جو قرآن وسنت کے علوم سے گہری واقفیت رکھتے تھے اور اجتہاد کی اہلیت سے بہرہ ور تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

نومبر ۲۰۰۶ء

غلامی کے مسئلہ پر ایک نظر

غلامی کا رواج قدیم دور سے چلا آ رہا ہے۔ بعض انسانوں کو اس طور پر غلام بنا لیا جاتا تھا کہ وہ اپنے مالکوں کی خدمت پر مامور ہوتے تھے، ان کی خرید و فروخت ہوتی تھی، انھیں آزاد لوگوں کے برابر حقوق حاصل نہیں ہوتے تھے اور اکثر اوقات ان سے جانوروں کی طرح کام لیا جاتا تھا۔ جدید دنیا میں بھی ایک عرصے تک غلامی کا رواج رہا۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ میں، جسے جدید دنیا کی علامت کہا جاتا ہے، غلامی کو باقاعدہ ایک منظم کاروبار کی حیثیت حاصل تھی۔ افریقہ سے بحری جہازوں میں افراد کو بھر کر لایا جاتا تھا اور امریکہ کی منڈیوں میں فروخت کیا جاتا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اکتوبر ۲۰۰۶ء

حدود آرڈیننس اور تحفظ حقوق نسواں بل

مغربی معاشرہ اور قوانین میں رضامندی کا زنا سرے سے جرم ہی تصور نہیں ہوتا اور اس سلسلے میں کوئی بھی امتناعی قانون انسانی حقوق کے منافی سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ اسلام اسے سنگین ترین جرم قرار دیتا ہے اور سنگسار کرنے اور سو کوڑوں کی سخت ترین سزا اس جرم پر تجویز کرتا ہے۔ اس واضح تضاد کو مغربی سوچ کے مطابق دور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ حدود آرڈیننس کے اس حصے کو یا تو بالکل ختم کر دیا جائے، اور اگر اسے کلیتاً ختم کرنا ممکن نہ ہو تو اسے ایسے قانونی گورکھ دھندوں میں الجھا دیا جائے کہ ایک ’’شو پیس‘‘ سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت باقی نہ رہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اکتوبر ۲۰۰۶ء

محترم جاوید احمد غامدی اور ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی کی توضیحات

حدود آرڈیننس ہوں یا کوئی بھی مسئلہ اور قانون، مسلمات کے دائرے میں رہتے ہوئے بحث و مباحثہ ہمارے نزدیک نہ صرف یہ کہ جائز ہے بلکہ وقت کا ایک ناگزیر تقاضا اور ضرورت بھی ہے جس کی طرف ہم روایتی علمی حلقوں کو مسلسل توجہ دلاتے رہتے ہیں، اور مختلف حوالوں سے بعض دوستوں کی ناراضی کا خطرہ مول لیتے ہوئے بھی اس کے لیے سرگرم عمل رہتے ہیں۔ البتہ اس کے ساتھ ہم پورے شعور کے ساتھ اس بات کی بھی کوشش کرتے ہیں کہ ہماری زبان اور قلم سے کوئی ایسا جملہ نہ نکلنے پائے جو اسلامی تعلیمات کی نفی کرنے والوں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

ستمبر ۲۰۰۶ء

عقل کی حدود اور اس سے استفادہ کا دائرہ کار

آج مغرب کے پاس اپنے فکر وفلسفہ کو دنیا سے منوانے کے لیے سب سے بڑی دلیل یہی ’’عقل عام‘‘ اور ’’کامن سینس‘‘ ہے۔ لیکن یہ امر واقعہ ہے کہ جس عقل عام اور کامن سنس کو واحد عالمی معیار قرار دے کر دنیا سے منوانے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ صرف مغرب کی عقل عام ہے اور اسی کا کامن سنس ہے۔ اس کے معلومات و مشاہدات کا دائرہ باقی دنیا سے مختلف ہے، اس کے مدرکات ومحسوسات کی سطح باقی دنیا سے الگ ہے اور اس کے تاریخی پس منظر اور تجربات کا ماحول دوسری دنیا سے مطابقت نہیں رکھتا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

ستمبر ۲۰۰۶ء

اسلام کا قانون ازدواج اور جدید ذہن کے شبہات

جناب نبی اکرم ﷺ کی گیارہ شادیاں اور قرآن کریم میں مسلمانوں کو چار تک شادیاں کرنے کی اجازت ایک عرصہ سے مغربی حلقوں میں زیر بحث ہے اور اعتراض وطعن کا عنوان بنی ہوئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ سوال بھی سامنے آجاتاہے کہ جب ایک مرد کو چار شادیاں کرنے کی اجازت ہے تو عورت کو بیک وقت چارشادیاں کرنے کی اجازت کیوں نہیں ہے؟ حدود آرڈیننس پر گزشتہ دنوں چھیڑی جانے والی بحث کے دوران مختلف حلقوں کی طرف سے یہ سوالات میڈیا کے ذریعے اٹھائے گئے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اگست ۲۰۰۶ء

Pages


2016ء سے
Flag Counter