مولانا حافظ عبد الرحمنؒ

حافظ عبد الرحمنؒ کے اخلاص اور قائم کردہ مرکزی مدرسہ تعلیم الاسلام کی تعلیمی شہرت اطراف میں تھوڑے ہی عرصہ میں اتنی زیادہ ہوگئی کہ مختلف علاقوں کے دیندار حضرات نے مسجد و مدرسہ کے لیے اپنی جائیدادیں دینا شروع کر دیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قرب و جوار اکبر آباد، پکی کوٹلی، فتح گڑھ اور غوثپورہ میں تعلیم الاسلام جامع مسجد نور کے نام سے مرکزی مدرسہ کی برانچیں قائم ہوگئیں اور تدریس قرآن کی برکات دور دور تک پھیلیں۔ سیالکوٹ، نارووال، گوجرانوالہ وغیرہ کے مختلف علاقہ جات سے ہزاروں طلباء نے حافظ صاحبؒ سے قرآن کریم کی تعلیم حاصل کی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲ اگست ۲۰۱۶ء

مسلمانوں کی معاشرتی زندگی میں مساجد کا کردار

نبی اکرمؐ اور خلفاء راشدینؓ کے خطبات جمعہ و عیدین میں یہ تفریق نہیں ہوتی تھی کہ فلاں بات عبادت اور تعلیم سے تعلق رکھتی ہے اس لیے اسے مسجد میں ہونا چاہیے اور فلاں بات سیاست اور حکومت سے متعلقہ ہے اس لیے اسے مسجد سے باہر کیا جانا چاہیے۔ مسلمانوں سے متعلقہ معاملات کا تعلق عبادت سے ہو یا تعلیم سے، سیاست سے ہو یا عدالت سے، معاشرے سے ہو یا تمدن سے، صلح سے ہو یا جنگ سے، تجارت سے ہو یا زراعت سے، مقامی امور سے ہو یا بین الاقوامی معاملات سے، ان سب کا تذکرہ مسجد میں ہوتا تھا اور ان کے بارے میں ہر اہم فیصلہ مسجد میں کیا جاتا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۹ جون ۲۰۰۳ء

دینی نصاب تعلیم اور بین الاقوامی دباؤ

مسلمانوں کے دینی نصاب تعلیم کا مسئلہ آج سے نہیں صدیوں سے مغربی اقوام کے لیے درد سر بنا ہوا ہے۔ ایک تاریخی روایت ہے کہ برطانیہ کے وزیراعظم گلیڈ اسٹون نے آج سے کوئی سو برس قبل برطانوی پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر قرآن کریم کا نسخہ لہراتے ہوئے کہا تھا کہ جب تک یہ کتاب مسلمانوں میں پڑھی جاتی رہے گی اس وقت تک مسلمانوں میں مذہبی جنون باقی رہے گا، اور جب تک مسلمانوں میں مذہبی جنون موجود رہے گا تب تک انہیں غلام رکھنا ممکن نہیں ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۱ مئی ۲۰۰۱ء

حضرت مولانا ضیاء القاسمیؒ

مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ کی ایک نمایاں خوبی یہ بھی تھی کہ وہ دینی اور مسلکی معاملات میں انتہائی غیور تھے اور صرف خطابت میں ہی غیرت و حمیت کا اظہار نہیں کرتے تھے بلکہ عملاً بھی وہ مسائل و مشکلات کے حل کے لیے سرگرداں رہتے تھے۔ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے انہیں جرأت و دلیری کا وافر حصہ بھی عطا کیا تھا، وہ مشکل اوقات میں عافیت کا گوشہ تلاش کرنے کی بجائے مصیبت کے مقام پر ڈٹے رہنے کو ترجیح دیتے تھے اور کسی بات کی پروا نہیں کرتے تھے۔ مولانا ضیاء القاسمیؒ کی بیعت کا تعلق شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ سے تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۲ جنوری ۲۰۰۱ء

افغانستان کی تعمیر نو ۔ ڈاکٹر سلطان بشیر محمود کے تاثرات

ڈاکٹر سلطان بشیر محمود نے کہا کہ گزشتہ نصف صدی کے دوران طالبان کی حکومت افغانستان کی پہلی حکومت ہے جو پاکستان کے حق میں ہے اور دہلی کی بجائے اسلام آباد سے وابستگی رکھتی ہے۔ طالبان حکومت کے بیشتر افراد پاکستان کے دینی مدارس کے تعلیم یافتہ ہیں اور پاکستان سے محبت رکھتے ہیں، اس لیے پاکستان کو اس حکومت کے بچانے کے لیے خود اپنے مفاد کے خاطر بھی سرگرم کردار ادا کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اور روس گزشتہ دو عشروں میں صرف ایک بات پر متفق ہوئے ہیں اور وہ یہ ہے کہ طالبان کی حکومت کو ہر قیمت پر ناکام بنایا جائے اور ختم کر دیا جائے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۶ دسمبر ۲۰۰۰ء

القدس کا تاریخی پس منظر

بیت اللہ کی طرح بیت المقدس بھی سیدنا حضرت ابراہیمؑ نے تعمیر کیا اور اس کی تعمیر بیت اللہ کے چالیس سال بعد ہوئی۔ حضرت ابراہیمؑ نے مکہ مکرمہ میں بیت اللہ تعمیر کر کے وہاں اپنے ایک بیٹے حضرت اسماعیلؑ کو بسایا جبکہ فلسطین میں بیت المقدس تعمیر کر کے وہاں دوسرے بیٹے حضرت اسحاقؑ کو بسا دیا۔ حضرت اسحاقؑ کی اولاد میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کا عظیم الشان سلسلہ قائم فرمایا۔ ’’اسرائیل‘‘ حضرت یعقوبؑ کا لقب تھا اور انہی کی اولاد کو بنی اسرائیل کہا جاتا ہے۔ اس خاندان کو اپنے دور میں اللہ تعالیٰ نے بہت سی عظمتوں سے نوازا اور دین و دنیا کی شوکتیں عطا فرمائیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۷ نومبر ۲۰۰۰ء

فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے وزیر داخلہ کی سفارشات اور حقیقت حال

اگر کفریہ باتوں کے اظہار پر پابندی نہ ہو اور صرف کافر کہنے پر پابندی لگا دی جائے تو یہ یکطرفہ بات ہوگی جو سراسر ناانصافی ہے اور کوئی بھی معقولیت پسند شخص اس کو قبول نہیں کر پائے گا۔ جبکہ منطقی اور بدیہی بات یہ ہے کہ جہاں کفر کی باتوں کا اعلانیہ اظہار ہوگا تو اسے کفر قرار دینے پر پابندی کا کوئی عقلی اور اخلاقی جواز نہیں رہ جائے گا۔ اس لیے اس ضمن میں ہم یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ وفاقی شرعی عدالت یا اسلامی نظریاتی کونسل کے آئینی اداروں کے ذریعہ ان امور کا تعین کیا جائے جو کفر کا موجب بنتے ہیں اور جن کے اظہار کی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کسی کو اجازت نہیں ہونی چاہیے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۴ اکتوبر ۲۰۰۰ء

اٹلی کی عدالت کا شرمناک فیصلہ اور بائبل کی تعلیمات

اٹلی کی عدالت عظمیٰ نے اپنی ایک ماتحت عدالت کے اس فیصلہ کی توثیق کر دی ہے کہ کسی عورت کا اپنے خاوند کے علاوہ دوسرے کسی مرد سے تعلق رکھنا جرم نہیں ہے البتہ اسے رات کو بہرحال اپنے خاوند کے پاس ہونا چاہیے۔ تعلق کی نوعیت کی وضاحت نہ ہوتی تو بات کسی حد تک گول ہو سکتی تھی لیکن خبر میں ’’جنسی تعلق‘‘ کا حوالہ دیا گیا ہے، اس لیے یہ سمجھے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے کہ مغربی ممالک نے جائز و ناجائز کے ہر قسم کے فرق کو ختم کرتے ہوئے اباحیت مطلقہ (فری سوسائٹی) کو آخری انتہاء تک پہنچانے کا عزم کر رکھا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۲ ستمبر ۲۰۰۰ء

۱۹۸۴ء کی تحریک ختم نبوت ۔ چند یادیں

1984ء کی تحریک ختم نبوت کا بنیادی محرک سیالکوٹ میں مجلس تحفظ ختم نبوت کے مبلغ محمد اسلم قریشی کی اچانک گمشدگی تھا۔ اسلم قریشی اس سے قبل اسلام آباد میں مرزا غلام احمد قادیانی کے پوتے ایم ایم احمد پر قاتلانہ حملہ کے حوالے سے گرفتار رہے تھے۔ جبکہ ایم ایم احمد منصوبہ بندی کمیشن کے چیئرمین تھے اور اس وقت کے سربراہ حکومت جنرل محمد یحیٰی خان کے کسی بیرون ملک دورہ کے موقع پر مبینہ طور پر چند روز کے لیے ملک کے قائم مقام صدر بننے والے تھے۔ اسلم قریشی نے چھری سے ان پر حملہ کر کے انہیں زخمی کر دیا اور وہ قائم مقام صدر بننے کی بجائے ہسپتال چلے گئے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۱ دسمبر ۲۰۰۲ء

افغان طالبان کے خلاف پابندیاں ۔ عالمی استعمار کی نئی صف بندی

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے امارت اسلامی افغانستان کے خلاف نئی پابندیوں کا اعلان کر دیا ہے اور ان پابندیوں سے براہ راست متاثر ہونے والے پاکستان کے سوا کسی مسلمان ملک کو اس پر رسمی احتجاج کی توفیق بھی نہیں ہوئی۔ حتیٰ کہ سلامتی کونسل میں موجود ملائیشیا نے بھی ایک برادر مسلم ملک کے حق میں کلمہ خیر کہنے کی بجائے اس اجلاس سے غیر حاضری کو ترجیح دی ہے جس میں اقتصادی پابندیوں کی قرارداد منظور کی گئی ہے۔ اس سے افغانستان کی عالمی نقشہ پر نمودار ہونے والی واحد اسلامی نظریاتی ریاست کے خلاف عالمی صف بندی کی کیفیت دیکھی جا سکتی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۵ جنوری ۲۰۰۰ء

Pages


2016ء سے
Flag Counter