مقالات و مضامین

نسل انسانی کو درپیش اجتماعی مسائل ۔ خوش آمدید جناب بل کلنٹن!

ریاستہائے متحدہ امریکہ کے صدر جناب بل کلنٹن کے جنوبی ایشیا کے دورے کا آغاز ہو چکا ہے اور وہ اس دورے کے اختتام پر چند گھنٹوں کے لیے پاکستان بھی تشریف لانے والے ہیں۔ ان کے اس مختصر دورۂ پاکستان اور پاکستانی لیڈروں کے ساتھ گفت و شنید میں ان کے ایجنڈے اور ترجیحات کے حوالے سے قومی پریس میں مثبت اور منفی پہلوؤں پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور دورۂ کے بعد بھی بہت کچھ لکھا جائے گا۔ لیکن اس ساری بحث سے قطع نظر ایک محترم مہمان کے طور پر جنوبی ایشیا اور پاکستان میں تشریف آوری پر ہم جناب بل کلنٹن کو خوش آمدید کہتے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۴ مارچ ۲۰۰۰ء

دینی مدارس اور نظامِ تعلیم کا اجتماعی دھارا

چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف نے اپنے حالیہ غیر ملکی دورہ کے دوران قاہرہ میں پاکستانیوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے دینی مدارس کے بارے میں بھی کچھ باتیں کی ہیں اور فرمایا ہے کہ ان کی حکومت دینی مدارس کے نظام میں اصلاح کا ارادہ رکھتی ہے اور ان کا پروگرام ہے کہ دینی مدارس کو ملک کے اجتماعی نظام تعلیم کے دھارے میں لایا جائے۔ دینی مدارس اور انہیں اجتماعی نظام تعلیم کے دھارے میں لانے کی خواہش کا ایک عرصہ سے قومی حلقوں میں اظہار کیا جا رہا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۰ اپریل ۲۰۰۰ء

کعبۃ اللہ یا وائٹ ہاؤس؟ جنرل پرویز مشرف کا امتحان

سپریم کورٹ آف پاکستان کے بارہ جج صاحبان نے متفقہ طور پر جنرل پرویز مشرف کے بارہ اکتوبر کے اقدام کو نظریۂ ضرورت کے تحت جائز قرار دے دیا ہے اور انہیں تین سال تک عام انتخابات کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے آئین میں ترمیم کا اختیار بھی سونپ دیا ہے۔ جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کو بھی سپریم کورٹ نے اسی نوعیت کا اختیار دیا تھا مگر اس میں تین سال کے عرصہ کی قید نہیں تھی۔ چنانچہ جنرل مرحوم نے اسی اختیار کو استعمال کرتے ہوئے مختلف اقدامات کے ذریعے گیارہ سال تک اقتدار کو اپنے پاس رکھا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۹ مئی ۲۰۰۰ء

جہادی تربیتی مراکز اور تحریک جعفریہ پاکستان

افغانستان میں جہادی تربیت کے عسکری کیمپوں کے بارے میں ایک کالم میں ہم نے گزارش کی تھی کہ ان کی بندش کا مطالبہ درست نہیں ہے کیونکہ کشمیر، فلسطین، بوسنیا، کوسوو، چیچنیا، مورو، اراکان اور دیگر علاقوں میں مسلمان مجاہدین آزادی اور اپنے اسلامی تشخص کے تحفظ کے لیے جو جنگ لڑ رہے ہیں اس جنگ کا تربیتی سرچشمہ یہی کیمپ ہیں اور ان کیمپوں کے بند ہونے کا براہ راست نقصان ان جہادی تحریکات کو ہوگا اس لیے امریکہ ان کیمپوں کی بندش کا مطالبہ کر رہا ہے لہٰذا ان کیمپوں کی بندش کا مطلب دنیا بھر کی جہادی تحریکات کو ایک بہت بڑے سہارے سے محروم کر دینا ہوگا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵ مارچ ۲۰۰۰ء

جہادی تحریکات کے نوجوانوں سے چند گزارشات

برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش کی تحریک آزادی میں حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ ایک بلند مرتبہ راہنما اور مفکر کے طور پر پہچانے جاتے ہیں، انہوں نے آزادیٔ ہند کی خاطر زندگی کا ایک بڑا حصہ جلاوطنی میں گزارا اور تحریکِ آزادی کو عالمی سطح پر متعارف کرانے کے لیے سرگرم کردار ادا کیا۔ ان کے رفقاء میں ایک نام مولانا منصور انصاریؓ کا بھی آتا ہے جو ان کے انتہائی قریبی ساتھی تھے اور جب ایک مرحلہ میں برلن میں پروفیسر برکت اللہ بھوپالیؒ کی سربراہی میں ’’آزاد ہند گورنمنٹ‘‘ کے نام سے جلاوطن حکومت کی بنیاد رکھی گئی اور مولانا عبید اللہ سندھیؒ کو اس کا وزیرخارجہ مقرر کیا گیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۹ و ۲۰ جون ۲۰۰۰ء

خلیفہ کے لیے قریشی ہونے کی شرط

راقم الحروف نے ایک کالم میں برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش میں گزشتہ عیسوی صدی کی تیسری دہائی میں ترکی کی خلافت عثمانیہ کی حمایت میں چلنے والی تحریکِ خلافت کے بارے میں یہ ذکر کیا تھا کہ مولانا احمد رضا خان بریلویؒ نے اس تحریک کی مخالفت کی تھی اور ترکوں کے خلاف فتویٰ پر دستخط کیے تھے۔ اس پر مری کے محمد مسکین عباسی صاحب نے ایک مراسلہ میں سوال کیا ہے کہ میرے پاس اس کا حوالہ کیا ہے؟ کیونکہ ان کے خیال میں مولانا احمد رضا خانؒ ترکوں کی خلافت کے حامی تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۶ اپریل ۲۰۰۰ء

حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کا تین نکاتی احتسابی فارمولا

چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف نے ایک بار پھر واضح الفاظ میں اعلان کیا ہے کہ وہ لوٹی ہوئی قومی دولت کی ایک ایک پائی واپس لیں گے اور احتساب مکمل ہونے تک اقتدار سیاست دانوں کے سپرد نہیں کریں گے۔ ان کے اس اعلان پر ملک بھر میں اطمینان کا اظہار کیا گیا ہے اور عام شہری مسلسل دعاگو ہیں کہ اللہ رب العزت جنرل صاحب کو اپنے اس اعلان پر مکمل عملدرآمد کی توفیق سے نوازیں، آمین۔ ہم اس موقع پر جنرل پرویز مشرف صاحب اور ان کے رفقاء کو اسلامی تاریخ کے ایک اہم واقعہ کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

نومبر ۱۹۹۹ء

تعلیمی نصاب میں تبدیلی اور آغا خان فاؤنڈیشن

ملک کے سرکاری نصابِ تعلیم کے حوالے سے مبینہ تبدیلیوں پر بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری ہے اور آغا خان فاؤنڈیشن کا حوالہ اس میں بار بار سامنے آرہا ہے۔ بہت سے دوست سوال کر رہے ہیں کہ ملک کے ریاستی نصاب تعلیم کے ساتھ آغا خان فاؤنڈیشن کا کیا تعلق ہے اور ملک کے بہت سے تعلیمی حلقوں کو آغا خان فاؤنڈیشن سے کیا شکایت ہے کہ وہ اس سلسلہ میں اس قدر تشویش و اضطراب کا اظہار کر رہے ہیں؟ اس لیے ضروری محسوس ہوتا ہے کہ اس حوالہ سے کچھ گزارشات قارئین کی خدمت میں پیش کر دی جائیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۹ اپریل ۲۰۰۴ء

نصاب میں تبدیلی پر اضطراب اور اسماعیلی فرقہ کا تعارف

سکولوں اور کالجوں کے نصابِ تعلیم کے بارے میں متضاد خبریں سامنے آرہی ہیں۔ حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ نصاب میں کوئی جوہری تبدیلی نہیں کی جا رہی، وفاقی وزراء نصاب تعلیم سے اسلامی مواد کو خارج نہ کرنے کی یقین دہانیاں کرا رہے ہیں اور اب وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے بھی کہا ہے کہ ہمارا نصاب تعلیم اسلامی ہے اور اس میں اس حوالے سے کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ لیکن دوسری جانب ملک کے تعلیمی حلقے مسلسل حالتِ اضطراب میں ہیں، اساتذہ اور طلبہ کے مختلف فورموں کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ نصاب میں تبدیلیاں کر دی گئی ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۱ اپریل ۲۰۰۴ء

شدت پسندی ۔ شاہ فہد اور مہاتیر محمد کا اختلافِ نظر

دہشت گردی کے حوالے سے دنیا بھر میں بحث جاری ہے اور اس کی کوئی تعریف متعین کیے بغیر عالمی اتحاد کے نام پر طاقتور قومیں ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد سے اس کے خلاف لٹھ لیے پھر رہی ہیں۔ ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور پینٹاگون کے سانحات کے بعد جب امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے عالمی اتحاد بنانے کا اعلان کیا اور افغانستان کو خوفناک بمباری کا نشانہ بنایا تو یہ سوال اسی وقت اٹھ کھڑا ہوا تھا کہ دہشت گردی کہتے کس کو ہیں اور اس کی تعریف کیا ہے؟ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۴ اگست ۲۰۰۳ء

آغا خان تعلیمی بورڈ اور حکومتی وضاحتیں

آغا خان تعلیمی بورڈ کے بارے میں حکومتی وضاحتوں کا سلسلہ جاری ہے لیکن ان وضاحتوں سے مسئلہ صاف ہونے کی بجائے مزید الجھتا جا رہا ہے ۔کچھ عرصہ قبل حکومت نے آغا خان یونیورسٹی کے بورڈ کو ایک پرائیویٹ تعلیمی بورڈ کے طور پر منظور کیا اور یہ خبریں منظر عام پر آنے لگیں کہ ملک کے تمام تعلیمی بورڈز کو آغا خان بورڈ کے ساتھ ملحق کرنے کی اسکیم زیرغور ہے۔ اور ایک مرحلہ پر یہ خبر بھی اخبارات کی زینت بنی کہ اسلام آباد کے وفاقی ثانوی تعلیمی بورڈ کو آغا خان بورڈ کے ساتھ منسلک کرنے کے سوال پر وفاقی بورڈ کے ارکان میں اختلاف رائے پیدا ہوگیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جنوری ۲۰۰۵ء

ابوبکرؓ اسلامک سنٹر ساؤتھال لندن کے قیام کی منظوری

ساؤتھال لندن کے مسلمان دس سال کی طویل اور صبر آزما جدوجہد کے بعد بالآخر ابوبکرؓ مسجد کے قیام کی باقاعدہ اجازت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور ایلنگ کونسل کی ویسٹ پلاننگ کمیٹی نے گزشتہ روز ابوبکرؓ مسجد کی انتظامیہ کی طرف سے دی گئی ’’اسلامک ایجوکیشنل اینڈ ریکریشنل انسٹیٹیوٹ‘‘ کی پلاننگ پرمیشن کی درخواست کی منظوری دے دی ہے۔ اس مرحلہ پر کمیٹی کے ہندو اور سکھ ارکان نے بھی مسلمانوں کا بھرپور ساتھ دیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۶ جون ۱۹۹۹ء

حسن محمود عودہ سے ایک ملاقات

گزشتہ روز برطانیہ کے شہر سلاؤ میں مولانا منظور احمد چنیوٹی کے ہمراہ فلسطینی دانشور الاستاذ حسن محمود عودہ سے ملاقات کی اور مختلف مسائل پر ان سے گفتگو ہوئی۔ حسن عودہ کا تعلق اس فلسطینی خاندان سے ہے جس نے پون صدی قبل قادیانیت قبول کی تھی اور عرب ممالک میں قادیانیت کے فروغ میں اس خاندان نے مسلسل کردار ادا کیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۶ اگست ۱۹۹۹ء

رمضان اور اجتہاد

رمضان المبارک ایک بار پھر ہماری زندگی میں آیا ہے اور خاموشی کے ساتھ گزرتا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے قرآن کریم کا مہینہ فرمایا ہے کہ اس میں لوح محفوظ سے قرآن کریم اتارا گیا اور جس رات یہ لوح محفوظ سے منتقل ہوا اس رات کو اللہ تعالیٰ نے ’’شبِ قدر‘‘ قرار دے کر ایک ہزار مہینوں پر بھاری کر دیا۔ قرآن کریم نے اس ماہ میں مسلمانوں پر روزوں کا حکم صادر فرمایا اور کہا کہ روزے رکھنے سے تقوٰی پیدا ہوتا ہے اور روزہ رکھنے والوں میں پرہیزگاری کا ذوق بیدار ہوتا ہے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے صبر و ضبط کا مہینہ قرار دیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۵ نومبر ۲۰۰۳ء

جہادی تربیتی کیمپ ۔ وزیر داخلہ کے نام کھلا خط

بعد از سلام مسنون! گزارش ہے کہ گزشتہ روز ایک قومی اخبار نے آنجناب کے حوالہ سے خبر شائع کی ہے کہ ’’امریکہ کی طرف سے پاکستان سے دہشت گردی کی روک تھام کے لیے اقدامات کرنے کے مطالبہ پر لندن میں اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے وزیرداخلہ نے صحافیوں کو بتایا کہ انہوں نے طالبان کی حکومت پر واضح کر دیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر موجود تمام تربیتی کیمپ بند کر دے جہاں پر پاکستان کے مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ مسلح تربیت حاصل کرتے ہیں‘‘ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۸ اپریل ۲۰۰۰ء

مدارس آرڈیننس نافذ کرنے کا نیا سرکاری پروگرام

دینی مدارس کے بارے میں صدر پرویز مشرف اور وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کے اعلانات کے باوجود تذبذب اور گومگو کی فضا ابھی تک ختم نہیں ہوئی اور مختلف حوالوں سے یہ خبریں سامنے آرہی ہیں کہ حکومت ریگولیشن اور رجسٹریشن کے نام پر اس آرڈیننس کو ایک بار پھر جھاڑ پھونک کر نفاذ کے مرحلہ تک لانے کی تیاریاں کر رہی ہے جسے دینی مدارس کے تمام وفاقوں نے متفقہ طور پر مسترد کر دیا تھا۔ باخبر ذرائع کے مطابق صوبہ سرحد کی حکومت نے پچھلے دنوں وفاقی حکومت سے استفسار کیا کہ جو مدارس رجسٹرڈ نہیں ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۱ دسمبر ۲۰۰۳ء

سنی شیعہ کشیدگی ۔ ظفر حسین نقوی صاحب کے خیالات

جناب ظفر حسین نقوی نے عنوان بالا پر میری گزارشات کے حوالہ سے ایک بار پھر قلم اٹھایا ہے اور میری درخواست کے برعکس پھر انہی مسائل کو زیربحث لانے کی کوشش کی ہے جن سے میں صرف اس لیے بچنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ ان مسائل پر ازسرنو بحث و مباحثہ کا دروازہ کھلنے سے کشیدگی بڑھے گی اور اس کا نقصان ہوگا۔ قارئین گواہ ہیں کہ میں نے اہل سنت اور اہل تشیع کے درمیان مذہبی اختلافات اور پاکستان میں سنی شیعہ کشیدگی کا باعث بننے والے عوامل کو الگ الگ موضوعات قرار دیتے ہوئے ابتدا میں گزارش کی تھی کہ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۶ مئی ۱۹۹۹ء

پاکستان، افغانستان اور ایران کی کنفیڈریشن کی تجویز

جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال نے گزشتہ روز لاہور میں منعقدہ ایک تقریب میں اپنے دورۂ افغانستان کے تاثرات بیان کرتے ہوئے تجویز پیش کی ہے کہ پاکستان، افغانستان اور ایران پر مشتمل کنفیڈریشن قائم کی جائے اور تینوں ملک اپنے وسائل یکجا کر کے عالم اسلام کے وسیع تر اتحاد کی طرف پیش رفت کا آغاز کریں۔ ڈاکٹر صاحب موصوف نے طالبان کی اسلامی حکومت کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان نے افغانستان میں مثالی امن قائم کیا ہے اور وہ انتہائی مشکلات اور تکالیف کے باوجود پاکستان کی جنگ لڑ رہے ہیں جس کا ہمیں احساس تک نہیں ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۸ اپریل ۲۰۰۰ء

حضرت شیخ الہند اور نظریہ عدمِ تشدد

مولانا فضل الرحمان پشاور میں بھرپور ’’اسلام زندہ باد کانفرنس‘‘ کے انعقاد کے بعد اب ۳۱ مارچ کو کنونشن سنٹر اسلام آباد میں شیخ الہند سیمینار کے عنوان سے مورچہ زن ہو رہے ہیں جبکہ مولانا سمیع الحق ’’دفاع پاکستان کونسل‘‘ کے محاذ کو مسلسل گرم رکھے ہوئے ہیں اور گزشتہ روز پارلیمنٹ کے سامنے دفاع پاکستان کونسل نے نیٹو سپلائی کی ممکنہ بحالی کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کر کے ارکان پارلیمنٹ کو عوامی جذبات سے آگاہ کرنے کا اہتمام کیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۱ مارچ ۲۰۱۲ء

تحریک ریشمی رومال اور انگریز گورنر پنجاب کی یادداشتیں

سرمائیکل اوڈوائر کی یادداشتوں پر مشتمل خودنوشت کا اردو ترجمہ ’’غیر منقسم برصغیر میری نظر میں‘‘ آج کل میرے مطالعہ میں ہے جو شفیق الرحمان میاں نے کیا ہے اور شبیر میواتی صاحب کے ذریعے مجھے میسر آیا ہے۔ سرمائیکل فرانسس اوڈوائر ۱۹۱۲ء سے ۱۹۱۹ء تک برطانوی حکومت کی طرف سے پنجاب کے گورنر رہے جبکہ انہوں نے برطانوی سول سروس کے تحت ۱۸۸۵ء سے ۱۹۲۰ء تک آئی سی افسر کے طور پر مختلف علاقوں میں خدمات سرانجام دیں۔ ان کی گورنری کا دور اس لحاظ سے بہت زیادہ اہم ہے کہ امرتسر کے جلیانوالہ باغ کا سانحہ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳ مئی ۲۰۱۲ء

تحریک ریشمی رومال میں گوجرانوالہ کا حصہ

کچھ عرصہ قبل لاہور میں شیخ الہند اکادمی کے نام سے ایک علمی و فکری فورم قائم ہوا تھا جس کا مقصد تحریک آزادیٔ ہند کے عظیم راہنما شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کی خدمات، تعلیمات اور جدوجہد سے نئی نسل کو متعارف کروانا اور دور حاضر کے ملی و قومی مسائل میں شیخ الہندؒ کے افکار و تعلیمات سے راہنمائی کے پہلوؤں کو اجاگر کرنا ہے۔ راقم الحروف بھی اس فورم کی مجلس مشاورت میں شامل ہے۔ شیخ الہند اکادمی نے ۱۴۳۳ھ کے سال کو حضرت شیخ الہندؒ کے سال کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا ہے اور طے کیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۸ دسمبر ۲۰۱۱ء

الگ بلاک بنانے کی ضرورت

ماضی میں پاکستان، ایران اور ترکی پر مشتمل ’’آر سی ڈی‘‘ کا قیام اسی جذبہ کے ساتھ عمل میں آیا تھا اور اسلامی سربراہ کانفرنس بھی اسی عزم کے ساتھ وجود میں آئی تھی لیکن اس سلسلہ میں سب سے بڑی رکاوٹ جس کی وجہ سے آر سی ڈی اپنا مقصد حاصل نہیں کر سکی اور اسلامی سربراہ کانفرنس بھی ایک نمائشی ادارے سے زیادہ کوئی مقام حاصل نہیں کر پائی وہ یہ ہے کہ اس وقت مسلم ممالک میں جو لوگ حکمران ہیں ان کی اکثریت آزادانہ ذہن نہیں رکھتی اور مغرب کے قائم کردہ یک طرفہ بین الاقوامی نظام کے جال اور طلسم سے گلوخلاصی کی ضرورت محسوس نہیں کر رہی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳ فروری ۲۰۰۷ء

پاکستان کا مروجہ عدالتی نظام

لاہور ہائیکورٹ کے محترم جج جسٹس خلیل الرحمان رمدے نے روزنامہ جنگ لندن ۱۴ جون ۱۹۹۹ء کی رپورٹ کے مطابق وکلاء کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارا عدالتی نظام مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے اور اگر اس نظام کے ساتھ جج صاحبان اور وکلاء کی روزی وابستہ نہ ہوتی تو یہ کبھی کا ختم ہو چکا ہوتا۔ جسٹس موصوف کا کہنا ہے کہ اس نظام سے عام آدمی کو ریلیف اور انصاف نہیں ملتا اور لوگوں کا اس سسٹم پر سے اعتماد اٹھ گیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۶ جولائی ۱۹۹۹ء

ایک کہانی اور سہی!

گورنر سرحد نے گزشتہ ہفتہ مالاکنڈ ڈویژن اور ضلع کوہستان میں ’’شرعی نظامِ عدل آرڈیننس ۱۹۹۹ء‘‘ کے نفاذ کا اعلان کیا ہے اور مختلف اخبارات میں اس سلسلہ میں شائع ہونے والی تفصیلات کے مطابق اس آرڈیننس کی رو سے ضلع سوات، ضلع دیر، ضلع چترال، ضلع کوہستان اور مالاکنڈ کے وفاق کے زیر اہتمام علاقے پر مشتمل خطے میں عدالتوں کو پابند کر دیا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے مقدمات کے فیصلے شریعت اسلامیہ کے مطابق کریں گے جبکہ غیر مسلموں کے خاندانی مقدمات کے فیصلے ان کے مذہبی احکام کے مطابق ہوں گے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۷ جنوری ۱۹۹۹ء

حضرت عیسٰیؑ کی تصلیب اور موجودہ مسیحی مذہبی قیادت کا مخمصہ

اسرائیل کی حمایت میں اس وقت یہودی اور مسیحی امتوں میں اتحاد ہے اور اسرائیلی ریاست کو تحفظ فراہم کرنے میں مغرب کی مسیحی حکومتیں یہودیوں سے بھی دو ہاتھ آگے دکھائی دے رہی ہیں۔ حالانکہ گزشتہ دو ہزار برس میں یہودیوں اور مسیحیوں کے مابین کھلی عداوت رہی ہے اور مسیحی حکومتوں کے ہاتھوں یہودیوں کا مسلسل قتل عام ہوتا رہا ہے۔ یہودیوں کے نزدیک حضرت عیسٰی علیہ السلام نہ صرف یہ کہ نبی نہیں ہیں بلکہ بغیر باپ کے جنم لینے کی وجہ سے حضرت عیسیٰ اور ان کی والدہ حضرت مریم علیہما السلام دونوں نعوذ باللہ شرمناک الزام کا ہدف چلے آرہے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۱ جون ۲۰۰۴ء

گلگت بلتستان کا مسئلہ ۔ صدرِ پاکستان کے نام ایک عریضہ

بگرامی خدمت جناب سردار فاروق احمد لغاری صاحب، صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، مزاج گرامی؟ گزارش ہے کہ کچھ دنوں سے قومی اخبارات میں وفاقی کابینہ کا ایک فیصلہ زیر بحث ہے جس کے تحت مبینہ طور پر گلگت اور اس سے ملحقہ شمالی علاقہ جات کو مستقل صوبہ کی حیثیت دی جا رہی ہے۔ اس سلسلہ میں چند حقائق کی طرف آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ شمالی علاقہ جات بین الاقوامی دستاویزات کی رو سے کشمیر کا حصہ ہیں اور اس نقشہ میں شامل ہیں جو پاکستان اور بھارت کے درمیان ۱۹۴۷ء سے متنازعہ چلا آرہا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جون ۱۹۹۴ء

ڈاکٹر حمید اللہؒ کی یاد میں ایک نشست

ڈاکٹر محمد حمید اللہؒ کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے مقررین نے بتایا کہ عالم اسلام کی اس عظیم شخصیت نے یورپ کے دل پیرس میں بیٹھ کر نصف صدی تک اسلام کی جو خدمت کی وہ دعوت اسلامی کی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ انہوں نے فرانسیسی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ کرنے کے علاوہ فرانسیسی میں اسلامی تعلیمات پر بیش بہا لٹریچر شائع کیا اور ان کے ہاتھ پر ہزاروں افراد نے اسلام قبول کیا۔ وہ آج کے دور میں ایک قابل تقلید نمونہ تھے جس کی ایک مثال یہ ہے کہ انہیں دنیا کے جس حصے سے بھی کوئی شخص خط لکھتا تھا وہ اس کا جواب ضرور دیتے تھے ۔ ۔ مکمل تحریر

۸ ستمبر ۲۰۰۳ء

ملک میں اسلحہ کلچر ۔ وفاقی وزیرداخلہ سے دو اہم گزارشات

امن و امان کے حوالہ سے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کے بعد وفاقی وزیرداخلہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) معین الدین حیدر نے اخباری نمائندوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں اسلحہ کلچر کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں، اور اس سلسلہ میں اسلحہ کی نمائش پر پابندی اور فائرنگ کی قانونی ممانعت کے علاوہ ان دینی طلبہ کی حوصلہ شکنی بھی پروگرام میں شامل ہے جو افغانستان جا کر اسلحہ کی ٹریننگ حاصل کرتے ہیں۔ وزیرداخلہ نے پریس بریفنگ میں کہا کہ اس حوالہ سے افغانستان کی حکومت سے بھی کہا گیا ہے کہ وہ اسلحہ چلانے کی تربیت دینے والے مراکز بند کر دے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۸ فروری ۲۰۰۰ء

پاکستان اور لاؤس میں بھکاریوں کا فرق

وزیراعظم میر ظفر اللہ خان جمالی ان دنوں لاؤس کے دورے پر ہیں، لاہور کے ایک قومی اخبار کی مختصر خبر کے مطابق انہوں نے لاؤس کے دارالحکومت میں ایک اخبار نویس سے گفتگو کرتے ہوئے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا ہے کہ لاؤس انہیں کوئی بھکاری نظر نہیں آیا، اس کے ساتھ ہی انہوں نے کہا ہے کہ پاکستان میں بھکاری بنتے نہیں بلکہ بنائے جاتے ہیں۔ بظاہر یہ ایک مختصر سا تاثر یا تبصرہ ہے جو جمالی صاحب نے بھکاریوں کے حوالہ سے پاکستان اور لاؤس کی صورتحال میں نظر آنے والے فرق پر کیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۵ اپریل ۲۰۰۴ء

’’نئی امریکی بائبل‘‘ اور مسیحی عقائد

گوجرانوالہ سے شائع ہونے والے مسیحی جریدہ ماہنامہ کلام حق کو چرچ آف پاکستان اور پریسٹیرین چرچ آف پاکستان سے شکایت ہے کہ انہوں نے بائبل کا جو انگریزی متن شائع کیا ہے اس میں بہت سی آیات حذف کر دی گئی ہیں۔ یہ شکایت ماہنامہ کلام حق نے فروری ۲۰۰۴ء کے شمارے میں کی ہے اور بتایا ہے کہ چرچ آف پاکستان کی انگریزی بائبل میں چالیس کے لگ بھگ آیات میں ردوبدل کیا گیا ہے، ان میں بعض آیات بالکل حذف کر دی گئی ہیں اور بعض آیات کے اہم جملے نکال دیے گئے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۶ مارچ ۲۰۰۴ء

دینی مدارس کے جداگانہ نظام و نصاب کا مقصد

رجب المرجب کے آغاز کے ساتھ ہی ملک بھر میں دینی مدارس کی تقریبات کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے اور ختم بخاری شریف، تقسیم اسناد، دستار بندی اور سالانہ اجتماعات کے عنوان سے یہ تقریبات شعبان المعظم کے اختتام تک جاری رہیں گی جن میں مختلف دینی و تعلیمی موضوعات پر گفتگو کے علاوہ مدارس کے منتظمین اپنی کارکردگی کی سالانہ رپورٹیں پیش کریں گے اور آئندہ عزائم کا تذکرہ کریں گے۔ میں اسی حوالہ سے دو روز سے حیدر آباد سندھ میں ہوں اور نصف درجن سے زائد دینی مدارس کی تقریبات میں شرکت کر چکا ہوں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۴ ستمبر ۲۰۰۳ء

علماء دیوبند کے تاریخی کردار پر ایک نظر

آج آزاد کشمیر کے تاریخی شہر باغ میں آل جموں و کشمیر جمعیۃ علمائے اسلام کے زیر اہتمام دو روزہ ’’خدمات علماء دیوبند کانفرنس‘‘ کا آغاز ہو رہا ہے۔ یہ کانفرنس اکابر علماء دیوبند کی ملی و دینی خدمات پر انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے منعقد کی جا رہی ہے اور اس کا ایک بڑا مقصد اپنے بزرگوں کی خدمات اور کارناموں کا تذکرہ کر کے ان سے راہنمائی حاصل کرنے کے علاوہ نئی نسل کا ذہنی و فکری رشتہ ان بزرگوں کے ساتھ قائم رکھنا اور آج کے لوگوں کو یہ بتانا ہے کہ آج اگر جنوبی ایشیا میں اسلام کا نام زندہ ہے، دینی تعلیم و ثقافت کی اقدار و روایات کا تسلسل قائم ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

یکم مئی ۲۰۰۴ء

الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے قیام کا پس منظر

ایک عرصہ سے خواہش تھی کہ کوئی ایسا ادارہ ہو جو درس نظامی کے فضلاء کے لیے فکری و ذہنی تربیت گاہ کے ساتھ ساتھ مطالعہ و تحقیق اور تحریر و تقریر کا تربیتی مرکز بنے۔ دینی مدارس کا موجودہ نظام جس بین الاقوامی دباؤ اور اس کے نتیجے میں ریاستی اداروں کی مداخلت کے خطرہ سے دوچار ہے اس کے پیش نظر دینی مدارس کے منتظمین کے ذہنی تحفظات کی وجہ سمجھ میں آتی ہے، اس لیے ان کے داخلی نظام میں کسی بڑی تبدیلی کی سردست کوئی توقع ہے اور نہ ہی میں خود موجودہ فضا میں اس کے حق میں ہوں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۸ دسمبر ۱۹۹۹ء

پاکستان شریعت کونسل کے قیام کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نوآبادیاتی نظام کے خاتمہ، اسلامی نظام کے نفاذ، قومی خودمختاری کے تحفظ اور مغرب کی نظریاتی و ثقافتی یلغار کے مقابلہ کے لیے رائے عامہ کو بیدار و منظم کرنے کی غرض سے ’’پاکستان شریعت کونسل‘‘ کے قیام کا اعلان سامنے آیا تو مختلف حلقوں کی طرف سے اس سوال کا اٹھایا جانا ایک فطری امر تھا کہ آخر ان مقاصد کے لیے ایک نئی جماعت کے قیام کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی؟ بعض دوستوں کا خیال ہے کہ پہلے سے موجود بیسیوں جماعتوں میں ایک نئی جماعت کا اضافہ کوئی ضروری امر نہیں تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اکتوبر ۱۹۹۶ء

خدماتِ علماء دیوبند کانفرنس: قائدین اور شرکاء سے چند گزارشات

گزشتہ کم و بیش ڈیڑھ سو برس کے دوران اس خطۂ زمین میں اسلامی تعلیم و ثقافت کو زندہ رکھنے اور عام مسلمانوں کا دین کے ساتھ تعلق قائم رکھنے کے لیے علمائے دیوبند نے جو کردار ادا کیا ہے اس کا مختصر اور سرسری تذکرہ ہم گزشتہ کالم میں کر چکے ہیں۔ اور آج اس حوالہ سے کچھ گزارشات پیش کرنا چاہتے ہیں کہ مستقبل کے امکانات و خدشات اور ضرورتوں کا دائرہ کیا ہے اور علمائے دیوبند کے ماضی کے کردار کو سامنے رکھتے ہوئے اس قافلۂ حق و صداقت پر اس حوالہ سے کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲ مئی ۲۰۰۴ء

طالبان، امریکہ اور اقوام متحدہ

امریکی صدر بل کلنٹن نے اعلان کیا ہے کہ وہ دہشت گردوں کی سرپرستی کرنے پر طالبان کو سزا دینا چاہتے ہیں، انہوں نے کہا کہ افغانستان پر عائد کی جانے والی پابندیوں کا مقصد طالبان تحریک کو عالمی برادری سے دہشت گردی سمیت اہم معاملات پر عدم تعاون کی راہ اپنانے کی سزا دینا ہے۔ اس سے قبل اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان جنرل اسمبلی میں سالانہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ افغانستان دنیا بھر کے مذہبی دہشت گردوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

دسمبر ۱۹۹۹ء

فہم قرآن کریم کی اہمیت اور اس کے تقاضے

قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور ہمارے لیے ہے۔ جب یہ بات بطور عقیدہ ہمارے ذہن میں آجاتی ہے تو اس کا لازمی تقاضا یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنے لیے اللہ تعالیٰ کے اس پیغام کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ کسی بھی پیغام کا پہلا حق یہی ہوتا ہے کہ اسے پڑھا جائے، سمجھا جائے اور پیغام بھیجنے والے کے مقصد سے آگاہی حاصل کی جائے۔ پیغام کسی دوست کا ہو، دفتری خط ہو، عدالتی سمن ہو، کاروباری لیٹر ہو حتیٰ کہ کسی دشمن کا پیغام بھی ہو تو منطقی طور پر اسے وصول کرنے والے کی پہلی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وہ اسے پڑھے اور سمجھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵ جون ۲۰۰۴ء

اسلام دشمنی ۔ یہود و نصارٰی میں قدرِ مشترک

امریکی سینٹ نے ملائیشیا کے لیے بارہ لاکھ ڈالر کی فوجی امداد کو مبینہ مذہبی آزادی کے ساتھ مشروط کر دیا ہے اور یہودیوں پر ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد کی تنقید کو ہدف اعتراض بناتے ہوئے امریکی قیادت نے کہا ہے کہ فوجی امداد کے حصول کے لیے مہاتیر محمد کو اس تنقید پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ دوسری طرف ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلامی سربراہ کانفرنس میں انہوں نے اپنے خطاب کے دوران یہودیوں کے بارے میں جو یہ بات کہی تھی کہ دنیا پر دراصل چند مٹھی بھر یہودی حکومت کر رہے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲ نومبر ۲۰۰۳ء

دینی جماعتوں کے راہنماؤں کے نام ایک اہم خط

محترمی و مکرمی! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مزاج گرامی؟ گزارش ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں قرآن و سنت کی دستوری بالادستی کی جدوجہد، قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے کر اسلام کے نام پر سرگرمیوں سے روکنے، توہین رسالتؐ پر موت کی سزا اور دیگر نافذ شدہ بعض اسلامی قوانین کے حوالہ سے اس وقت عالمی سطح پر جو کشمکش جاری ہے اس کے بارے میں دو اہم خبریں پیش خدمت ہیں جو تازہ ترین صورتحال کی عکاسی کرتی ہیں۔ آنجناب سے گزارش ہے کہ اس سلسلہ میں رائے عامہ کی راہنمائی فرمائیں اور اسلامی قوانین کے تحفظ کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۶ جون ۱۹۹۹ء

دنیا میں معاشی توازن قائم کرنے کا اصل راستہ

اس حوالے سے غربت، ناداری اور بھوک کے عالمی تناظر میں اصولی طور پر اس بات کا جائزہ لینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس غربت و ناداری اور بھوک وافلاس کے اسباب کیا ہیں اور ان اسباب کو دور کرنے کے لیے عالمی سطح پر آج کے دور میں کیا کیا جا سکتا ہے؟ اس کے بارے میں ایک نقطہ نظر یہ ہے اور آج کی بین الاقوامی قوتوں اور اداروں کی پالیسیوں کی بنیاد اسی نقطہ نظر پر ہے کہ آبادی بے تحاشا بڑھ رہی ہے اور دنیا کے موجود اور میسروسائل آبادی میں اس تیز رفتار اضافے کا ساتھ نہیں دے رہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

نومبر ۲۰۰۱ء

ملٹی نیشنل کمپنیاں اور پاکستان کی خودمختاری

ہرصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش میں برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے تجارت اور محصولات کے نظام میں شرکت کے ذریعہ کنٹرول حاصل کیا تھا اور فلسطین میں یہودیوں نے زمینوں کی وسیع پیمانے پر خریداری کے ذریعے سے قبضے کی راہ ہموار کی تھی۔ اس پس منظر میں یوں محسوس ہو رہا ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں ایک طرف پاکستان کی صنعت و تجارت پر کنٹرول حاصل کر کے قومی معیشت کو بین القوامیت کے جال میں مکمل طور پر جکڑنے کی تگ ودو میں مصروف ہیں اور دوسی طرف ’’کارپوریٹ ایگریکلچرل فارمنگ‘‘ کے نام پر ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

ستمبر ۲۰۰۱ء

دینی مدارس کا نصاب تعلیم

دینی مدارس میں مروج نصاب تعلیم کو درس نظامی کا نصاب کہا جاتا ہے جو ملا نظام الدین سہالویؒ سے منسوب ہے۔ ملا نظام الدین سہالویؒ المتوفی (۱۱۶۱ھ)حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے معاصرین میں تھے۔ ان کا قدیمی تعلق ہرات (افغانستان) کے معروف بزرگ حضرت شیخ عبد اللہ انصاریؒ سے تھا۔ اس خاندان کے شیخ نظام الدینؒ نامی بزرگ نے یوپی کے قصبہ سہالی میں کسی دور میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا تھا اور پھر ان کے خاندان میں یہ سلسلہ نسل درنسل چلتا رہا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اپریل ۲۰۰۱ء

امریکہ کا خدا بیزار سسٹم

روزنامہ جنگ لاہور ۲۶ فروری ۲۰۰۱ء کی ایک خبر کے مطابق امریکی ریاست ورجینیا میں سینٹ کے ریاستی ارکان نے ایک یادگاری سکہ پر ’’ہم خدا پر بھروسہ کرتے ہیں‘‘ کے الفاظ کندہ کرنے کی تجویز مسترد کر دی ہے۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ ریاست میں امریکہ کے قدیم باشندوں ’’ریڈ انڈین‘‘ کے اعزاز اور توقیر کے لیے ایک سلور ڈالر جاری کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں جس پر جنگلی بھینس کی تصویر کے ساتھ In God We Trust (ہم خدا پر بھروسہ کرتے ہیں) کے الفاظ کندہ کرنے کی تجویز دی گئی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

مارچ ۲۰۰۱ء

حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ پر ایک نظر

حکومت نے آخر کار "حمود الرحمان کمیشن" کی رپورٹ کا ایک اہم حصہ عوام کی معلومات کے لیے کیبنٹ ڈویژن کی لائبریری میں رکھ دیا ہے اور اس کے اقتباسات قومی اخبارات میں شائع ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ ۱۹۷۱ء میں ملک سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بنگلہ دیش کے قیام کے بعد مغربی پاکستان کے باقی ماندہ حصے میں قائم ہونے والی بھٹو حکومت نے عوامی مطالبہ پر اس وقت کے سپریم کورٹ آف پاکستان کے سربراہ جسٹس حمود الرحمان مرحوم کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطحی عدالتی کمیشن قائم کیا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جنوری ۲۰۰۱ء

اسلامی ممالک کا اتحاد، داعش اور ہم

گزشتہ دنوں سعودی عرب کی قیادت میں 34 مسلمان ملکوں کا عسکری اتحاد قائم کرنے کا اعلان ہوا ہے جن میں پاکستان کا نام بھی شامل ہے جبکہ عراق، ایران اور شام اس کا حصہ نہیں ہیں، سعودی عرب کا دارالحکومت ریاض اس فوجی اتحاد کا ہیڈ کوارٹر ہوگا اور ا س کا مقصد دہشت گردی کے خلاف جنگ کرنا اور داعش کے خطرے سے نمٹنا بیان کیا گیا ہے، پاکستان کی وزارت خارجہ نے اپنے پہلے رد عمل میں اس سلسلہ میں بے خبری کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ تفصیلات معلوم ہونے کے بعد ہی اس کے بارے میں کوئی حتمی بات کہی جا سکے گی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۸ جنوری ۲۰۱۶ء

Pages