مولانا عبد الستار تونسویؒ

حضرت مولانا عبد الستار تونسویؒ بھی چل بسے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ابھی دو ہفتے قبل وہ گوجرانوالہ تشریف لائے تھے۔ ایک پروگرام میں شریک ہونے کے بعد جامعہ نصرۃ العلوم میں آرام فرمایا۔ میں صبح اسباق کے لیے مدرسہ میں پہنچا تو طلبہ نے بتایا کہ حضرت تونسویؒ صاحب تشریف لائے ہوئے ہیں اور مہمان خانے میں آرام فرما رہے ہیں۔ اسباق سے فارغ ہو کر میں مہمان خانے میں گیا تو وہ لحاف اوڑھے لیٹے ہوئے تھے مگر جاگ رہے تھے۔ میں نے سلام عرض کیا، مصافحہ کیا اور دعا کی درخواست کر کے واپس پلٹ گیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

فروری ۲۰۱۳ء

مولانا فضل الرحمان اور پاکستان میں مسیحی ریاست

مولانا فضل الرحمان سے کافی عرصہ کے بعد گزشتہ جمعرات کو اسلام آباد میں ملاقات ہوئی اور مختلف امور پر تبادلۂ خیالات کا موقع ملا۔ بدھ کی رات ٹیکسلا میں حضرت مولانا قاضی محمد زاہد الحسینیؒ آف اٹک کے حلقہ مریدین کا اجتماع تھا جس میں مجھے بھی شرکت اور کچھ معروضات پیش کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔ پاکستان شریعت کونسل کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات مولانا صلاح الدین فاروقی اس اجتماع کے منتظم تھے جو حضرت مولانا قاضی زاہد الحسینیؒ کے خصوصی تربیت یافتہ حضرات میں سے ہیں اور انہی کے رنگ میں علاقہ میں دینی و روحانی خدمات سرانجام دے رہے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۶ مئی ۲۰۰۰ء

پارلیمانی محاذ پر پروفیسر غفور احمدؒ کی خدمات

پروفیسر غفور احمد اللہ کو پیارے ہوگئے، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اخبارات میں ان کی وفات کی خبر پڑھ کر ماضی کے بہت سے اوراق ذہن کی یادداشت میں کھلتے چلے گئے۔ ان کا نام پہلی بار ۱۹۷۰ء کے انتخابات کے بعد سنا جب وہ کراچی سے جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ میرا تعلق جمعیۃ علماء اسلام پاکستان سے تھا اور اس دور میں جمعیۃ علماء اسلام اور جماعت اسلامی میں مخاصمت دینی اور سیاسی دونوں محاذوں پر عروج پر تھی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳ جنوری ۲۰۱۳ء

دینی مدارس کا نصاب و نظام ۔ والد محترمؒ اور عم مکرمؒ کے رجحانات

دینی مدارس کے نصاب و نظام کے بارے میں بہت سے دوست مجھ سے یہ سوال کرتے ہیں کہ اس حوالے سے آپ کے والد محترم مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ تعالیٰ کا موقف اور طرز عمل کیا تھا؟ یہ سوال بہت سے ذہنوں میں آیا ہوگا، اس لیے والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ تعالیٰ اور عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی نور اللہ مرقدہ کے تعلیمی رجحانات اور طریق کار کی بابت کچھ معروضات پیش کر رہا ہوں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جنوری ۲۰۱۳ء

دینی مدارس کے نصاب ونظام میں اصلاح

دینی مدارس کے نظام تعلیم اور نصاب میں ضروریاتِ زمانہ کے تناظر میں رد و بدل اور حک و اضافہ کے بارے میں ایک عرصہ سے بحث جاری ہے جو اس لحاظ سے بہت مفید اور ضروری ہے کہ جہاں موجودہ نصاب کی اہمیت و افادیت کے بہت سے نئے پہلو اجاگر ہو رہے ہیں، وہاں عصر حاضر کی ضروریات کی طرف بھی توجہ مبذول ہونے لگی ہے۔ اور صرف توجہ نہیں بلکہ بہت سے اداروں میں عصری تقاضوں کو دینی مدارس کے نصاب و نظام کے ساتھ ایڈجسٹ کرنے کا کام بھی خوش اسلوبی سے جاری ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جنوری ۲۰۱۳ء

نفاذِ اسلام کے سلسلے میں فکری کنفیوژن اور اعتدال کی راہ

ڈاکٹر محمد الظواہری نے ایک ہی سانس میں اتنی باتیں کہہ دی ہیں کہ ان سب کو ایک دوسرے سے الگ کرنا اور ہر ایک پر تبصرہ کرنا مشکل سا ہو گیا ہے، لیکن اس سے اتنی بات ضرور واضح ہو جاتی ہے کہ نفاذ اسلام، جہاد اور جمہوریت کے حوالے سے اس طرح کی کنفیوژن کم وبیش پورے عالم اسلام میں یکساں طور پر پائی جاتی ہے او رنفاذ اسلام کے خواہاں دینی حلقے ہر مسلم ملک میں اسی قسم کی ذہنی وفکری کشمکش سے دوچار ہیں جو ڈاکٹر محمد الظواہری کے مذکورہ بالا بیان کے بین السطور جھلک رہی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

دسمبر ۲۰۱۲ء

چند دینی کارکنان کی وفات

ہمارا عام طور پر مزاج بن گیا ہے کہ وفات پانے والے بڑے بزرگوں کو تو کسی نہ کسی طرح یاد کر لیتے ہیں لیکن کارکنوں کا تذکرہ نہیں ہوتا۔ تحریک آزادی اور تحریک ختم نبوت کے بزرگ تحریکی شاعر سائیں محمد حیات پسروریؒ نے اپنی ایک پنجابی نظم میں اس صورت حال کو اس طرح تعبیر کیا تھا کہ مکان کی خوبصورتی اور مضبوطی میں دیواروں اور چھت کو تو ہر شخص دیکھتا ہے لیکن جو اینٹیں روڑے بن کر بنیادوں میں کوٹ دی جاتی ہیں ان کا کوئی نام تک نہیں لیتا، حالانکہ عمارت کی اصل مضبوطی انہی سے ہوتی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

نومبر ۲۰۱۲ء

مولانا مفتی محمد اویسؒ

گزشتہ روز گوجرانوالہ کے ایک بزرگ عالم دین اور دار العلوم گوجرانوالہ کے بانی و مہتمم مولانا مفتی محمد اویس انتقال کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ کافی دنوں سے علیل اور صاحب فراش تھے، دو چار روز سے گفتگو بھی نہیں کر پا رہے تھے، منگل کو صبح نماز کے بعد موبائل فون کے میسج چیک کیے تو ان میں غم کی یہ خبر بھی تھی کہ مولانا مفتی محمد اویس صاحب رات دو بجے انتقال کر گئے ہیں۔ مفتی محمد اویس کا خاندان تقسیم ہند کے موقع پر کرنال سے ہجرت کر کے سندھ کے ضلع سانگھڑ میں کوٹ بسّی کے مقام پر آبسا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

نومبر ۲۰۱۲ء

مولانا سعید احمد رائے پوریؒ

مولانا سعید احمد رائے پوریؒ کے ساتھ میرا رابطہ سب سے پہلے ۱۹۶۷ء میں ہوا جب دینی مدارس اور کالجوں کے طلبہ پر مشتمل ایک مشترکہ طالب علم تنظیم ’’جمعیت طلباء اسلام پاکستان‘‘ کے نام سے وجود میں آئی۔ سرگودھا اور لاہور کے ساتھ ساتھ گوجرانوالہ بھی اس تنظیم کی سرگرمیوں کے ابتدائی مراکز میں سے تھا۔ گوجرانوالہ میں ہمارے ایک استاذ محترم مولانا عزیز الرحمنؒ ، میاں محمد عارف اور راقم الحروف اس کے لیے متحرک تھے جبکہ مولانا سعید احمد رائے پوریؒ جمعیۃ طلباء اسلام کی تنظیم و توسیع کے لیے مسلسل سرگرم عمل تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۸ اکتوبر ۲۰۱۲ء

ملالہ یوسف زئی پر حملہ

ہمارا ماتھا اسی وقت ٹھنک گیا تھا جب ہم نے دیکھا کہ ملالہ جس حملے میں زخمی ہوئی ہیں، اسی حملے میں ان کے ساتھ اسی سکول کی دو اور طالبات شازیہ اور کائنات بھی زخمی ہوئی ہیں۔ لیکن کوریج اور پروٹوکول دونوں حوالوں سے شازیہ اور کائنات اس سلوک کی مستحق قرار نہیں پائیں جو ان کی ایک زخمی ساتھی کو ملا۔ حالانکہ وہ دونوں بھی سوات کی رہنے والی تھیں، اسی سکول کی طالبات تھیں، قوم کی بچیاں تھیں، ایک ہی حملہ میں ملالہ کے ساتھ زخمی ہوئی تھیں اور ان کے جسم سے خارج ہونے والا خون بھی سرخ رنگ کا ہی تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

نومبر ۲۰۱۲ء

Pages


2016ء سے
Flag Counter