دینی و عصری تعلیم کے نصاب کو یکساں بنانے کا پس منظر

نئی حکومت کی جانب سے دینی مدارس اور اسکولوں کا یکساں نصاب رائج کرنے کے اعلانات کے بعد یہ موضوع ایک بار پھر زیر بحث آ گیا ہے۔ راقم نے ایک وائس میسج میں اس پر اپنے موقف کا اظہار کیا تھا، جو مختلف حلقوں میں توجہ کے ساتھ سنا گیا۔ اسے عزیزم مولوی حذیفہ سواتی نے تحریری صورت دی ہے، جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ آج کی خبر کے مطابق عمران خان کی حکومت نے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۴ اکتوبر ۲۰۱۸ء

سفرِ معراج کے دو پہلو

خیر پور سندھ کی مرکزی جامع مسجد کے خطیب مولانا مفتی محمد اسد اللہ شیخ نے ۴ مئی کو میری حاضری کے موقع پر جامع مسجد میں معراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موضوع پر بیان کا اہتمام کر رکھا تھا۔ اس موقع پر جو گزارشات پیش کیں ان کا خلاصہ درج ذیل ہے۔ بعد الحمد والصلوٰۃ۔ اسراء و معراج کا واقعہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا اہم واقعہ ہے اور بڑے معجزات میں سے ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو رات کے ایک حصے میں جسم اطہر کے ساتھ بیداری کی حالت میں یہ مقدس سفر کرایا، جس کا ایک حصہ اسراء کہلاتا ہے جو مکہ مکرمہ سے بیت المقدس تک تھا، جبکہ دوسرا حصہ معراج کہلاتا ہے جو زمین سے عرش بلکہ اس سے بھی آگے کی منازل تک تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۱ مئی ۲۰۱۶ء

سندھ اسمبلی کے ارکان اپنی رائے پر نظر ثانی کریں

گزشتہ روز سندھ اسمبلی نے ایک قرارداد کے ذریعہ اسلامی نظریاتی کونسل کو ختم کر دینے کا مطالبہ کیا ہے، جبکہ چند ہفتے قبل قومی اسمبلی نے ایک قرارداد کے ذریعہ سفارش کی تھی کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو قومی اسمبلی اور دیگر متعلقہ ایوانوں میں پیش کر کے ان کے مطابق قانون سازی کا اہتمام کیا جائے۔ اسلامی نظریاتی کونسل ایک دستوری ادارہ ہے جو جید علماء کرام اور ممتاز ماہرین قانون پر مشتمل ہے اور اس کے ذمہ کام یہ ہے کہ وہ ملک میں رائج قوانین کا جائزہ لے کر ان کی شرعی حیثیت کا تعین کرے اور جن قوانین کو قرآن و سنت سے متصادم پائے ان کی اصلاح تجویز کرتے ہوئے حکومت کو متبادل قوانین کے لیے سفارشات فراہم کرے۔ اسلامی نظریاتی کونسل ۱۹۷۳ء کے دستور کے نفاذ کے فوراً بعد قائم کر دی گئی تھی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲ اپریل ۲۰۱۴ء

موجودہ حالات میں قومی اتفاقِ رائے کی ضرورت

دہشت گردی کے خلاف جنگ کو ’’سانحہ پشاور‘‘ نے ایک نیا رخ دے دیا ہے اور اس کے لیے قومی سطح پر اقدامات کو منظم کرنے کی طرف پیش رفت جاری ہے۔ سیاسی راہ نماؤں کے مشترکہ اجتماعات اور ان کے ساتھ عسکری راہ نماؤں کی مشاورت کے بعد دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے فوجی عدالتوں کے قیام پر بحث ہو رہی ہے۔ سیاسی قیادت میں اس سلسلہ میں اتفاق رائے پیدا نہیں ہو رہا اور اس سے قبل ملک میں مختلف مواقع پر قائم ہونے والی فوجی عدالتوں کے فیصلوں اور طریق کار کے بارے میں بعض سیاسی راہ نماؤں نے تحفظات کا اظہار کیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۷ دسمبر ۲۰۱۴ء

عامر احمد عثمانی کا انٹرویو

سب سے پہلے تو میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے دوستوں کے ساتھ اس ملاقات کا موقع فراہم کیا اور میرے لیے خوشی اور سعادت کی بات ہے کہ بہت سے دوستوں سے گفتگو ہو رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں۔ میں ۱۹۴۸ء میں پیدا ہوا، میرے والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر قدس اللہ سر العزیز کا تعلق بٹل اور شنکیاری کے درمیان ایک جگہ ہے ”کڑمنگ بالا“ وہاں سے تھا۔ ہمارے دادا محترم وہاں ہوتے تھے، چھوٹے سے زمیندار تھے۔ حضرت والد صاحب رحمہ اللہ اور چچا محترم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خان سواتی رحمہ اللہ تعالیٰ کی والدہ فوت ہو گئی تھیں تو حالات نے ان کو اس رخ پر لگایا کہ یہ مختلف رشتہ داروں کے پاس رہنے لگے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

یکم فروری ۲۰۲۴ء

دینی مدارس کی سالانہ تعطیلات

مدارس دینیہ میں شعبان المعظم اور رمضان المبارک کی تعطیلات کا آغاز ہوتے ہی تعلیم و تدریس کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو گیا ہے اور سینکڑوں مدارس میں مختصر دورانیے کے مختلف کورسز اس وقت چل رہے ہیں۔ زیادہ تر ذوق قرآن کریم کے ترجمہ و تفسیر کا ہے، جس کی ابتدا حضرت مولانا حسین علیؒ، حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ، حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ، حضرت مولانا حماد اللہ ہالیجویؒ، حضرت مولانا غلام اللہ خانؒ، حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور حضرت مولانا محمد عبد اللہ بہلویؒ جیسے بزرگوں سے ہوئی تھی اور اب ان کے سینکڑوں تلامذہ ملک کے طول و عرض میں دورہ تفسیر قرآن کریم کے عنوان سے یہ سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۰ مئی ۲۰۱۵ء

معاملہ اتنا آسان نہیں جتنا پرویز رشید نے سمجھ لیا

وفاقی وزیر اطلاعات جناب پرویز رشید صاحب نے گزشتہ روز سینٹ آف پاکستان میں مولانا عطاء الرحمٰن کی تحریک پر اپنے ان ریمارکس کی وضاحت کی جو انہوں نے چند دن قبل آرٹس کونسل کراچی کے ادبی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے دینی مدارس پر تبصرہ کرتے ہوئے دیے تھے اور جن پر ملک بھر میں احتجاج و اضطراب کا سلسلہ جاری ہے۔ پرویز رشید صاحب کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ باتیں ان مدارس کے بارے میں کہی تھیں جو دہشت گرد پیدا کرتے ہیں اور علماء حق کے بجائے انہوں نے نصاب پر تنقید کی تھی، جبکہ علماء حق کا وہ احترام کرتے ہیں اور اگر ان باتوں سے کسی کی دل آزاری ہوئی ہے تو وہ اس پر معذرت خواہ ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۱ مئی ۲۰۱۵ء

مولانا عبد اللطیف انورؒ کی رحلت

شاہکوٹ کے مولانا عبد اللطیف انور گزشتہ دنوں انتقال کر گئے ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ دینی و مسلکی کارکنوں کی موجودہ کھیپ شاید اس نام سے اتنی مانوس نہ ہو، مگر دو عشرے قبل کے تحریکی ماحول میں یہ ایک متحرک اور جاندار کردار کا نام تھا۔ شیرانوالہ لاہور اور جمعیت علماء اسلام کے ساتھ گہری عقیدت اور بے لچک وابستگی رکھنے والے مولانا عبد اللطیف انورؒ کا نام سامنے آتے ہی نگاہوں کے سامنے ایک بے چین اور مضطرب شخص کا پیکر گھوم جاتا ہے، جو ملک میں نفاذ شریعت، تحفظ ختم نبوت، تحفظ ناموس صحابہؓ اور مسلک علماء دیوبند کی ترجمانی و پاسداری کے لیے نہ صرف فکرمند رہتا تھا بلکہ ہر وقت متحرک رہنا اور اپنے مشن کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہ کرنا اس کے مزاج کا حصہ بن گیا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۶ اکتوبر ۲۰۱۵ء

اسرائیل: نسلی امتیاز کی آخری علامت

میں علمائے کرام کے ایک وفد کے ہمراہ ۲۸ نومبر کو جنوبی افریقہ پہنچا تھا، جبکہ ۶ دسمبر کو گوجرانوالہ واپس آ گیا ہوں۔ اس دوران میں نے متعدد دوستوں سے نیلسن منڈیلا کے بارے میں پوچھا کہ وہ کس حال میں ہیں؟ سب کا اجمالی جواب یہی تھا کہ وہ پہلے سے بہتر حالت میں ہیں، لیکن اس کے ساتھ یہ خبر بھی ملتی رہی کہ ان کے آبائی گاؤں میں آخری رسوم کے حوالے سے پیشگی تیاریاں جاری ہیں، جو بتاتی ہیں کہ حالت کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۲ دسمبر ۲۰۱۳ء

انتخابات میں عدمِ دلچسپی کی وجوہات

انتخابات کی آمد آمد ہے، ۱۱ مئی قریب آ رہی ہے، لیکن ابھی تک انتخابات کا ماحول پیدا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ آج کی ایک اخباری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ووٹ کے استعمال کے حوالے سے پاکستان دنیا کی دیگر اقوام و ممالک سے بہت پیچھے، جبکہ اعداد و شمار کے لحاظ سے بالکل پچھلی صفوں میں کھڑا دکھائی دیتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ ووٹ کا استعمال قانوناً لازمی نہیں ہے اور یہ وجہ تو عموماً بیان کی جاتی ہے کہ تعلیم کی شرح کم ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۶ اپریل ۲۰۱۳ء

Pages


2016ء سے
Flag Counter