افتاء اور تحقیق کا ایک قابل توجہ پہلو
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ آج یہاں ایک نکاح کے سلسلہ میں حاضری ہوئی ہے، واہنڈو ضلع گوجرانوالہ کے حافظ محمد شفیق ہمارے عزیز شاگرد ہیں، جامعہ نصرۃ العلوم کے فاضل ہیں اور الشریعہ اکادمی میں ہمارے ساتھ شریک کار رہے ہیں، ان کے نکاح کے لیے ساہیوال آنا ہوا تو جامعہ حقانیہ میں حاضری ضروری تھی۔ یہ ہمارے بزرگوں کی جگہ ہے، حضرت مولانا مفتی سید عبد الشکور ترمذیؒ کے ساتھ میری نیازمندی رہی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
قرآن کریم کے حوالہ سے تخصصات کی ضرورت
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ قرآن کریم کا بنیادی موضوع ہدایت ہے کہ وہ نسل انسانی کی راہنمائی کے لیے نازل کیا گیا ہے اور اس میں قیامت تک کے انسانوں کی راہنمائی اور ہدایت کا سامان موجود ہے۔ یہ قرآن کریم کا اعجاز ہے کہ بدلتے ہوئے حالات اور مسلسل تغیر پذیر انسانی سوسائٹی کے ہر دور میں انسانی سوسائٹی کو قرآن کریم میں راہنمائی میسر آتی ہے اور قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
دارالعلوم دیوبند کے قیام کا مقصد
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ بزم شیخ الہند گوجرانوالہ اور اپنے عزیز ساتھی حافظ خرم شہزاد کا شکر گزار ہوں کہ یہاں کسی نہ کسی عنوان سے ماہانہ فکری محفل ہوتی ہے ۔ آج کی نشست کو دارالعلوم دیوبند کے تذکرے سے مخصوص کیا ہے۔ دارالعلوم دیوبند ۳۰ مئی ۱۸۶۶ء کو وجود میں آیا تھا۔ اس مناسبت سے یہ نشست رکھی گئی ہے کہ دارالعلوم دیوبند کا تذکرہ ہو جائے۔ دارالعلوم دیوبند کے تذکرے کے بیسیوں پہلو ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
بزرگوں کی نسبت اور تذکرہ کا مقصد
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ مولانا شاہد معاویہ صاحب ہمارے باذوق ساتھی ہیں جو اہل بیت عظامؓ کے تذکرہ کے عنوان سے ہر سال اس بابرکت اجتماع کا اہتمام کرتے ہیں اور مجھے بھی اس میں حاضری کی سعادت سے بہرہ ور کرتے ہیں جس پر میں ان کا شکرگزار ہوں، اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر سے نوازیں۔ بزرگوں کی نسبت سے جمع ہونے اور ان کا تذکرہ کرنے میں جہاں برکتیں حاصل ہوتی ہیں اور ان کے ساتھ تعلق و نسبت کا اظہار ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
وطن اور دین کا دفاع
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ جامعہ اشرفیہ لاہور اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت دونوں آج کی اس عظیم الشان ختم نبوت کانفرنس کے انعقاد پر شکریہ اور تبریک کے مستحق ہیں اللہ تعالیٰ ہمارے ان دینی و علمی مراکز کی قیادتوں کو جزائے خیر سے نوازیں اور ہم سب کے مل بیٹھنے کو قبول فرماتے ہوئے اسے دنیا و آخرت میں ہمارے لیے سعادتوں اور برکتوں کا ذریعہ بنائیں، آمین یا رب العالمین ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
اجتہاد، تجدید اور تجدد
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا سلسلہ مکمل اور پھر کسی بھی نئی نبوت کا دروازہ بند ہو جانے کے بعد قیامت تک دین کی حفاظت اور نئے پیش آنے والے مسائل کا قرآن و سنت کی روشنی میں حل تلاش کرنے کے لیے جو نظام امت کو دیا گیا اور جو گزشتہ چودہ سو برس سے کامیابی کے ساتھ یہ خدمت سرانجام دیتا چلا آ رہا ہے، اسے تجدید و اجتہاد کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ مجددین اور مجتہدین کا ایک مربوط اور مسلسل سسٹم ہے جو کسی تعطل اور تساہل کے بغیر مصروف کار ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
سوال و جواب
بزرگوں کے تفردات: سوال: بزرگوں کے تفردات کا ذکر ہوتا ہے تو اس بارے میں ہمارا کیا طرزِ عمل ہونا چاہیے؟ (حافظ دانیال عمر، گوجرانوالہ ۔ ۸ جون ۲۰۲۴ء) ۔ جواب: تفرد یعنی کسی علمی مسئلہ پر انفرادی رائے ہر صاحبِ علم اور صاحبِ مطالعہ و تحقیق کا حق ہوتا ہے اور یہ فطری بات ہے۔ اکابر اہلِ علم کے تفردات کو صرف شمار ہی کیا جائے تو اس سے ضخیم کتاب مرتب ہو سکتی ہے۔ مگر اپنی انفرادی رائے کو حتمی قرار دینا اور جمہور اہلِ علم کے علی الرغم اس پر اصرار کر کے دوسروں کو غلط قرار دینا درست طریقہ نہیں ہے۔ میں بھی ایک طالب علم کے طور پر بہت سے مسائل پر اپنی انفرادی رائے رکھتا ہوں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
دستوری اصلاحات اور دینی حلقوں کے خدشات
دستوری اصلاحات کے لیے پارلیمانی کمیٹی اپنا کام مکمل کرنے کے قریب ہے اور توقع ہے کہ اس کی تجاویز کا مسودہ چند روز تک پارلیمنٹ کے سامنے پیش کر دیا جائے گا۔ جب سے دستوری اصلاحات کے لیے پارلیمنٹ کی قائم کردہ کمیٹی نے کام شروع کیا ہے، اس کے سامنے مختلف نوع کی تجاویز پیش کی گئی ہیں اور کمیٹی ان تجاویز کی روشنی میں اپنی تجاویز اور سفارشات مرتب کر رہی ہے۔ اس وقت منظر پر سب سے زیادہ سترہویں دستوری ترمیم ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
علماء کی شہادت
کراچی ایک بار پھر علماء کی قتل گاہ بن گیا ہے اور مولانا سعید احمد جلال پوریؒ اور مولانا عبد الغفور ندیم کی اپنے بہت سے رفقاء سمیت المناک شہادت نے پرانے زخموں کو پھر سے تازہ کر دیا ہے۔ خدا جانے یہ سلسلہ کہاں جا کر رکے گا اور اس عفریت نے ابھی کتنے اور قیمتی لوگوں کی جان لینی ہے۔ مولانا سعید احمد جلال پوری شہیدؒ حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ کے قافلے کے فرد تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
دینی جدوجہد کے نئے ابھرتے امکانات
جوہر آباد سے فون پر ایک دوست نے توجہ دلائی ہے کہ میں نے ایران کے سفر کے حوالہ سے مولانا مفتی محمودؒ اور مولانا شاہ احمد نورانیؒ کے بارے میں اپنے گزشتہ کالم میں جو کچھ لکھا ہے، اس میں کچھ گڑبڑ ہوئی ہے۔ اس لیے کہ یہ سفر ۱۹۸۷ء میں ہوا، جبکہ مولانا مفتی محمودؒ اس سے سات سال قبل وفات پا چکے تھے۔ اس دوست کا کہنا بجا ہے، اصل بات یہ ہے کہ میں اپنی گفتگو صحیح طور پر بیان نہیں کر سکا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر