حضرت مولانا عبد اللطیف جہلمیؒ

حضرت مولانا عبد اللطیف جہلمیؒ (وفات: اپریل ۱۹۹۸ء) کو پہلی بار اس دور میں دیکھا جب میرا طالب علمی کا زمانہ تھا اور مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں صرف ونحو کی کتابیں پڑھ رہا تھا۔ حضرت مولانا عبد اللطیف جہلمیؒ اس قافلہ کے سرگرم رکن تھے جو جمعیۃ علماء اسلام کو منظم کرنے کے لیے قریہ قریہ، بستی بستی متحرک تھا۔ شمالی پنجاب میں جمعیۃ علماء اسلام کو ایک فعال اور متحرک جماعت بنانے میں مجاہد ملت حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ کو جن بے لوث اور ان تھک رفقاء کا تعاون حاصل تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جولائی تا نومبر ۱۹۹۸ء

عورت کی حکمرانی کی شرعی حیثیت

مرد اور عورت دونوں نسل انسانی کے ایسے ستون ہیں کہ جن میں سے ایک کو بھی اس کی جگہ سے سرکا دیا جائے تو انسانی معاشرہ کا ڈھانچہ قائم نہیں رہتا۔ اللہ رب العزت نے حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہا السلام کو اپنی قدرت خاص سے پیدا فرمایا اور ان دونوں کے ذریعے نسل انسانی کو دنیا میں بڑھا پھیلا کر مرد اور عورت کے درمیان ذمہ داریوں اور فرائض کی فطری تقسیم کر دی، دونوں کا دائرہ کار متعین کر دیا اور دونوں کے باہمی حقوق کو ایک توازن اور تناسب کے ساتھ طے فرما دیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جنوری ۱۹۹۰ء

دینی مدارس کی آزمائش کا نیا دور ، ہم سب کے لیے لمحۂ فکریہ

5 اکتوبر کو لاہور میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ لاہور میں منعقدہ اجلاس میں استاذ العلماء حضرت مولانا سلیم اللہ خان نور اللہ مرقدہ کی جگہ وفاق کے نئے سربراہ کا انتخاب کرنے والی ہے اور اس موقع پر ملک بھر سے دینی مدارس کے سرکردہ حضرات جمع ہو رہے ہیں۔ وفاق المدارس العربیہ پاکستان دیوبندی علماء کرام اور دینی مدارس کی وحدت و مرکزیت، تعلیمی ترقی اور علمی وقار کی علامت ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے اپنی شاندار روایات اور تسلسل کے مطابق ملک و قوم اور دین و مسلک کی خدمات جاری رکھنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۵ اکتوبر ۲۰۱۷ء

حق مہر اور دوسری شادی

نکاح میں بیوی کے حق مہر کے بارے میں ان کالموں میں متعدد بار معروضات پیش کی جا چکی ہیں مگر اس سلسلہ میں ہمارے معاشرہ میں پھیلی ہوئی غلط فہمیاں اس قدر زیادہ ہیں کہ کوئی نہ کوئی لطیفہ سامنے آتا ہی رہتا ہے۔ اور بسا اوقات اچھے خاصے پڑھے لکھے دوست اس معاملہ میں اس قدر بے خبر نکلتے ہیں کہ بے ساختہ سر پیٹ لینے کو جی چاہتا ہے ۔۔۔ دوسری شادی کرنے والے کسی صاحب کو ہائیکورٹ کے ایک محترم جج نے حکم دیا ہے کہ چونکہ اس نے دوسری شادی پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر کی ہے اس لیے وہ پہلی بیوی کو اس کا پورا حق مہر ادا کرے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۰ مئی ۲۰۰۰ء

ٹیکس وصولی کا نیا نظام اور عوامی رجحانات

ملک بھر میں تاجروں کی ہڑتال تادمِ تحریر جاری ہے اور حکومت اور تاجروں کے درمیان کشیدگی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ان سطور کی اشاعت تک ممکن ہے حالات میں کوئی مثبت تبدیلی آجائے مگر ابھی تک اس کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے۔ اس سلسلہ میں راقم الحروف کو مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے حضرات سے تبادلۂ خیالات کا موقع ملا ہے اور اس حوالہ سے جو تاثرات سامنے آئے ہیں ان میں سے کچھ امور کا تذکرہ مناسب معلوم ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۶ جون ۲۰۰۰ء

ٹیکسوں کا نظام اور اسلامی روایات

ٹیکس لگانا اور اسے وصول کرنا ہر حکومت کا حق سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس کے بغیر نظام مملکت نہیں چل سکتا، لیکن اس سلسلہ میں دو باتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہو تا ہے: ایک یہ کہ ٹیکس عوام کی قوت برداشت سے باہر نہ ہو، اور دوسرا یہ کہ ٹیکس کے عوض حکومت پر عوام کو سہولتیں فراہم کرنے کی جو ذمہ داری عائد ہوتی ہے اس میں کوئی کوتاہی روا نہ رکھی جائے۔ ورنہ حکومت کے پاس ٹیکس وصول کرنے کا کوئی اخلاقی جواز باقی نہیں رہ جاتا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۷ جون ۲۰۰۰ء

حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کا اسوۂ حسنہ

یوں تو تمام انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والتسلیمات کی مبارک زندگیاں پوری نسل انسانی کے لیے مشعل راہ اور اسوۂ حسنہ ہیں لیکن سرور کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے بعد قرآن کریم میں جس شخصیت کی زندگی اور کردار کو بطور خاص اسوۂ حسنہ کہا گیا ہے وہ سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذات گرامی ہے۔ جن کے بارے میں سورۃ الممتحنہ میں مسلمانوں سے کہا گیا ہے کہ تمہارے لیے حضرت ابراہیمؑ اور ان کے رفقاء کی زندگیوں میں اسوۂ حسنہ (عمدہ نمونہ) ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۶ مارچ ۲۰۰۱ء

درس نظامی کے بارے میں امریکی دانشور کے خیالات

گزشتہ دنوں امریکی دانشور پروفیسر جان وال برج کے لیکچر کے کچھ اقتباسات لاہور کے ایک قومی اخبار میں نظر سے گزرے جس میں انہوں نے ’’درس نظامی‘‘ کے نصاب و نظام کے بارے میں اظہار خیال کیا ہے۔ پروفیسر موصوف کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ اسلام اور دیگر مشرقی علوم کے معروف سکالر ہیں اور انہوں نے ان خیالات کا اظہار لاہور میں ’’اقبال میموریل لیکچر ۲۰۰۱ء‘‘ سے خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا ہے۔ اس خطاب کا اہتمام پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ فلاسفی نے کیا تھا اور تقریب کی صدارت پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر رفیق احمد نے کی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۸ اپریل ۲۰۰۱ء

’’ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد‘‘

اقبالؒ نے کسی دور میں مسجد و خانقاہ کی چار دیواری میں محدود رہنے والے اور معاشرتی زندگی سے لاتعلق اور بے پروا ہوجانے والے ملا کے بارے میں کہا تھا کہ ’’ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت، ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد‘‘۔ انقلابِ زمانہ کا کرشمہ دیکھیے کہ اب ’’نادانی‘‘ کا یہ منصب ملا سے چھن کر جسٹس کی گود میں چلا گیا ہے۔ کچھ عرصہ سے ملک میں مغرب اور ہند کی ثقافتی یلغار، نئی نسل کو بے راہ روی کی دلدل میں دھکیلنے والے ثقافتی پروگراموں اور اسلام کی معاشرتی اقدار کی مسلسل پامالی کے حوالے سے ہمارے بعض جج صاحبان کے جو فیصلے سامنے آرہے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۷ مئی ۲۰۰۱ء

بھٹو صاحب! مذاکرات کس بات پر؟

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین جناب ذوالفقار علی بھٹو بار بار اس بات کو دہرا رہے ہیں کہ وہ قومی اتحاد کے ساتھ مذاکرات کے لیے ہر وقت تیار ہیں اور باہمی تنازعات کو بات چیت کے ذریعے طے کرنے کے خواہشمند ہیں۔ مذاکرات اور بات چیت کی دعوت بظاہر بڑی خوشنما ہے لیکن سوال یہ ہے کہ مذاکرات کس مسئلہ پر ہوں گے؟ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵ اپریل ۱۹۷۷ء

Pages


2016ء سے
Flag Counter