مقالات و مضامین

حضرت شیخ الہند اور نظریہ عدمِ تشدد

مولانا فضل الرحمان پشاور میں بھرپور ’’اسلام زندہ باد کانفرنس‘‘ کے انعقاد کے بعد اب ۳۱ مارچ کو کنونشن سنٹر اسلام آباد میں شیخ الہند سیمینار کے عنوان سے مورچہ زن ہو رہے ہیں جبکہ مولانا سمیع الحق ’’دفاع پاکستان کونسل‘‘ کے محاذ کو مسلسل گرم رکھے ہوئے ہیں اور گزشتہ روز پارلیمنٹ کے سامنے دفاع پاکستان کونسل نے نیٹو سپلائی کی ممکنہ بحالی کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کر کے ارکان پارلیمنٹ کو عوامی جذبات سے آگاہ کرنے کا اہتمام کیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۱ مارچ ۲۰۱۲ء

تحریک ریشمی رومال اور انگریز گورنر پنجاب کی یادداشتیں

سرمائیکل اوڈوائر کی یادداشتوں پر مشتمل خودنوشت کا اردو ترجمہ ’’غیر منقسم برصغیر میری نظر میں‘‘ آج کل میرے مطالعہ میں ہے جو شفیق الرحمان میاں نے کیا ہے اور شبیر میواتی صاحب کے ذریعے مجھے میسر آیا ہے۔ سرمائیکل فرانسس اوڈوائر ۱۹۱۲ء سے ۱۹۱۹ء تک برطانوی حکومت کی طرف سے پنجاب کے گورنر رہے جبکہ انہوں نے برطانوی سول سروس کے تحت ۱۸۸۵ء سے ۱۹۲۰ء تک آئی سی افسر کے طور پر مختلف علاقوں میں خدمات سرانجام دیں۔ ان کی گورنری کا دور اس لحاظ سے بہت زیادہ اہم ہے کہ امرتسر کے جلیانوالہ باغ کا سانحہ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳ مئی ۲۰۱۲ء

تحریک ریشمی رومال میں گوجرانوالہ کا حصہ

کچھ عرصہ قبل لاہور میں شیخ الہند اکادمی کے نام سے ایک علمی و فکری فورم قائم ہوا تھا جس کا مقصد تحریک آزادیٔ ہند کے عظیم راہنما شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کی خدمات، تعلیمات اور جدوجہد سے نئی نسل کو متعارف کروانا اور دور حاضر کے ملی و قومی مسائل میں شیخ الہندؒ کے افکار و تعلیمات سے راہنمائی کے پہلوؤں کو اجاگر کرنا ہے۔ راقم الحروف بھی اس فورم کی مجلس مشاورت میں شامل ہے۔ شیخ الہند اکادمی نے ۱۴۳۳ھ کے سال کو حضرت شیخ الہندؒ کے سال کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا ہے اور طے کیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۸ دسمبر ۲۰۱۱ء

الگ بلاک بنانے کی ضرورت

ماضی میں پاکستان، ایران اور ترکی پر مشتمل ’’آر سی ڈی‘‘ کا قیام اسی جذبہ کے ساتھ عمل میں آیا تھا اور اسلامی سربراہ کانفرنس بھی اسی عزم کے ساتھ وجود میں آئی تھی لیکن اس سلسلہ میں سب سے بڑی رکاوٹ جس کی وجہ سے آر سی ڈی اپنا مقصد حاصل نہیں کر سکی اور اسلامی سربراہ کانفرنس بھی ایک نمائشی ادارے سے زیادہ کوئی مقام حاصل نہیں کر پائی وہ یہ ہے کہ اس وقت مسلم ممالک میں جو لوگ حکمران ہیں ان کی اکثریت آزادانہ ذہن نہیں رکھتی اور مغرب کے قائم کردہ یک طرفہ بین الاقوامی نظام کے جال اور طلسم سے گلوخلاصی کی ضرورت محسوس نہیں کر رہی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳ فروری ۲۰۰۷ء

پاکستان کا مروجہ عدالتی نظام

لاہور ہائیکورٹ کے محترم جج جسٹس خلیل الرحمان رمدے نے روزنامہ جنگ لندن ۱۴ جون ۱۹۹۹ء کی رپورٹ کے مطابق وکلاء کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارا عدالتی نظام مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے اور اگر اس نظام کے ساتھ جج صاحبان اور وکلاء کی روزی وابستہ نہ ہوتی تو یہ کبھی کا ختم ہو چکا ہوتا۔ جسٹس موصوف کا کہنا ہے کہ اس نظام سے عام آدمی کو ریلیف اور انصاف نہیں ملتا اور لوگوں کا اس سسٹم پر سے اعتماد اٹھ گیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۶ جولائی ۱۹۹۹ء

ایک کہانی اور سہی!

گورنر سرحد نے گزشتہ ہفتہ مالاکنڈ ڈویژن اور ضلع کوہستان میں ’’شرعی نظامِ عدل آرڈیننس ۱۹۹۹ء‘‘ کے نفاذ کا اعلان کیا ہے اور مختلف اخبارات میں اس سلسلہ میں شائع ہونے والی تفصیلات کے مطابق اس آرڈیننس کی رو سے ضلع سوات، ضلع دیر، ضلع چترال، ضلع کوہستان اور مالاکنڈ کے وفاق کے زیر اہتمام علاقے پر مشتمل خطے میں عدالتوں کو پابند کر دیا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے مقدمات کے فیصلے شریعت اسلامیہ کے مطابق کریں گے جبکہ غیر مسلموں کے خاندانی مقدمات کے فیصلے ان کے مذہبی احکام کے مطابق ہوں گے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۷ جنوری ۱۹۹۹ء

حضرت عیسٰیؑ کی تصلیب اور موجودہ مسیحی مذہبی قیادت کا مخمصہ

اسرائیل کی حمایت میں اس وقت یہودی اور مسیحی امتوں میں اتحاد ہے اور اسرائیلی ریاست کو تحفظ فراہم کرنے میں مغرب کی مسیحی حکومتیں یہودیوں سے بھی دو ہاتھ آگے دکھائی دے رہی ہیں۔ حالانکہ گزشتہ دو ہزار برس میں یہودیوں اور مسیحیوں کے مابین کھلی عداوت رہی ہے اور مسیحی حکومتوں کے ہاتھوں یہودیوں کا مسلسل قتل عام ہوتا رہا ہے۔ یہودیوں کے نزدیک حضرت عیسٰی علیہ السلام نہ صرف یہ کہ نبی نہیں ہیں بلکہ بغیر باپ کے جنم لینے کی وجہ سے حضرت عیسیٰ اور ان کی والدہ حضرت مریم علیہما السلام دونوں نعوذ باللہ شرمناک الزام کا ہدف چلے آرہے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۱ جون ۲۰۰۴ء

گلگت بلتستان کا مسئلہ ۔ صدرِ پاکستان کے نام ایک عریضہ

بگرامی خدمت جناب سردار فاروق احمد لغاری صاحب، صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، مزاج گرامی؟ گزارش ہے کہ کچھ دنوں سے قومی اخبارات میں وفاقی کابینہ کا ایک فیصلہ زیر بحث ہے جس کے تحت مبینہ طور پر گلگت اور اس سے ملحقہ شمالی علاقہ جات کو مستقل صوبہ کی حیثیت دی جا رہی ہے۔ اس سلسلہ میں چند حقائق کی طرف آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ شمالی علاقہ جات بین الاقوامی دستاویزات کی رو سے کشمیر کا حصہ ہیں اور اس نقشہ میں شامل ہیں جو پاکستان اور بھارت کے درمیان ۱۹۴۷ء سے متنازعہ چلا آرہا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جون ۱۹۹۴ء

ڈاکٹر حمید اللہؒ کی یاد میں ایک نشست

ڈاکٹر محمد حمید اللہؒ کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے مقررین نے بتایا کہ عالم اسلام کی اس عظیم شخصیت نے یورپ کے دل پیرس میں بیٹھ کر نصف صدی تک اسلام کی جو خدمت کی وہ دعوت اسلامی کی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ انہوں نے فرانسیسی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ کرنے کے علاوہ فرانسیسی میں اسلامی تعلیمات پر بیش بہا لٹریچر شائع کیا اور ان کے ہاتھ پر ہزاروں افراد نے اسلام قبول کیا۔ وہ آج کے دور میں ایک قابل تقلید نمونہ تھے جس کی ایک مثال یہ ہے کہ انہیں دنیا کے جس حصے سے بھی کوئی شخص خط لکھتا تھا وہ اس کا جواب ضرور دیتے تھے ۔ ۔ مکمل تحریر

۸ ستمبر ۲۰۰۳ء

ملک میں اسلحہ کلچر ۔ وفاقی وزیرداخلہ سے دو اہم گزارشات

امن و امان کے حوالہ سے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کے بعد وفاقی وزیرداخلہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) معین الدین حیدر نے اخباری نمائندوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں اسلحہ کلچر کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں، اور اس سلسلہ میں اسلحہ کی نمائش پر پابندی اور فائرنگ کی قانونی ممانعت کے علاوہ ان دینی طلبہ کی حوصلہ شکنی بھی پروگرام میں شامل ہے جو افغانستان جا کر اسلحہ کی ٹریننگ حاصل کرتے ہیں۔ وزیرداخلہ نے پریس بریفنگ میں کہا کہ اس حوالہ سے افغانستان کی حکومت سے بھی کہا گیا ہے کہ وہ اسلحہ چلانے کی تربیت دینے والے مراکز بند کر دے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۸ فروری ۲۰۰۰ء

پاکستان اور لاؤس میں بھکاریوں کا فرق

وزیراعظم میر ظفر اللہ خان جمالی ان دنوں لاؤس کے دورے پر ہیں، لاہور کے ایک قومی اخبار کی مختصر خبر کے مطابق انہوں نے لاؤس کے دارالحکومت میں ایک اخبار نویس سے گفتگو کرتے ہوئے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا ہے کہ لاؤس انہیں کوئی بھکاری نظر نہیں آیا، اس کے ساتھ ہی انہوں نے کہا ہے کہ پاکستان میں بھکاری بنتے نہیں بلکہ بنائے جاتے ہیں۔ بظاہر یہ ایک مختصر سا تاثر یا تبصرہ ہے جو جمالی صاحب نے بھکاریوں کے حوالہ سے پاکستان اور لاؤس کی صورتحال میں نظر آنے والے فرق پر کیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۵ اپریل ۲۰۰۴ء

’’نئی امریکی بائبل‘‘ اور مسیحی عقائد

گوجرانوالہ سے شائع ہونے والے مسیحی جریدہ ماہنامہ کلام حق کو چرچ آف پاکستان اور پریسٹیرین چرچ آف پاکستان سے شکایت ہے کہ انہوں نے بائبل کا جو انگریزی متن شائع کیا ہے اس میں بہت سی آیات حذف کر دی گئی ہیں۔ یہ شکایت ماہنامہ کلام حق نے فروری ۲۰۰۴ء کے شمارے میں کی ہے اور بتایا ہے کہ چرچ آف پاکستان کی انگریزی بائبل میں چالیس کے لگ بھگ آیات میں ردوبدل کیا گیا ہے، ان میں بعض آیات بالکل حذف کر دی گئی ہیں اور بعض آیات کے اہم جملے نکال دیے گئے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۶ مارچ ۲۰۰۴ء

دینی مدارس کے جداگانہ نظام و نصاب کا مقصد

رجب المرجب کے آغاز کے ساتھ ہی ملک بھر میں دینی مدارس کی تقریبات کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے اور ختم بخاری شریف، تقسیم اسناد، دستار بندی اور سالانہ اجتماعات کے عنوان سے یہ تقریبات شعبان المعظم کے اختتام تک جاری رہیں گی جن میں مختلف دینی و تعلیمی موضوعات پر گفتگو کے علاوہ مدارس کے منتظمین اپنی کارکردگی کی سالانہ رپورٹیں پیش کریں گے اور آئندہ عزائم کا تذکرہ کریں گے۔ میں اسی حوالہ سے دو روز سے حیدر آباد سندھ میں ہوں اور نصف درجن سے زائد دینی مدارس کی تقریبات میں شرکت کر چکا ہوں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۴ ستمبر ۲۰۰۳ء

علماء دیوبند کے تاریخی کردار پر ایک نظر

آج آزاد کشمیر کے تاریخی شہر باغ میں آل جموں و کشمیر جمعیۃ علمائے اسلام کے زیر اہتمام دو روزہ ’’خدمات علماء دیوبند کانفرنس‘‘ کا آغاز ہو رہا ہے۔ یہ کانفرنس اکابر علماء دیوبند کی ملی و دینی خدمات پر انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے منعقد کی جا رہی ہے اور اس کا ایک بڑا مقصد اپنے بزرگوں کی خدمات اور کارناموں کا تذکرہ کر کے ان سے راہنمائی حاصل کرنے کے علاوہ نئی نسل کا ذہنی و فکری رشتہ ان بزرگوں کے ساتھ قائم رکھنا اور آج کے لوگوں کو یہ بتانا ہے کہ آج اگر جنوبی ایشیا میں اسلام کا نام زندہ ہے، دینی تعلیم و ثقافت کی اقدار و روایات کا تسلسل قائم ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

یکم مئی ۲۰۰۴ء

الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے قیام کا پس منظر

ایک عرصہ سے خواہش تھی کہ کوئی ایسا ادارہ ہو جو درس نظامی کے فضلاء کے لیے فکری و ذہنی تربیت گاہ کے ساتھ ساتھ مطالعہ و تحقیق اور تحریر و تقریر کا تربیتی مرکز بنے۔ دینی مدارس کا موجودہ نظام جس بین الاقوامی دباؤ اور اس کے نتیجے میں ریاستی اداروں کی مداخلت کے خطرہ سے دوچار ہے اس کے پیش نظر دینی مدارس کے منتظمین کے ذہنی تحفظات کی وجہ سمجھ میں آتی ہے، اس لیے ان کے داخلی نظام میں کسی بڑی تبدیلی کی سردست کوئی توقع ہے اور نہ ہی میں خود موجودہ فضا میں اس کے حق میں ہوں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۸ دسمبر ۱۹۹۹ء

پاکستان شریعت کونسل کے قیام کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نوآبادیاتی نظام کے خاتمہ، اسلامی نظام کے نفاذ، قومی خودمختاری کے تحفظ اور مغرب کی نظریاتی و ثقافتی یلغار کے مقابلہ کے لیے رائے عامہ کو بیدار و منظم کرنے کی غرض سے ’’پاکستان شریعت کونسل‘‘ کے قیام کا اعلان سامنے آیا تو مختلف حلقوں کی طرف سے اس سوال کا اٹھایا جانا ایک فطری امر تھا کہ آخر ان مقاصد کے لیے ایک نئی جماعت کے قیام کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی؟ بعض دوستوں کا خیال ہے کہ پہلے سے موجود بیسیوں جماعتوں میں ایک نئی جماعت کا اضافہ کوئی ضروری امر نہیں تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اکتوبر ۱۹۹۶ء

خدماتِ علماء دیوبند کانفرنس: قائدین اور شرکاء سے چند گزارشات

گزشتہ کم و بیش ڈیڑھ سو برس کے دوران اس خطۂ زمین میں اسلامی تعلیم و ثقافت کو زندہ رکھنے اور عام مسلمانوں کا دین کے ساتھ تعلق قائم رکھنے کے لیے علمائے دیوبند نے جو کردار ادا کیا ہے اس کا مختصر اور سرسری تذکرہ ہم گزشتہ کالم میں کر چکے ہیں۔ اور آج اس حوالہ سے کچھ گزارشات پیش کرنا چاہتے ہیں کہ مستقبل کے امکانات و خدشات اور ضرورتوں کا دائرہ کیا ہے اور علمائے دیوبند کے ماضی کے کردار کو سامنے رکھتے ہوئے اس قافلۂ حق و صداقت پر اس حوالہ سے کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲ مئی ۲۰۰۴ء

طالبان، امریکہ اور اقوام متحدہ

امریکی صدر بل کلنٹن نے اعلان کیا ہے کہ وہ دہشت گردوں کی سرپرستی کرنے پر طالبان کو سزا دینا چاہتے ہیں، انہوں نے کہا کہ افغانستان پر عائد کی جانے والی پابندیوں کا مقصد طالبان تحریک کو عالمی برادری سے دہشت گردی سمیت اہم معاملات پر عدم تعاون کی راہ اپنانے کی سزا دینا ہے۔ اس سے قبل اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان جنرل اسمبلی میں سالانہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ افغانستان دنیا بھر کے مذہبی دہشت گردوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

دسمبر ۱۹۹۹ء

فہم قرآن کریم کی اہمیت اور اس کے تقاضے

قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور ہمارے لیے ہے۔ جب یہ بات بطور عقیدہ ہمارے ذہن میں آجاتی ہے تو اس کا لازمی تقاضا یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنے لیے اللہ تعالیٰ کے اس پیغام کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ کسی بھی پیغام کا پہلا حق یہی ہوتا ہے کہ اسے پڑھا جائے، سمجھا جائے اور پیغام بھیجنے والے کے مقصد سے آگاہی حاصل کی جائے۔ پیغام کسی دوست کا ہو، دفتری خط ہو، عدالتی سمن ہو، کاروباری لیٹر ہو حتیٰ کہ کسی دشمن کا پیغام بھی ہو تو منطقی طور پر اسے وصول کرنے والے کی پہلی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وہ اسے پڑھے اور سمجھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵ جون ۲۰۰۴ء

اسلام دشمنی ۔ یہود و نصارٰی میں قدرِ مشترک

امریکی سینٹ نے ملائیشیا کے لیے بارہ لاکھ ڈالر کی فوجی امداد کو مبینہ مذہبی آزادی کے ساتھ مشروط کر دیا ہے اور یہودیوں پر ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد کی تنقید کو ہدف اعتراض بناتے ہوئے امریکی قیادت نے کہا ہے کہ فوجی امداد کے حصول کے لیے مہاتیر محمد کو اس تنقید پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ دوسری طرف ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلامی سربراہ کانفرنس میں انہوں نے اپنے خطاب کے دوران یہودیوں کے بارے میں جو یہ بات کہی تھی کہ دنیا پر دراصل چند مٹھی بھر یہودی حکومت کر رہے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲ نومبر ۲۰۰۳ء

دینی جماعتوں کے راہنماؤں کے نام ایک اہم خط

محترمی و مکرمی! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مزاج گرامی؟ گزارش ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں قرآن و سنت کی دستوری بالادستی کی جدوجہد، قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے کر اسلام کے نام پر سرگرمیوں سے روکنے، توہین رسالتؐ پر موت کی سزا اور دیگر نافذ شدہ بعض اسلامی قوانین کے حوالہ سے اس وقت عالمی سطح پر جو کشمکش جاری ہے اس کے بارے میں دو اہم خبریں پیش خدمت ہیں جو تازہ ترین صورتحال کی عکاسی کرتی ہیں۔ آنجناب سے گزارش ہے کہ اس سلسلہ میں رائے عامہ کی راہنمائی فرمائیں اور اسلامی قوانین کے تحفظ کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۶ جون ۱۹۹۹ء

دنیا میں معاشی توازن قائم کرنے کا اصل راستہ

اس حوالے سے غربت، ناداری اور بھوک کے عالمی تناظر میں اصولی طور پر اس بات کا جائزہ لینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس غربت و ناداری اور بھوک وافلاس کے اسباب کیا ہیں اور ان اسباب کو دور کرنے کے لیے عالمی سطح پر آج کے دور میں کیا کیا جا سکتا ہے؟ اس کے بارے میں ایک نقطہ نظر یہ ہے اور آج کی بین الاقوامی قوتوں اور اداروں کی پالیسیوں کی بنیاد اسی نقطہ نظر پر ہے کہ آبادی بے تحاشا بڑھ رہی ہے اور دنیا کے موجود اور میسروسائل آبادی میں اس تیز رفتار اضافے کا ساتھ نہیں دے رہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

نومبر ۲۰۰۱ء

ملٹی نیشنل کمپنیاں اور پاکستان کی خودمختاری

ہرصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش میں برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے تجارت اور محصولات کے نظام میں شرکت کے ذریعہ کنٹرول حاصل کیا تھا اور فلسطین میں یہودیوں نے زمینوں کی وسیع پیمانے پر خریداری کے ذریعے سے قبضے کی راہ ہموار کی تھی۔ اس پس منظر میں یوں محسوس ہو رہا ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں ایک طرف پاکستان کی صنعت و تجارت پر کنٹرول حاصل کر کے قومی معیشت کو بین القوامیت کے جال میں مکمل طور پر جکڑنے کی تگ ودو میں مصروف ہیں اور دوسی طرف ’’کارپوریٹ ایگریکلچرل فارمنگ‘‘ کے نام پر ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

ستمبر ۲۰۰۱ء

دینی مدارس کا نصاب تعلیم

دینی مدارس میں مروج نصاب تعلیم کو درس نظامی کا نصاب کہا جاتا ہے جو ملا نظام الدین سہالویؒ سے منسوب ہے۔ ملا نظام الدین سہالویؒ المتوفی (۱۱۶۱ھ)حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے معاصرین میں تھے۔ ان کا قدیمی تعلق ہرات (افغانستان) کے معروف بزرگ حضرت شیخ عبد اللہ انصاریؒ سے تھا۔ اس خاندان کے شیخ نظام الدینؒ نامی بزرگ نے یوپی کے قصبہ سہالی میں کسی دور میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا تھا اور پھر ان کے خاندان میں یہ سلسلہ نسل درنسل چلتا رہا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اپریل ۲۰۰۱ء

امریکہ کا خدا بیزار سسٹم

روزنامہ جنگ لاہور ۲۶ فروری ۲۰۰۱ء کی ایک خبر کے مطابق امریکی ریاست ورجینیا میں سینٹ کے ریاستی ارکان نے ایک یادگاری سکہ پر ’’ہم خدا پر بھروسہ کرتے ہیں‘‘ کے الفاظ کندہ کرنے کی تجویز مسترد کر دی ہے۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ ریاست میں امریکہ کے قدیم باشندوں ’’ریڈ انڈین‘‘ کے اعزاز اور توقیر کے لیے ایک سلور ڈالر جاری کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں جس پر جنگلی بھینس کی تصویر کے ساتھ In God We Trust (ہم خدا پر بھروسہ کرتے ہیں) کے الفاظ کندہ کرنے کی تجویز دی گئی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

مارچ ۲۰۰۱ء

حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ پر ایک نظر

حکومت نے آخر کار "حمود الرحمان کمیشن" کی رپورٹ کا ایک اہم حصہ عوام کی معلومات کے لیے کیبنٹ ڈویژن کی لائبریری میں رکھ دیا ہے اور اس کے اقتباسات قومی اخبارات میں شائع ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ ۱۹۷۱ء میں ملک سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بنگلہ دیش کے قیام کے بعد مغربی پاکستان کے باقی ماندہ حصے میں قائم ہونے والی بھٹو حکومت نے عوامی مطالبہ پر اس وقت کے سپریم کورٹ آف پاکستان کے سربراہ جسٹس حمود الرحمان مرحوم کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطحی عدالتی کمیشن قائم کیا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جنوری ۲۰۰۱ء

اسلامی ممالک کا اتحاد، داعش اور ہم

گزشتہ دنوں سعودی عرب کی قیادت میں 34 مسلمان ملکوں کا عسکری اتحاد قائم کرنے کا اعلان ہوا ہے جن میں پاکستان کا نام بھی شامل ہے جبکہ عراق، ایران اور شام اس کا حصہ نہیں ہیں، سعودی عرب کا دارالحکومت ریاض اس فوجی اتحاد کا ہیڈ کوارٹر ہوگا اور ا س کا مقصد دہشت گردی کے خلاف جنگ کرنا اور داعش کے خطرے سے نمٹنا بیان کیا گیا ہے، پاکستان کی وزارت خارجہ نے اپنے پہلے رد عمل میں اس سلسلہ میں بے خبری کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ تفصیلات معلوم ہونے کے بعد ہی اس کے بارے میں کوئی حتمی بات کہی جا سکے گی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۸ جنوری ۲۰۱۶ء

Pages