اسرائیل کے قیام کا مقصد اور ’’عرب منصوبہ‘‘

اس سے قبل جب سعودی ولی عہد شہزادہ عبد اللہ کی طرف سے 1967ء کے مقبوضہ علاقے خالی کر دینے کی صورت میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی پیشکش کی گئی تھی تو ہم نے اس کالم میں عرض کیا تھا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ سعودی عرب نے فلسطین کی تقسیم اور اسرائیل کے قیام کے لیے اقوام متحدہ کی اس قرارداد کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے جس سے سعودی عرب کے بانی شاہ عبد العزیز نے امریکی صدر ٹرومین کے نام اپنے 1948ء کے تحریر کردہ خط میں صاف طور پر انکار کر دیا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳ اپریل ۲۰۰۲ء

مسلم ممالک کا نصاب تعلیم اور بل کلنٹن کی ہدایات

جدہ میں اکنامک فورم سے خطاب کرتے ہوئے سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے اس کا ایک جملہ ایک قومی اخبار نے یوں نقل کیا ہے: ’’انہوں نے مسلمانوں پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے تعلیمی نظام میں عقیدے کی تلقین ختم کریں‘‘۔ اس بارے میں کچھ گزارشات گزشتہ کالم میں پیش کی جا چکی ہیں۔ 22 جنوری 2002ء کو ایک اور قومی اخبار نے جناب کلنٹن کے اس خطاب کی مزید تفصیلات شائع کی ہیں جن کے پیش نظر کچھ مزید معروضات ضروری محسوس ہوتی ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۸ جنوری ۲۰۰۲ء

علماء دیوبند کے بارے میں ایک غلط فہمی

راجہ انور صاحب محترم نے جنگ آزادی میں علماء دیوبند کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے یہ شکایت کی ہے کہ علماء دیوبند نے جدید سائنسی علوم کو استعماری سازش قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا۔ اور پھر انہوں نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ اسی وجہ سے علماء کے مقابلہ میں سرسید احمد خان مرحوم کی سوچ کو کامیابی ہوئی ہے اور زندگی کی دوڑ میں علماء دیوبند پیچھے رہ گئے ہیں۔ میرے خیال میں یہ شکایت اور نتیجہ دونوں تاریخی طور پر درست نہیں ہیں۔ شکایت اس لیے کہ علماء دیوبند یا کسی بھی طبقہ کے سنجیدہ علماء نے سائنسی علوم کو کبھی استعماری سازش قرار نہیں دیا اور نہ ہی ان کی مخالفت کی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۴ مئی ۲۰۰۰ء

سوات کی صورتحال اور قومی مفاد کا تقاضا

سوات اور اس کے اردگرد کے علاقوں میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ خلافِ توقع نہیں اور جو آئندہ ہونے جا رہا ہے وہ بھی توقع کے خلاف نہیں ہوگا، اس لیے کہ یہ سب کچھ طے شدہ ہے۔ جو ہوگیا ہے، جو ہو رہا ہے اور جو ہونے والا ہے اس کے حق میں اور اس کے خلاف دونوں طرف دلائل دیے جا سکتے ہیں اور دیے جا رہے ہیں لیکن دو باتوں سے شاید ہی کوئی ذی شعور اختلاف کر سکے: ایک یہ کہ اس سے پاکستان کمزور ہو رہا ہے اور قومی وحدت کے گرد خطرات کی دھند گہری ہوتی جا رہی ہے۔ دوسری یہ کہ اس سب کچھ کے باوجود مسئلہ کے حل کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۸ مئی ۲۰۰۹ء

کشمیر اور فلسطین ۔ عالمی طاقتوں کی ترجیحات

یہ وہی صورتحال ہے جو فلسطین میں اس سے قبل ہم دیکھ چکے ہیں کہ جناب یاسر عرفات کو عسکری زندگی سے نکال کر مذاکرات کی میز پر لانے کے بعد اس بات پر مسلسل مجبور کیا جا رہا ہے کہ جو فلسطینی لوگ مذاکرات کے عمل کو قبول نہ کرتے ہوئے عسکری کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں انہیں عسکری کارروائیوں سے باز رکھنے یا ان کے باز نہ آنے کی صورت میں انہیں کچلنے اور ان کی عسکری صلاحیت کو مفلوج کرنے کے لیے بھی یاسر عرفات کردار ادا کریں، بلکہ اس مقصد کے لیے اسرائیل کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۴ جون ۲۰۰۲ء

پاکستان کے داخلی معاملات میں امریکی مداخلت اور مسیحی رہنماؤں سے مخلصانہ گزارش

امریکی سینٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی نے 1987ء میں پاکستان کی فوجی و اقتصادی امداد کے لیے شرائط عائد کر کے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے خلاف جس نظریاتی اور اعصابی جنگ کا آغاز کیا تھا وہ اب فیصلہ کن مرحلہ میں داخل ہوگئی ہے۔ ان شرائط میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خاتمہ کے ساتھ ساتھ اسلامی قوانین نافذ نہ کرنے کی ضمانت، جداگانہ طرز انتخاب کی منسوخی، اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیے جانے کے اقدامات کی واپسی کے مطالبات شامل تھے، اور ان میں اب گستاخ رسولؐ کے لیے موت کی سزا کا قانون تبدیل کرنے کے تقاضہ کا اضافہ بھی ہوگیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵ اپریل ۱۹۹۴ء

مولانا عبد اللطیفؒ بالاکوٹی

گزشتہ ماہ کے دوران شاہی مسجد سرائے عالمگیر کے خطیب حضرت مولانا عبد اللطیف بالاکوٹی اللہ کو پیارے ہوگئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کی عمر ۷۴ برس کے لگ بھگ تھی۔ وہ دارالعلوم دیوبند کے فاضل تھے اور بالاکوٹ ہزارہ کے گاؤں بھنگیاں کے رہنے والے تھے۔ ان کی عمر کا بیشتر حصہ راولپنڈی، جہلم اور سرائے عالمگیر میں دینی علوم کی تدریس میں بسر ہوا۔ سرائے عالمگیر میں وہ 1961ء میں آئے اور آخر وقت تک وہیں دینی خدمات سر انجام دیتے رہے۔ شاہی مسجد میں خطابت کے علاوہ مرکزی عیدگاہ میں جامعہ حنفیہ تعلیم القرآن کے نام سے دینی درسگاہ قائم کی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

فروری مارچ ۱۹۹۴ء

افغانستان اور عراق کے بارے میں اسلامی دنیا کے الگ الگ معیارات

ایک سال قبل گیارہ ستمبر کے روز نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور واشنگٹن کے پینٹاگون پر ہونے والے خودکش حملوں کی یاد منائی جا چکی ہے۔ ان حملوں میں ہزاروں افراد جاں بحق ہوئے اور اس کارروائی نے پوری دنیا کی سیاست کا رخ تبدیل کر دیا۔ سیاسی وابستگیوں کے پیمانے بدل گئے، اخلاق و اقدار کے معیار تبدیل ہوگئے، حقوق و مفادات کی کشمکش نے ایک نیا انداز اختیار کر لیا، دنیا کی واحد طاقت ہونے کے نشہ سے سرشار امریکہ کے لیے یہ وار ہوش و حواس سے محرومی کا باعث بن گیا، بے بس مظلوموں پر خوفناک قیامت ٹوٹ پڑی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۴ ستمبر ۲۰۰۲ء

امارت اسلامی افغانستان کا خاتمہ اور نئی افغان حکومت کے رجحانات

جہاں تک شرعی قوانین کے نفاذ کو جہاد افغانستان کا منطقی تقاضا قرار دینے کا تعلق ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ روسی استعمار کے خلاف جہاد کا اعلان ہی اس بنیاد پر ہوا تھا کہ کمیونزم کا کافرانہ نظام نافذ ہوگیا ہے اور اسے ختم کر کے شرعی نظام کا نفاذ مسلمانوں کی دینی ذمہ داری ہے۔ اس لیے اگر اب بھی افغانستان میں صدر داؤد کے دور کے قوانین نے ہی واپس آنا ہے تو سرے سے اس جنگ کی شرعی بنیاد ہی ختم ہو جاتی ہے جو جنگ کمیونسٹ نظام کے خاتمہ کے لیے ’’جہاد افغانستان‘‘ کے نام سے لڑی گئی تھی اور جس میں موجودہ شمالی اتحاد میں شامل اہم راہنما بھی پیش پیش تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۱ دسمبر ۲۰۰۱ء

میدان جنگ سے فرار ۔ بزدلی اور حکمت عملی کا فرق

حضرت خالد بن ولیدؓ غزوۂ موتہ سے مسلمانوں کا لشکر لے کر مدینہ منورہ واپس پہنچے تو مدینہ منورہ میں غم و حزن کی فضا تھی۔ علامہ شبلیؒ نعمانی نے اپنی تصنیف سیرت النبیؐ میں لکھا ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غم اور پریشانی کے عالم میں مسجد نبویؐ کے ایک کونے میں جا بیٹھے جبکہ مدینہ کے عام لوگوں نے آنے والے لشکر کا استقبال اس طرح کیا کہ ان کے چہروں پر خاک پھینک رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ میدان جنگ سے بھاگنے والو واپس آگئے ہو؟ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۰ دسمبر ۲۰۰۱ء

Pages


2016ء سے
Flag Counter