امیر عبد القادر الجزائریؒ

انیسویں اور بیسویں صدی عیسوی کے دوران مسلم ممالک پر یورپ کے مختلف ممالک کی استعماری یلغار کے خلاف ان مسلم ممالک میں جن لوگوں نے مزاحمت کا پرچم بلند کیا اور ایک عرصہ تک جہاد آزادی کے عنوان سے داد شجاعت دیتے رہے، ان میں الجزائر کے امیر عبد القادر الجزائریؒ کا نام صف اول کے مجاہدین آزادی میں شمار ہوتا ہے جن کی جرات واستقلال، عزیمت واستقامت اور حوصلہ وتدبر کو ان کے دشمنوں نے بھی سراہا اور ان کا نام تاریخ میں ہمیشہ کے لیے ثبت ہو گیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جولائی ۲۰۱۱ء

اسامہ بن لادن اور ان کی جدوجہد ۔ ایک سوالنامہ

۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کو نیو یارک کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور واشنگٹن میں پنٹاگون کی عمارت سے جہاز ٹکرانے کے جو واقعات ہوئے ہیں، ان کے بارے میں حتمی طور پرکچھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ کس نے کیے ہیں اور خود مغربی ایجنسیاں بھی اس سلسلے میں مختلف امکانات کا اظہار کر رہی ہیں لیکن چونکہ امریکہ ایک عرصہ سے معروف عرب مجاہد اسامہ بن لادن اور عالم اسلام کی مسلح جہادی تحریکات کے خلاف کارروائی کا پروگرام بنا رہا تھا اور خود اسامہ بن لادن کی تنظیم ’’القاعدہ‘‘ کی طرف سے امریکی مراکز اور تنصیبات کو نشانہ بنانے کے اعلانات بھی موجود تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جنوری ۲۰۰۲ء

قومی وملی تحریکات میں اہل تشیع کی شمولیت (۲)

میں نے اپنے سارے استدلال کی بنیاد جناب نبی اکرم ﷺ کے عمومی طرز عمل اور معاشرتی رویے پر رکھی ہے کہ ان منافقین کے مومن نہ ہونے کے باوجود معاشرتی معاملات میں یہ لوگ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ مسلسل شریک رہے ہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے انھیں نہ صرف معاشرتی امور بلکہ مذہبی معاملات میں بھی اپنے ساتھ شریک رکھنے میں ہی مصلحت سمجھی ہے اور یہ سلسلہ نبی اکرم ﷺ کی حیات مبارکہ میں آخر تک رہا ہے۔ ’اخرج فانک منافق‘ قسم کا کوئی واقعہ اگر ہوا بھی ہے تو وہ شخصی واقعہ ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

مئی ۲۰۱۱ء

حامد میر صاحب کی سیاسی چاند ماری

مجھے اندازہ نہیں تھا کہ حامد میر صاحب اس حد تک بھی جا سکتے ہیں کہ ایک ریٹائرڈ بریگیڈیئر کی یادداشتوں کا سہارا لے کر حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ جیسے درویش صفت بزرگ پر ایک سیاسی تحریک میں غیر ملکی حکومتوں کے ساتھ ساز باز کا الزام عائد کر دیں گے۔ حامد میر صاحب سینئر صحافی اور کالم نگار ہیں، مطالعہ وتحقیق اور تجزیہ کی دنیا کے آدمی ہیں، البتہ مطالعہ وتحقیق کو کسی بھی موقع پر اپنے ڈھب پر ڈھال لینے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہیں، اسی لیے جب وہ کوئی بات خود سے کہنا چاہتے ہیں تو انھیں کوئی نہ کوئی حوالہ مل جاتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۹ اپریل ۲۰۱۱ء

دین کے مختلف شعبوں میں تقسیم کار کی اہمیت

دین کے کاموں کی، مختلف شعبوں میں تقسیم فطری ہے اور حضرات صحابہ کرامؓ کے دور سے چلی آرہی ہے۔ حدیث کی روایت کا اہتمام کرنے والے صحابہ کرام اپنا الگ امتیاز رکھتے تھے، قرآن کریم کی تفسیر و تاویل میں امتیازی شخصیات الگ نظر آتی ہیں، فقہ و استنباط کا ذوق رکھنے والی شخصیات دوسروں سے ممتاز دکھائی دیتی ہیں، کچھ صحابہ کرام فتنوں سے آگاہی اور ان کی نشاندہی کے میدان میں جداگانہ ذوق کے حامل رہے ہیں، بعض ممتاز صحابہ کرام کا قرآن کریم کے حفظ و قرأت میں الگ سے نام لیا جاتا ہے، جرنیل صحابہ کرام کا امتیاز بھی موجود ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۴ اپریل ۲۰۱۱ء

پاک بھارت تعلقات : ایک جائزہ ۔ ڈاکٹر یوگندر سکند کا سوالنامہ

پاکستان اور بھارت کے درمیان قومی سطح پر دشمنی کے جذبات کا ماحول برقرار رکھنا عالمی استعمار کی طے شدہ پالیسی اور ایجنڈے کا حصہ ہے جو دونوں ملکوں کی ترقی میں رکاوٹ ہے ۔ ۔ ۔ پاکستان میں قوم کی وحدت کی اصل بنیاد بھارت دشمنی نہیں ہے، بلکہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے ساتھ محبت وعقیدت ہماری قومی وحدت کی اصل اساس ہے جس کا اظہار ابھی حال میں ناموس رسالتؐ کے قانون کے حوالے سے قوم کے کم وبیش تمام طبقات نے متحد ہو کر ایک بار پھر کر دیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اپریل ۲۰۱۱ء

قومی وملی تحریکات میں اہل تشیع کی شمولیت (۱)

اس سوال پر کہ ہمارے والدمحترم حضرت مولانا محمد سرفرازخان صفدرؒ کا موقف اور طرزعمل کیا تھا؟ خصوصاً اس پس منظر میں کہ انہوں نے اثناء عشری اہل تشیع کی تکفیر پر’ ’ارشاد الشیعہ‘‘ کے نام سے کتاب بھی لکھی ہے۔ میں نے گزارش کی کہ انہوں نے ’’ارشادالشیعہ‘‘ تصنیف فرمائی اور اس میں انہوں نے جو موقف اختیار کیا ہے وہ صرف ان کا موقف نہیں بلکہ یہ تو اہل سنت کا موقف ہے، اور خود ہمارا موقف بھی اثنا عشری اہل تشیع کی حد تک یہی ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ ان تمام تحریکات کا حصہ رہے ہیں جن کا میں نے تذکرہ کیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

مارچ ۲۰۱۱ء

توہین رسالتؐ قانون ۔ مختلف طبقات کا موقف

ایک طبقہ ان لوگوں کا ہے جو سرے سے توہین رسالت کو جرم ہی نہیں سمجھتے اور اس پر سزا کو آزادیٔ رائے، آزادیٔ ضمیر اور آزادیٔ مذہب کے منافی تصور کرتے ہوئے اسے انسانی حقوق کے مغربی معیار کی خلاف ورزی قرار دیتے ہیں، بلکہ اس پر ظالمانہ قانون اور کالا قانون ہونے کی پھبتی بھی کستے رہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس طرز فکر کے نمائندہ دانشور سیکولر جمہوریت کو عدل وانصاف کا واحد معیار تصور کرتے ہوئے سوسائٹی کے اجتماعی معاملات اور ریاست و حکومت کی پالیسیوں میں مذہب کا کوئی حوالہ قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

مارچ ۲۰۱۱ء

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ

ڈاکٹر صاحب کا تعلق حضرت مولانا مفتی جمیل احمد تھانوی اور حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی کے خاندان سے تھا۔ انھوں نے ابتدائی دینی تعلیم جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی میں حاصل کی اور دورۂ حدیث دار العلوم تعلیم القرآن راجہ بازار راول پنڈی میں کیا۔ ان کے حدیث کے استاذ صوبہ خیبر پختون خواہ کے معروف محدث حضرت مولانا عبد الرحمن المینوی رحمہ اللہ تعالیٰ اور قرآن کریم کے ترجمہ وتفسیر کے استاذ شیخ القرآن حضرت مولانا غلام اللہ خان رحمہ اللہ تعالیٰ تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جنوری ۲۰۱۱ء

نفاذِ شریعت کی جدوجہد: علمی مباحثہ کی ضرورت

یہ سوال قیام پاکستان کے فوراً بعد اٹھ کھڑا ہوا تھا کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی ایک نئی نظریاتی ریاست کا دستوری ڈھانچہ کیا ہوگا اور اس کی تشکیل میں مختلف مذہبی مکاتب فکر کے باہمی اختلافات کا کس حد تک عمل دخل ہوگا؟ چنانچہ اسی ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے تمام مکاتب فکر کے ۳۱ سرکردہ علماء کرام نے ۲۲ متفقہ دستوری نکات قوم کے سامنے پیش کیے تھے تاکہ پاکستان کے دستوری ڈھانچے اور قانونی نظام کے بارے میں دینی حلقوں کا متفقہ موقف سامنے آ جائے اور یہ بات بھی واضح ہو جائے کہ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

دسمبر ۲۰۱۰ء

Pages


2016ء سے
Flag Counter