دُلّا بھٹی شہید ۔ اکبر بادشاہ کا ایک غیرت مند باغی

   
۱۴ جون ۲۰۱۹ء

کچھ عرصہ سے معمول ہے کہ تعلیمی سال کے دوران اتوار کو ظہر تا عصر جامعہ فتحیہ اچھرہ لاہور میں اور بدھ کو ظہر تا عصر جامعہ اسلامیہ محمدیہ فیصل آباد میں حاضری ہوتی ہے اور دورۂ حدیث کے طلبہ کے ساتھ بخاری شریف اور حجۃ اللہ البالغۃ کے چند ابواب کی تدریس کے ماحول میں کچھ وقت گزر جاتا ہے، جبکہ جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں ان دو مضامین کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے عالمی نظام اور احکام القرآن کے تقابلی مطالعہ کا سلسلہ دورۂ حدیث میں سال بھر چلتا رہتا ہے۔ فیصل آباد میں ستیانہ روڈ سے گزر کر جامعہ محمدیہ جانا ہوتا ہے اس لیے سردار احمد خان کھرل شہیدؒ کے نام سے موسوم چوک کے پاس سے گزرتے ہی اس مجاہد آزادی کی یاد ذہن میں تازہ ہو جاتی ہے، مگر اردگرد کے لوگوں سے حتٰی کہ علماء و طلبہ سے بھی پوچھنے پر پتہ نہیں چلتا اور نہ ہی وہاں کچھ لکھا ہوا ہے کہ یہ صاحب کون تھے اور ان کے نام سے یہ چوک کیوں منسوب کیا گیا ہے۔

رائے احمد خان کھرل ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے نامور جرنیل تھے جنہوں نے قبولہ، گوگیرہ اور ساہیوال کے علاقہ میں انگریزوں کے خلاف جنگ کا محاذ گرم رکھا اور برطانوی فوجوں کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوگئے۔ ربع صدی قبل کی بات ہے میں ماہنامہ الرشید ساہیوال کے مدیر مولانا حافظ عبد الرشید ارشدؒ کے ساتھ لندن میں دریائے ٹیمز کے کنارے گھوم پھر رہا تھا کہ ایک جرنیل کے مجسمے پر نظر پڑی، عموماً میں کوئی کتبہ یا مجسمہ دیکھتا ہوں تو اس کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ انگریزی زبان سے تو قطعی نابلد ہوں، البتہ کوئی واقف دوست تلاش کر کے ترجمہ سے کام چلا لیتا ہوں۔ وہیں ایک دوست سے پوچھا کہ اس مجسمہ کے بارے میں نیچے کیا لکھا ہوا ہے؟ انہوں نے پڑھ کر بتایا کہ یہ برطانوی فوج کے وہ جرنیل ہیں جنہوں نے ۱۸۵۷ء میں لاہور کے جنوبی اضلاع میں بغاوت کو کچلنے میں کامیابی حاصل کی تھی، میں نے مولانا حافظ عبد الرشید ارشدؒ سے عرض کیا کہ آپ کے سردار احمد خان کھرل شہیدؒ کا قاتل یہ کھڑا ہے۔

اسی طرح لاہور میں ریلوے اسٹیشن سے مال روڈ تک جانے والی ایک سڑک کا نام ’’بن بادیس روڈ‘‘ ہے، اس نام کی تختی ایک عرصہ تک میں دیکھتا رہا ہوں، اب خدا جانے وہاں ہے یا نہیں۔ میں نے بہت سے حضرات سے پوچھا کہ یہ بن بادیس صاحب کون بزرگ تھے؟ مگر کسی سے جواب نہ ملا۔ یہ دراصل الجزائر کے بزرگ الشیخ عبد الحمید بن بادیسؒ ہیں اور الجزائر کی جنگ آزادی میں ان کے قائدانہ کردار کی وجہ سے الجزائری عوام کے ساتھ خیرسگالی کے جذبہ سے یہ روڈ ان کے نام سے موسوم کیا گیا تھا۔ شیخ بن بادیسؒ الجزائر چھوڑ کر اس دور میں مدینہ منورہ چلے گئے تھے جب حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ مسجد نبویؐ میں حدیث نبویؐ پڑھایا کرتے تھے۔ شیخ بن بادیسؒ نے ان سے رسمی تعلیم سے فراغت کے بعد اجازت چاہی کہ میں بھی یہیں کوئی حلقہ درس قائم کر لوں؟ استاذ محترمؒ نے فرمایا کہ نہیں آپ کا ملک فرانس کا غلام ہے اور اس کی آزادی کے لیے جدوجہد آپ کی ذمہ داری ہے، اس لیے واپس اپنے وطن جائیں اور علماء کرام کو منظم کر کے لوگوں کو ساتھ ملائیں اور وطن کی آزادی کی جنگ لڑیں۔ وہ وطن واپس گئے، ایک بڑے عالم دین الشیخ بشیر الابراہیمیؒ کے ساتھ مل کر ’’جمعیۃ علماء الجزائر‘‘ قائم کی اور جنگ آزادی کے لیے سرگرم ہوگئے۔ چنانچہ الجزائر کی آزادی کی جدوجہد میں احمد بن بیلا، بومدائن اور دیگر قومی لیڈروں کے ساتھ ان دونوں بزرگوں کا نام بھی پہلی فہرست میں شمار ہوتا ہے۔

ابھی رمضان المبارک سے کچھ دن قبل لاہور کے گلشن راوی کے علاقہ سے گزر رہا تھا کہ ایک چوک میں ’’دلا بھٹی شہید چوک‘‘ لکھا ہوا دیکھ کر ذہن ماضی کی بھول بھلیوں میں گردش کرنے لگا، یہ پنڈی بھٹیاں کا ایک سردار عبد اللہ بھٹی تھا جس نے راوی اور چناب کے درمیانی خطہ میں جسے ’’ساندل بار‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا، مغلوں کا اقتدار قائم ہونے میں مزاحمت کی اور کئی سال تک ان کے قدم روکے رکھے۔ اس کی اس بغاوت یا مزاحمت کی وجہ سے اکبر بادشاہ کو دہلی سے لاہور منتقل ہونا پڑا، کچھ عرصہ لاہور سلطنت مغلیہ کا دارالحکومت رہا، بالآخر دلا بھٹی نے جام شہادت نوش کر لیا اور پنجاب پر مغلوں کا قبضہ مکمل ہوا۔

ایک عرصہ سے میرے ذہن میں یہ خلش تھی کہ اکبر بادشاہ کے مقابلہ میں دلا بھٹی کی اس جنگ کا ہدف صرف مغل اقتدار کو روکنا تھا یا اکبر بادشاہ کا خود ساختہ ’’دین الٰہی‘‘ بھی اس کے پس منظر میں شامل تھا۔ لاہور کے مذکورہ چوک میں ’’دلا بھٹی شہید چوک‘‘ کے عنوان کے ساتھ کچھ تحریر دکھائی دی تو کوشش کی کہ اس کی فوٹو لے لی جائے، مگر رش کی وجہ سے ایسا نہ ہو سکا، میں نے اپنے ساتھی حافظ شاہد میر سے کہا کہ جب بھی موقع ملے اس کا فوٹو لے لیں جو کچھ دن کے بعد انہوں نے لے کر بھیج دی، وہ تحریر قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے۔

’’برصغیر پاک و ہند کے عظیم حریت پسند اور پنجاب کے عظیم ہیرو محمد عبد اللہ خان بھٹی المعروف دلا بھٹی شہید کا تعلق راجپوت بھٹی قبیلہ سے تھا۔ دلا بھٹی شہید کے جد امجد مہاراجہ بھاٹی کی حکومت دلی سے غزنی تک تھی جس نے عظیم فتح کی یاد میں بھاٹی گیٹ لاہور تعمیر کرایا۔ دلا بھٹی شہید 11 اکتوبر 1546ء میں پنڈی بھٹیاں میں پیدا ہوئے، ان کے باپ کا نام فرید بھٹی اور دادا کا نام ساندل بھٹی تھا۔ دریائے راوی اور دریائے چناب کا درمیانی علاقہ ساندل بھٹی کے نام پر ساندل بار کہلاتا ہے۔ دریائے چناب اور دریائے سندھ کا درمیانی علاقہ ’’دلے دی بار‘‘ کہلاتا ہے۔ شمال سے وسط ایشیائی اور بین الاقوامی بھوکے ننگے لٹیرے قبائل لوٹ مار کی غرض سے ہندوستان پر حملہ آور ہوتے رہتے تھے جس سے تمام علاقہ تباہ و برباد اور قتل و غارت کا نشانہ بن جاتا تھا۔ راجپوت قبیلہ بذات خود ایک جنگجو قبیلہ تھا جو خود اس خطہ ساندل بار کے خودمختار حکمران تھے۔ وہ کسی بھی صورت میں سرزمین پنجاب میں حملہ آوروں کو داخل نہیں ہونے دیتے تھے۔ بیرونی حملہ آوروں اور ان کے درمیان اکثر خونی جنگیں ہوتی رہتی تھیں جس سے باقی ہندوستان محفوظ اور خوشحال رہتا تھا۔ اس بہادری، جرات اور مزاحمت کی وجہ سے سارے ہندوستان میں ساندل بھٹی اور ساندل بار کی دھوم مچ گئی۔

ساندل بھٹی ایک حریت پسند تھا جس سے دلی کے حکمران گھبرا گئے اور انہوں نے ساندل بھٹی کو پھانسی دے دی، اس کے بعد اس کے بیٹے فرید بھٹی نے تحریک کو جاری رکھا۔ فرید بھٹی کو پھانسی دے دی گئی تو اس کے بعد اس کے بیٹے دلا بھٹی شہید نے تحریک آزادی پنجاب کو جاری رکھا۔ دلا بھٹی شہید نے اکبر بادشاہ کی شہنشاہی آمریت، غریب عوام پر ظلم و ستم، کسانوں پر بھاری لگان کا نفاذ، جبر و تشدد اور دین شاہی اکبر کا دین الٰہی ماننے سے صاف انکار کر دیا۔ اکبر بادشاہ نے 1584ء میں پہلی دفعہ دارالخلافہ کو دلی سے لاہور منتقل کر دیا اور پندرہ سال 1599ء تک لاہور ہندوستان کا دارالخلافہ رہا۔ شہنشاہ اکبر نے دلا بھٹی شہید کو مذاکرات اور صلح کے بہانے دھوکہ سے بلایا اور اس کو مغل حکومت، دین الٰہی ماننے اور سجدہ کرنے پر مجبور کیا اور کہا کہ اگر وہ اطاعت کر لے، حریت پسندی اور ’’تحریک آزادی پنجاب‘‘ چھوڑ دے تو اس کو صوبہ لاہور، صوبہ ملتان اور صوبہ کابل کا گورنر بنا دیا جائے گا اور شاہی دربار میں اعلٰی ترین منصب دیا جائے گا۔ لیکن دلا بھٹی شہید اپنی قوت ایمانی اور جذبہ حب الوطنی پر قائم رہا۔ دلا بھٹی شہید سچے عاشق رسول تھے، دنیاوی حکومت کو مسترد کر کے حضور پاکؐ کی غلامی کا تاج اپنے سر پر سجا کر پھانسی کا پھندہ گلے میں ڈال کر سرنگوں ہونے کی بجائے سربلند ہوگیا۔

دلا بھٹی شہید کو 26 مارچ 1589ء کو لاہور میں دلی دروازے کے باہر میدان نخاس میں میلاد چوک کے مقام پر پھانسی دے کر شہید کر دیا گیا۔ حضرت شاہ حسینؒ نے میت لے کر بھاٹی چوک لاہور میں نماز جنازہ پڑھائی اور قبرستان میانی صاحب میں دفن کر دیا۔ 425 سال گزرنے کے باوجود دلا بھٹی شہید ایک زندہ جاوید کردار ہے جو کہ عالمی سطح پر ’’لوک کردار‘‘ کا رتبہ پا گیا۔ جو کہ عقیدت محبت کا انتہائی آخری درجہ ہے۔ لوگ اب بھی اس کی بہادری، جوانمردی، غیرت مندی اور جذبہ حب الوطنی کے گیت گاتے ہیں۔ حکومت پنجاب نے شہید کی خدمات، عوام کی محبت اور دلا بھٹی اکیڈمی (رجسٹرڈ)، اہلیان گلشن راوی لاہور و پنجاب کے پر زور مطالبہ اور لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر شہید کی یادگار تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا۔ حب الوطنی بہت بڑی عبادت ہے، دلا بھٹی شہید کی پگ دراصل پنجاب کا عظیم نشان ہے جو کہ آنے والی نسلوں کے جذبہ حب الوطنی اور جذبہ ایمانی کو گرماتا رہے گا۔

روز ای جمدے نیں وارث تختاں دے
ماواں جمن دلا بھٹی کدی کدی
۲۰ سالہ جدوجہد بشیر حسین بھٹی، چیئرمین دلا بھٹی اکیڈمی (رجسٹرڈ) لاہور۔
با وساطت لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی، حکومت پنجاب، لاہور۔
تاریخ تعمیر 22 اکتوبر 2013ء ۔ ۱۷ ذی الحجہ ۱۴۳۴ھ‘‘

اس تحریر کے ہر پہلو سے اتفاق ضروری نہیں ہے، ہمارا اسے پیش کرنے کا مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ اکبر بادشاہ کے خودساختہ ’’دین الٰہی‘‘ سے بغاوت کرنے والوں میں حضرت مجدد الف ثانیؒ کی قیادت میں علماء کرام اور صوفیائے عظامؒ تو سرگرم تھے ہی، دیگر مسلمان طبقات اور قبائل کا کردار بھی اس میں کم نہیں ہے، اللہ تعالٰی سب کو آخرت میں بلند درجات سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter