شادی گھر کا نظم ۔ مسجد کا ایک اور معاشرتی کردار

   
۳ مئی ۲۰۲۳ء

مسلم معاشرہ میں مسجد کے معاشرتی کردار کے حوالے سے میں اپنے بیانات اور مضامین میں ایک عرصہ سے گزارش کر رہا ہوں کہ ① عبادات ② دینی تعلیم ③ دعوت و تبلیغ اور ④ ذکر و اذکار کے حوالے سے تو مسجد معاشرہ میں کردار ادا کر رہی ہے اور اس کے اثرات و برکات بھی نمایاں محسوس ہو رہے ہیں، مگر اس میں ⑤ رفاہِ عامہ ⑥ مصالحت و کونسلنگ اور ⑦ طبقاتی مفاہمت و ہم آہنگی کے فروغ کو بھی شامل ہونا چاہیے جو کہ اسلامی معاشرے میں مسجد کی مرکزیت کا ضروری تقاضہ ہے۔

اس پس منظر میں اسلام آباد سے موصول ہونے والی ایک رپورٹ بہت خوشی اور اطمینان کا باعث بنی ہے جو قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے۔ ملک بھر میں مساجد کے خطباء و ائمہ اور منتظمین و معاونین کو اس پر غور کر کے اس طرز پر اپنے ہاں کام کو مرتب و منظم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

’’الحمد للہ غریب بیٹیوں کی شادی کیلئے مسجد رحمۃ للعالمين (ایف ایٹ فور، اسلام آباد) میں شادی گھر قائم کر دیا گیا ہے۔ نادار افراد کی بیٹیوں کو مسجد رخصت کرے گی۔ میزبانی کا سامان مثلاً برتن، میز اور کرسیاں فراہم کی جا رہی ہیں۔ خواتین اور مردوں کیلئے الگ الگ نشست اور کھانے کا انتظام ہوگا۔ دولہا اور دلہن کیلئے مناسب اسٹیج بھی دستياب ہے۔ دلہن کی تیاری کا کمرہ (برائڈل روم) بھی مختص کیا گیا ہے۔ شادی کی ایک تقریب کیلئے تین گھنٹے کیلئے یہ جگہ فراہم کی جائے گی۔ یتیم اور مستحق بیٹیوں کیلئے کھانا مسجد فراہم کرے گی۔ میزبانی (سرونگ) کے لیے بوقتِ ضرورت تربيت یافتہ عملہ بھی دستياب ہوگا۔ اہلِ خاندان نکاح اپنے پسند کے کسی بھی فرقے کے کسی بھی عالم سے پڑھوا سکتے ہیں۔ مزدور و محنت کش اور مستحق و بے سہارا افراد کی بیٹیوں کو باعزت طریقے سے مسجد سے رخصت کیا جائے گا۔ مستحق اور نادار افراد کے لیے یہ سہولتیں بالکل مفت ہیں۔

یہ تمام عمل نمازوں کے معمول يا نظام کو متاثر کیے بغیر جاری رہے گا۔ یہ مکمل نظام مسجد رحمۃ للعالمين پیش کر رہی ہے، والحمد للہ تعالیٰ۔

سوچیے کہ بیٹیوں کی رخصتی کو مسجد سے منسلک کرنے سے خرافات ختم ہوں گی اور برکت کے ماحول میں نئی زندگی شروع ہو گی۔ سفید پوش اور خوددار غریب پر بوجھ کم ہو جائے گا۔ رخصتی کی تقریب ناچ گانے کی بجائے اذان اور نماز سے منسلک ہوگی۔ اسراف اور فضول خرچی کا خاتمہ ہوگا۔ نکاح کے موقع پر بھی تربيت و اصلاح ہوگی۔ سفید پوش لوگوں کیلئے ایک باعزت نظام بن جائے گا۔ کسی غریب باپ کو اپنی بیٹی بوجھ نہیں نظر آنے گی۔ کتنے ہی خوددار خاندان غیر ضروری قرض لینے یا مدد مانگنے کی آزمائش سے بچ جائیں گے۔ اس سے بیٹی، خاندان اور پھر نسل کا مسجد سے مضبوط تعلق بنے گا۔ شادی كا صحیح اسلامی کلچر متعارف کروانے میں شاندار مدد ملے گی۔ مسجد کی برکت سے نکاح کا بندھن مبارک اور سعید ہوگا۔

مساجد رحمت کا بڑا ذریعہ ہیں۔ اہلِ مساجد دینے اور بانٹنے والے بن جائیں اور دل بڑا کریں تو مسجدوں کے پاس ہال بھی ہیں، وضو خانے بھی، بیت الخلا بھی اور پارکنگ کی جگہ بھی ۔ مسجدوں کو مرکزِ خدمت بنائیں۔

بکنگ کا طریقہ: خواہش مند خاندان مسجد انتظامیہ سے رابطہ کرے۔ مسجد اپنا ایک فرد بطور منتظم (کوارڈینیٹر) مقرر کرے گی۔ مقررہ تاريخ اور وقت کے مطابق ترتیب بنائیں۔ خاندان کو تقریب کا انتظام اور طریقہ سمجھا دیا جائے گا۔

اس سلسلہ میں مسجد یہ تجویز کرتی ہے کہ صرف ضروری لوگ مدعو کریں، بہتر ہے مہمان ۱۰۰ یا ۱۲۰ سے کم ہی ہوں، جس میں خواتین و حضرات کا تناسب آدھا آدھا رکھیں۔ موقع کی مناسبت سے اچھا اہتمام ہو ليكن اسراف سے پرہیز کیا جائے۔ شرعی تعلیمات کا لحاظ رکھا جائے۔ خاندان کے مرد اور خواتین ترتیب اور صفائی وغیرہ کا خود خیال رکھیں۔ نگرانی کیلئے ایک مرد اور ایک خاتون مقرر کر دیں۔ تقریب ختم ہوتے ہی صفائی کروا دی جائے۔ مسجد انتظامیہ کا کوئی فرد تقریب میں شریک نہیں ہو گا۔

منجانب: جامع مسجد رحمۃ للعالمین (ایف ایٹ فور، اسلام آباد)‘‘

   
2016ء سے
Flag Counter