اسلامی نظام حکومت میں صوبائی خودمختاری

اس پس منظر میں جب ہم صوبائی خودمختاری کے مسئلہ کو سنت نبویؐ اور خلفاء راشدینؓ کے طرز عمل کی روشنی میں دیکھتے ہیں تو دو باتیں بطور اصول سمجھ میں آتی ہیں۔ ایک یہ کہ اسلام نے علاقائی یونٹوں کے وجود کو تسلیم کیا ہے لیکن لسانی اور قومی عصبیتوں کی نفی کی ہے۔ نبی اکرمؐ نے ایک طرف تو زبان، رنگ اور نسل کی بنیاد پر اجتماع کرنے اور اس حوالہ سے دوسروں کے خلاف نفرت پھیلانے کو جاہلی عصبیت قرار دے کر اس سے بیزاری کا اظہار فرمایا۔ اور دوسری طرف آپؐ کے زمانے میں جو علاقے فتح ہوئے ان کی انتظامی وحدتوں کو برقرار رکھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۹ نومبر ۱۹۹۸ء

سیرت نبویؐ اور ڈکٹیٹرشپ

یہ مسئلہ فی الواقع سنگین ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سب سے اعلیٰ قانون ساز ادارے کے ایک رکن کی زبان پر جناب رسالت مآبؐ کی ذات گرامی کے بارے میں یہ گمراہ کن اور گستاخانہ الفاظ آخر کس طرح آگئے؟ اس معاملہ کے ضروری پہلوؤں کا جائزہ لینا اور انصاف و دینی حمیت کے تقاضے کو پورا کرنا متعلقہ شخصیات اور اداروں کی ذمہ داری ہے۔ مگر ہم اس مسئلے کے بارے میں ایک اور پہلو سے کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ جناب رسول اللہؐ کے بارے میں مذکورہ سینیٹر کا یہ جملہ اس کا اپنا نہیں بلکہ ایک درآمدی فقرہ ہے جو مغرب کے نظریہ ساز کارخانوں میں ڈھلا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۷ نومبر ۱۹۹۸ء

اسلام کا نظامِ حکومت اور رائے عامہ

اسلام کے سیاسی نظام کے حوالے سے ’’جمہوریت‘‘ کی نفی کرنے والے حضرات بھی عام طور پر ادھوری بات کہتے ہیں جس سے کنفیوژن پیدا ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ یہ بات تو کہہ دیتے ہیں کہ مغربی جمہوریت کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے لیکن اس کے ساتھ یہ وضاحت نہیں کرتے کہ خود اسلام میں حکومت کی تشکیل کا اصول کیا ہے اور حکومت کے قیام اور اسے چلانے میں رائے عامہ کو کیا مقام حاصل ہے؟ چنانچہ اس سلسلہ میں ایک دو اصولی باتیں قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کو جی چاہتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۱ نومبر ۱۹۹۸ء

قبائلی علاقہ جات اور شرعی قوانین

پاکستان کی شمالی مغربی سرحد کے ساتھ ساتھ آزاد قبائل کو ایک عرصہ سے یہ منفرد حیثیت حاصل ہے کہ ان کا نظام اور کلچر باقی ملک کے لوگوں سے مختلف ہے۔ فرنگی حکمرانوں کے دور میں یہ ’’آزاد علاقہ‘‘ کہلاتا تھا اور افغانستان اور روس سے فاصلہ قائم رکھنے کے لیے ’’بفر زون‘‘ کا کام دیتا تھا۔ جبکہ قیام پاکستان کے بعد بھی اس کی اس حیثیت میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں آئی اور پاکستان کا حصہ ہونے کے باوجود اس خطہ کا انتظامی اور عدالتی نظام ملک کے دیگر حصوں سے جداگانہ ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۹ نومبر ۱۹۹۸ء

قرآن کریم اور پاکستان کا تعلق

قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور تحریک پاکستان کے دیگر قائدین نے قیام پاکستان سے پہلے اور بعد اپنی بیسیوں تقاریر و بیانات میں اس کا اظہار کیا۔ بلکہ ایک موقع پر قائد اعظمؒ سے پوچھا گیا کہ پاکستان کا دستور کیا ہوگا تو انہوں نے واضح طور پر کہا کہ پاکستان کا دستور ہمارے پاس پہلے سے قرآن کریم کی شکل میں موجود ہے اور وہی ہمارے دستور و قانون کی بنیاد ہوگا۔ اس کے ساتھ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ قرآن کریم جس طرح چودہ سو سال قبل سیاسی و معاشرتی حوالہ سے قابل عمل تھا اسی طرح وہ آج بھی قابل عمل ہے اور ہماری راہنمائی کرتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۳ مارچ ۲۰۱۶ء

مولانا محمد عبد اللہ شہیدؒ

مولانا محمد عبد اللہؒ اسلام آباد کی مرکزی جامع مسجد (لال مسجد) کے خطیب کی حیثیت سے سرکاری ملازم تھے اور ان کا عہدہ وفاقی حکومت کے ایڈیشنل سیکرٹری کے برابر بتایا جاتا ہے۔ لیکن ان کی یہ حیثیت دینی اور ملی معاملات میں ان کی حق گوئی میں کبھی حائل نہیں ہوئی۔ وہ صاف گو اور حق گو عالم دین تھے اور جس بات کو صحیح سمجھتے تھے اس کے اظہار میں کوئی خوف، مصلحت یا لالچ ان کی راہ میں کبھی رکاوٹ نہیں بن سکی۔ وہ تحفظ ختم نبوت اور نفاذ شریعت کی جدوجہد میں ہمیشہ پیش پیش رہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۵ اکتوبر ۱۹۹۸ء

حدیث نبویؐ کی ترویج میں مسلم خواتین کی خدمات

مولانا محمد اکرم ندوی انڈیا سے تعلق رکھنے والے ایک محقق عالم دین ہیں جو آکسفورڈ سنٹر فار اسلامک اسٹڈیز میں ایک عرصہ سے علمی و تحقیقی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ ان سے پہلی ملاقات اچانک اور عجیب انداز میں ہوئی۔ پانچ سال قبل کی بات ہے جب راقم الحروف نے لندن جانے کے لیے تاشقند کا راستہ اختیار کیا، ازبک ائیرلائن سفر کا ذریعہ تھی، تاشقند میں چار پانچ روز گزارنے کے بعد جب تاشقند کے بین الاقوامی ہوائی اڈے سے لندن کے لیے روانہ ہوا تو ایئرپورٹ پر اسی قسم کے حالات کا سامنا کرنا پڑا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۹ اکتوبر ۱۹۹۸ء

ایرانی سفیر کے طالبان حکومت سے چار مطالبات

اگر طالبان کی حکومت اپنے دعوؤں کے مطابق افغان عوام کو امن اور خوشحالی کی منزل سے ہمکنار کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو یہی وقتی طور پر بدنامی کا باعث بننے والی سخت پالیسیاں اپنے نتائج کے لحاظ سے باقی دنیا کے لیے بھی قابل تقلید بن سکتی ہیں۔ اور اگر خدانخواستہ طالبان اپنے دعوؤں کو عملی جامہ نہ پہنا سکے تو تاریخ کے عجائب گھر میں ابھی بہت سے خانے خالی ہیں، کسی ایک میں وہ بھی فٹ ہو جائیں گے۔ لیکن اس کا فیصلہ ہونے میں ابھی کچھ وقت درکار ہے جس کا سب کو حوصلے کے ساتھ انتظار کرنا چاہیے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۷ ستمبر ۱۹۹۸ء

دعوتِ اسلام کا فریضہ اور اس کے تقاضے

اس خطۂ زمین میں اسلام کی دعوت و تبلیغ کا عمل حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ اور حضرت سید علی ہجویریؒ جیسے عظیم صوفیاء کرام کا ورثہ ہے۔ ان مشائخِ امت نے محبت اور اخلاق کے ذریعے اسلام کا پیغام اس سرزمین کے باشندوں تک پہنچایا اور لاکھوں پیاسے دلوں کو سیراب کر گئے۔ مگر بدقسمتی سے اس روایت کا تسلسل قائم نہ رہا اور ہم مسلمانوں نے صدیوں تک جنوبی ایشیا میں سیاست اور اقتدار پر اپنی گرفت کو ہی سب کچھ سمجھتے ہوئے محبت اور کردار کے ذریعہ اسلام کی دعوت و تبلیغ کی بساط لپیٹ کر ایک طرف رکھ دی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۲ ستمبر ۱۹۹۸ء

قرآن و سنت کی بالادستی کا دستوری سفر

قرآن و سنت کو ملک کا سپریم لاء قرار دینے کا فیصلہ اعلیٰ ایوانوں میں اس سے قبل بھی ایک سے زائد بار ہو چکا ہے لیکن اصل مسئلہ موجودہ نو آبادیاتی سسٹم کا ہے کہ اس نے اس فیصلہ کو کبھی ایک خاص حد سے آگے بڑھنے کا موقع نہیں دیا۔ اور جب بھی قرآن و سنت کی بالادستی کے کسی فیصلے نے یہ ’’ریڈ لائن‘‘ کراس کرنے کی کوشش کی وہ کسی نہ کسی جال میں پھنس کر رہ گیا۔ اس سلسلہ میں سب سے پہلا اقدام ’’قرارداد مقاصد‘‘ کی منظوری کا تھا جو پاکستان کے پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خان مرحوم نے دستور ساز اسمبلی سے منظور کرائی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۷ ستمبر ۱۹۹۸ء

Pages


2016ء سے
Flag Counter