مقالات و مضامین

شریعت کا نفاذ کیوں ضروری ہے؟

مجھے جس موضوع پر اظہارِ خیال کی دعوت دی گئی ہے اس کے تین حصے ہیں: (۱) ایک یہ کہ شریعت کیا ہے؟ (۲) دوسرا یہ کہ اس کے نفاذ کی ضرورت کیوں محسوس کی جا رہی ہے؟ (۳) اور تیسرا یہ کہ اس کے نفاذ کا طریق کار کیا ہوگا؟ جہاں تک شریعت کا تعلق ہے، یہ بات واضح ہے کہ قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام و فرامین کو شریعت کہا جاتا ہے اور قرآن و سنت سے مستنبط احکام شریعت کہلاتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی آج کے دور میں ایک سوال کیا جاتا ہے کہ شریعت کے بارے میں آپ کا وژن کیا ہے؟ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۹ جون ۲۰۰۹ء

سوہدرہ ڈکیتی کیس اور ڈی آئی جی کا مستحسن اقدام

چوہدری محمد رمضان نے سوہدرہ ڈکیتی کیس کے مدعی نیاز علی پر تشدد کر کے اصل واقعات چھپانے پر مجبور کرنے کے الزام میں سی آئی اے سٹاف گوجرانوالہ کے انسپکٹر محمد اسلم جوڑا سمیت پولیس کے ۶۸ افسروں اور اہل کاروں کو لائن حاضر کر دیا ہے۔ سوہدرہ ڈکیتی کیس کے سلسلہ میں ڈی آئی جی پولیس کا یہ اقدام اس لحاظ سے مستحسن اور اطمینان بخش ہے کہ کیس کی انکوائری صحیح رخ پر آگے بڑھتی ہوئی نظر آتی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۰ مارچ ۱۹۷۸ء

قرآن کریم کی بے حرمتی کا افسوسناک واقعہ ‒ قادیانی اور آئین

گزشتہ دنوں سرکاری ذرائع سے یہ خبر قومی اخبارات میں شائع ہوئی ہے کہ تخریب کاروں کے خلاف پولیس کی مہم کے دوران قرآنِ کریم کی بے حرمتی کا یہ افسوسناک سانحہ سامنے آیا ہے کہ کچھ بدبخت عناصر نے قرآن کریم کے نسخوں کو اندر سے کاٹ کر ان میں بارود بھرا اور پھر ان نسخوں کو بعض اہم شخصیات کو پیش کرنے کا پروگرام بنایا۔ اس ضمن میں اخبارات اور ٹیلی ویژن کے ذریعے قرآن کریم کے کٹے ہوئے نسخے کی نمائش بھی کی گئی ہے اور ملک کے طول و عرض میں اس المناک واقعہ پر احتجاج اور غم و غصہ کے اظہار کا سلسلہ جاری ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۵ مارچ ۱۹۸۲ء

نفاذِ شریعت کی جدوجہد فیصلہ کن موڑ پر

متحدہ شریعت محاذ پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ کا ایک اہم اجلاس ۷ جون ۱۹۸۷ء کو محاذ کے مرکزی دفتر واقع گڑھی شاہو لاہور میں صبح دس بجے منعقد ہو رہا ہے جس میں ۲۷ رمضان المبارک تک ’’شریعت بل‘‘ منظور نہ ہونے کی وجہ سے متحدہ شریعت محاذ پاکستان کے پہلے سے اعلان شدہ پروگرام کے مطابق حکومت کے خلاف ’’راست اقدام‘‘ کی تحریک کا عملی طریقِ کار طے کیا جائے گا۔ اس سے قبل ۶ جون کو جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ کا اجلاس منعقد ہو رہا ہے اور اس اجلاس میں زیربحث آنے والے امور میں بھی اہم ترین مسئلہ راست اقدام کی تحریک کا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۵ جون ۱۹۸۷ء

’’مجدد زماں‘‘ کا فتنہ

کچھ دنوں سے اخبارات میں ’’سحر‘‘ نامی ایک پندرہ روزہ کے اشتہارات شائع ہو رہے ہیں جن میں بعض قومی قائدین کی موت اور لاہور سمیت کچھ شہروں کی تباہی کی پیش گوئیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ اب تک ہم اسے مزاحیہ قسم کا کوئی جریدہ سمجھتے رہے ہیں جو اس قسم کی حرکات سے مارکیٹ میں اپنی جگہ بنانے کی کوششوں میں مصروف ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۴ مارچ ۱۹۷۸ء

ہمارے دینی مدارس — مقاصد، جدوجہد اور نتائج

دینی مدارس کے تعلیمی سال کا آغاز ہو چکا ہے اور ملک بھر کے دینی مدارس کے اساتذہ اور طلبہ سالانہ تعطیلات گزارنے کے بعد اپنے تعلیمی سفر کے نئے مرحلہ کا آغاز ماہِ گزشتہ کے وسط میں کر چکے ہیں۔ ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ان ہزاروں دینی مدارس کا تعلق مختلف مذہبی مکاتبِ فکر سے ہے اور ہر مذہبی مکتب فکر کے دینی ادارے اپنے اپنے مذہبی گروہ کے تشخص و امتیاز کا پرچم اٹھائے نئی نسل کے ایک معتد بہ حصہ کو اپنے نظریاتی حصار اور فقہی دائروں میں جکڑنے کے لیے شب و روز مصروف عمل ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جولائی ۱۹۹۰ء

ربوہ کا نام اور مولانا اللہ وسایا

ربوہ کے نام کی تبدیلی اور ’’نواں قادیاں‘‘ کی تجویز کے حوالہ سے راقم الحروف کے ایک کالم پر مجلس تحفظ ختم نبوت کے راہنما مولانا اللہ وسایا نے اظہار خیال فرمایا ہے اور بعض دوستوں نے اپنے خطوط میں تقاضا کیا ہے کہ مولانا موصوف نے اپنے مضمون میں جو نکات اٹھائے ہیں ان پر میں بھی اظہار خیال کروں۔ جہاں تک مولانا کے لہجے میں تلخی کا تعلق ہے اس کے بارے میں کچھ عرض کرنا ضروری نہیں سمجھتا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۵ جنوری ۱۹۹۹ء

ملتان، احمد شاہ ابدالی کا شہر

ملتان ایک پرانا اور تاریخی شہر ہے جس کا ذکر قبل از مسیح دور کی تاریخ میں اسی نام سے ملتا ہے اور تاریخ کی بہت سی یادیں اس شہر سے وابستہ ہیں۔ خلافت بنو امیہ کے دور میں جب اسلامی فوجیں ۴۴ھ میں سجستان اور مکران پر قابض ہوئیں تو مسلم کمانڈر ابن المہلبؒ کے بارے میں تذکرہ ملتا ہے کہ وہ آگے بڑھتے ہوئے ملتان تک پہنچا لیکن اس شہر پر قبضہ نہ کر سکا۔ اس کے بعد جب سندھ کے راجہ داہر کے خلاف محمد بن قاسمؒ کی قیادت میں اسلامی فوجوں نے یلغار کی اور سندھ کو فتح کرتے ہوئے محمد بن قاسمؒ نے پیش قدمی جاری رکھی تو ۹۵ھ میں اس نے ملتان کا محاصرہ کر لیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۱ اگست ۲۰۰۲ء

آکسفورڈ سنٹر فار اسلامک اسٹڈیز

گزشتہ ہفتے کے دوران برطانیہ کے دو مسلم اداروں میں جانے کا اتفاق ہوا۔ ایک لیسٹر کی اسلامک فاؤنڈیشن اور دوسرا آکسفورڈ کا اسلامک سنٹر۔ اسلامک فاؤنڈیشن لیسٹر کے قریب مارک فیلڈ کے مقام پر پاکستان کے معروف دانشور پروفیسر خورشید احمد کی سربراہی میں مصروف کار ہے اور ڈاکٹر مناظر حسن ڈائریکٹر کی حیثیت سے اس کے انتظامی معاملات چلا رہے ہیں۔ فاؤنڈیشن مختلف اسلامی موضوعات پر یورپی زبانوں میں لٹریچر کی اشاعت کے ساتھ ساتھ یہاں کے لوگوں کے لیے اسلامی عنوانات پر تربیتی کورسز کا اہتمام کرتی ہے اور علمی و تحقیقی کاموں میں پیش پیش ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۳ ستمبر ۱۹۹۷ء

تعلیمی نصاب ۔ اسلامی کانفرنس کا معذرت خواہانہ موقف

مکہ مکرمہ میں منعقدہ مسلم سربراہ کانفرنس کے حالیہ غیر معمولی اجلاس کے فیصلوں میں ایک اعلان یہ بھی تھا کہ مسلم ممالک اپنے اپنے نصاب تعلیم میں تبدیلی کریں گے۔ ہمارا خیال یہ تھا کہ مسلم دنیا سائنس اور ٹیکنالوجی میں معاصر اقوام سے بہت پیچھے رہ گئی ہے اور اس کوتاہی کی گزشتہ دو صدیوں سے خوفناک سزا بھگت رہی ہے، اس سلسلہ میں ہمارے حکمرانوں کو کچھ احساس ہوگیا ہوگا اور انہوں نے باہم مل بیٹھ کر یہ طے کیا ہوگا کہ اس کی تلافی کے لیے کوئی راستہ اختیار کیا جائے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۰ دسمبر ۲۰۰۵ء

’’جنگجو اسلام‘‘ اور امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ

امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستانی عوام کی ۸۲ فیصد اکثریت شریعت اسلامیہ کے قانون کو ملکی قانون کا درجہ دینے کے حق میں ہے۔ ایک قومی روزنامہ میں شائع ہونے والی تفصیلات کے مطابق امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے حالیہ فوجی انقلاب سے تین ماہ قبل ایک پاکستانی ادارہ کے ذریعے کراچی، سکھر، لاہور، اسلام آباد، راولپنڈی، پشاور اور کوئٹہ میں سروے کا اہتمام کرایا۔ رائے عامہ کا سروے کرنے والے اس ادارے نے جو اعداد و شمار مرتب کیے انہیں امریکی ڈیپارٹمنٹ نے ۲۲ اکتوبر کو رپورٹ کی صورت میں شائع کیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۶ دسمبر ۱۹۹۹ء

مغربی کلچر کا نقطۂ عروج

گزشتہ دنوں امریکی ریاست ورماؤنٹ کے حوالہ سے ایک خبر شائع ہوئی کہ وہاں کی عدالت عظمیٰ نے ایک فیصلہ میں ہم جنس پرست جوڑے کو قانونی طور پر میاں بیوی کی حیثیت دیتے ہوئے حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ ہم جنس پرست جوڑے کے طور پر اکٹھے رہنے والے افراد کے لیے ان حقوق اور تحفظات کی فراہمی کو یقینی بنائے جو قانونی طور پر میاں بیوی کو حاصل ہوتے ہیں۔ اس سے چند ہفتے قبل ایک برطانوی عدالت کا یہ فیصلہ بھی منظر عام پر آچکا ہے کہ ہم جنس پرست جوڑے کے ایک فرد کے انتقال کے بعد دوسرے شخص کو قانونی طور پر اپنے ساتھی کا وارث تسلیم کیا جائے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۰ دسمبر ۱۹۹۹ء

دیت کی ادائیگی اور بیت المال

جسٹس آصف سعید کھوسہ پر مشتمل فاضل عدالت نے اپنے فیصلہ میں لکھا ہے کہ دستور کے آرٹیکل نمبر ۵۴۴ کے تحت کسی بھی شخص کو دیت کی رقم ادا نہ کرنے پر زیادہ سے زیادہ چھ ماہ تک قید میں رکھا جا سکتا ہے، اس لیے پنجاب کی جیلوں میں اپنی قید کی سزا پوری کرنے کے بعد چھ ماہ سے زیادہ عرصہ گزارنے والے قیدیوں کو رہا کر دیا جائے۔ اور اگر یہ قیدی اپنے وسائل سے دیت کی رقم ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے تو وہ زکوٰۃ فنڈ یا بیت المال سے یہ رقم ادا کریں، اس طریقے سے نہ صرف مقتول کے ورثاء مطمئن ہوں گے بلکہ معاشرہ میں امن و امان بھی قائم ہوگا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۹ اگست ۲۰۰۲ء

سزائے موت کی معافی ۔آئینی اور اسلامی نقطۂ نظر

محترمہ بے نظیر بھٹو مرحومہ کی سالگرہ کے موقع پر وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی طرف سے سزائے موت کے قیدیوں کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کرنے کا اعلان ملک بھر کے دینی حلقوں میں زیر بحث ہے اور اس کے مختلف پہلوؤں پر اظہار خیال کا سلسلہ جاری ہے۔ اس کا یہ پہلو بطور خاص اجاگر کیا جا رہا ہے کہ شاید وزیراعظم کی طرف سے اس سلسلہ میں صدر کو بھیجی جانے والی سمری میں سزائے موت کو ختم کرنے کے لیے بھی کہا گیا ہے جس سے پاکستان کے قانونی نظام میں سزائے موت کو کلیۃً ختم کیا جانا مقصود ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲ جولائی ۲۰۰۸ء

پاکستان پیپلز پارٹی کا تحفظ ختم نبوت سیمینار

ماہ ستمبر کے دوران ملک بھر میں جہاں وطن عزیز کے جغرافیائی دفاع و استحکام کے حوالہ سے مختلف تقریبات اور پروگراموں کا اہتمام ہوا وہاں تحفظ ختم نبوت کے عنوان سے بھی ملک کے نظریاتی دفاع و استحکام کے فروغ کے موضوع پر متنوع تقریبات منعقد کی گئیں۔ 6 ستمبر کو 1965ء کی جنگ کی یاد میں ’’یوم دفاع‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے جبکہ 7 ستمبر کو ’’یوم فضائیہ‘‘ کے علاوہ ’’یوم تحفظ ختم نبوت‘‘ کا عنوان بھی دیا جاتا ہے کیونکہ اس روز 1974ء میں پارلیمنٹ نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا تاریخی دستوری فیصلہ کیا تھا۔ مجھے اس حوالہ سے دو تقریبات میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی ۔ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۶ ستمبر ۲۰۱۷ء

امن فارمولا یا مطالبات کا ون وے ٹریفک

ہمارے ہاں یہ روایت بن گئی ہے کہ ہر سال محرم الحرام کے آغاز سے ایک ماہ قبل ہی ضلعی سطح پر امن کمیٹیوں کے اجلاس شروع ہو جاتے ہیں اور بیشتر اضلاع کے حُکام کو یہ فکر لاحق ہو جاتی ہے کہ کسی طرح محرم الحرام آرام سے گزر جائے اور ان کے ضلع میں سُنی شیعہ کشیدگی کسی فساد یا خونریزی کا باعث نہ بن جائے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

مئی ۱۹۹۷ء

شرعی عدالتیں اور نوائے وقت

روزنامہ نوائے وقت لاہور کے مراسلات کے کالم میں چونیاں کے محترم نور احمد کا ایک مراسلہ شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے جمعیۃ علماء اسلام کی طرف سے شرعی عدالتوں کے قیام کے فیصلے کو حسن نیت او رخلوص پر مبنی قرار دیتے ہوئے دو وجوہ سے اسے ناقابل عمل اور سادہ لوحی کا شکار ہونے کے مترادف قرار دیا۔ ان کا ارشاد ہے کہ (۱) کوئی حکومت وقت اپنے مقابلے میں متوازی نظام کو قطعاً برداشت نہیں کر سکتی خواہ وہ نظام صحیح ہی کیوں نہ ہو۔ (۲) جمعیۃ علماء اسلام کے پاس کوئی ایسی قوت نہیں کہ وہ شرعی عدالت کے فیصلوں پر عملدرآمد کرا سکے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۶ جنوری ۱۹۷۶ء

کمیونزم کا خطرہ اور ہمارا موجودہ نظام

روزنامہ نوائے وقت کی ۱۷ اپریل کی اشاعتِ ملی میں ’’کمیونزم اور سوشلزم کے سبز باغ‘‘ کے عنوان سے منشی عبد الرحمان خان صاحب کا مضمون نظر سے گزرا جس میں بعض باتیں اگرچہ مبالغہ آمیز ہیں، مثلاً مصر کے صدر ناصر مرحوم کے بارے میں یہ لکھا گیا ہے کہ انہوں نے سوشلزم کے خلاف فتوے دینے سے علماء ازہر کو حکماً روک دیا، جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ ناصر مرحوم کے دورِ حکومت میں مصر میں ’’کمیونسٹ پارٹی‘‘ مسلسل خلاف قانون رہی اور روسی وزیراعظم مسٹر خروشچیف اپنے دورۂ مصر کے موقع پر بار بار اصرار کے باوجود ناصر مرحوم کو کمیونسٹ پارٹی پر عائد پابندی ہٹانے پر آمادہ نہ کر سکے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۹ مئی ۱۹۸۰ء

نظام شریعت کنونشن کے اہم گوشے

جمعیۃ علماء اسلام کے زیر اہتمام دو روزہ نظامِ شریعت کنونشن گزشتہ شب بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوا۔ کنونشن میں پنجاب، سرحد، سندھ، بلوچستان اور آزادکشمیر سے کم و بیش دس ہزار مندوبین نے شرکت کی جن میں علماء کرام، وکلاء، طلباء اور ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد شامل تھے۔ کنونشن کا اعلان ۲۸ و ۲۹ اپریل کو مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاس منعقدہ ملتان کے بعد کیا گیا تھا۔ مولانا مفتی محمود نے صوبائی حکومت سے بھی رابطہ قائم کیا مگر آخر وقت تک انتظامیہ نے شیرانوالہ باغ میں کنونشن کے انعقاد کی اجازت دینے یا نہ دینے کے بارے میں مجلس استقبالیہ کو کوئی باضابطہ جواب نہیں دیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۱ اکتوبر ۱۹۷۵ء

عدالتِ شرعیہ کا کنونشن

گزشتہ ہفتہ لاہور کے دینی و سیاسی حلقوں میں خاصی گہماگہمی رہی، حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب صاحب دامت برکاتہم مہتمم دارالعلوم دیوبند کی تشریف آوری اور ماہنامہ الرشید کے ’’دارالعلوم دیوبند نمبر‘‘ کی افتتاحی تقریب سے اس گہماگہمی کا آغاز ہوا۔ اور جمعیۃ علماء اسلام کی مجلس شوریٰ کے دو روزہ اجلاس اور شرعی عدالتوں کے دو روزہ کنونشن کے بعد قائد جمعیۃ مولانا مفتی محمود کی پریس کانفرنس تک یہ سرگرمیاں جاری رہیں۔ جمعیۃ علماء اسلام کے زیراہتمام شرعی عدالتوں کے قاضیوں کا دو روزہ کنونشن گزشتہ روز مدرسہ قاسم العلوم شیرانوالہ گیٹ لاہور میں منعقد ہوا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۹ اپریل ۱۹۷۶ء

عدالتِ شرعیہ کے لیے طریق کار

واضح رہے کہ اہل اسلام و اہل دین، جو اپنے تنازعات اور جھگڑوں کو اسلامی اور شرعی نقطۂ نظر سے طے کرانا چاہتے ہیں، ہر دو فریق اپنی مرضی سے عدالت شرعیہ کو حکم اور ثالت تسلیم کریں گے۔ اور تحریری طور پر حسب ضابطہ ثالثی نامہ شرعی عدالت میں پیش کریں گے جس میں یہ ذکر ہوگا کہ شریعت کا فیصلہ ہمیں بہرصورت منظور رہے گا۔ اس کے بعد شرعی عدالتیں ان تنازعات و مقدمات کو فیصلہ کے لیے قبول کریں گی۔ عدالت شرعیہ کا وجود صرف عامۃ المسلمین کے باہمی اختلافات اور تنازعات کے ختم کرنے کے لیے قائم کیا گیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۹ اپریل ۱۹۷۶ء

جمعیۃ علماء اسلام، تاریخ کے پس منظر میں

جمعیۃ علماء اسلام حق پرست علماء اور دین دار کارکنوں کی ایسی تنظیم ہے جس کی فکری بنیاد علماء کے شاندار ماضی اور اہل حق کے مجاہدانہ کردار پر ہے۔ جمعیۃ علماء اسلام اپنی موجودہ ہیئت و حیثیت میں دراصل اسی قافلۂ حق و صداقت اور کاروانِ عزمِ وفا کا ایک حصہ ہے جس نے برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش میں فرنگی حکومت و نظام کے خلاف جرأت مندانہ جنگ لڑی، اور اب فرنگی حکومت سے آزادی حاصل کر لینے کے بعد فرنگی نظام سے چھٹکارا حاصل کرنے اور اس کی جگہ اسلام کا عادلانہ نظام نافذ و رائج کرنے کی مقدس جدوجہد میں مصروف ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳ فروری ۱۹۷۸ء

اراکان کے مسلمان اور بنگلہ دیش کا موقف

روہنگیا مسلمانوں کی مظلومیت اور بے بسی آہستہ آہستہ عالمی رائے عامہ اور بین الاقوامی اداروں کی توجہ حاصل کر رہی ہے اور ان کی داد رسی و حمایت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل، امریکی اور برطانوی وزرائے خارجہ، ہیومن رائٹس واچ کمیشن، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر عالمی اداروں اور شخصیات کی زبانوں پر اب میانمار میں کٹنے جلنے والے مسلمانوں کے حق میں کلمۂ خیر بلا جھجھک آنے لگا ہے۔ جبکہ ہمیں سب سے زیادہ اطمینان اس سلسلہ میں بنگلہ دیش کی پیش رفت سے حاصل ہوا ہے اس لیے کہ اس مسئلہ پر فطری طور ترتیب اور راستہ یہی بنتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۰ ستمبر ۲۰۱۷ء

’’ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو؟‘‘

نیویارک سے شائع ہونے والے اردو جریدے ہفت روزہ ’’نیویارک عوام‘‘ نے ستمبر ۲۰۰۷ء کے پہلے شمارے میں امریکی فوج کے چیف آف اسٹاف جنرل ارج کیسی کی ایک تقریر کی رپورٹ شائع کی تھی جس میں انہوں نے نیشنل گارڈ ایسوسی ایشن کی ایک سو انتیسویں کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’انتہا پسند مسلمانوں کے خلاف شروع کی گئی نظریاتی جنگ کئی عشروں تک جاری رہ سکتی ہے اور یہ جنگ اس وقت تک نہیں جیتی جا سکتی جب تک اعتدال پسند مسلمان انتہا پسند مسلمانوں پر بالادستی حاصل نہ کر لیں۔‘‘ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۹ نومبر ۲۰۰۷ء

ڈاکٹر روون ولیمز کا بیان اور اسلامی شرعی قوانین

برطانیہ میں پروٹسٹنٹ فرقے کے سربراہ آرچ بشپ آف کنٹربری ڈاکٹر روون ولیمز کا یہ بیان عالمی سطح پر موضوع بحث بنا ہوا ہے کہ برطانیہ میں رہنے والے مسلمانوں کو خاندانی معاملات اور مالیاتی مسائل میں اپنے شرعی قوانین پر عمل کا حق ملنا چاہیے اور اس مقصد کے لیے اسلامی شرعی قوانین کو ملک کے قانونی نظام کا حصہ بنایا جانا چاہیے۔ اس سلسلہ میں جو تفصیلات مختلف اخبارات کے ذریعے سامنے آئی ہیں ان کے مطابق ڈاکٹر روون کا کہنا ہے کہ نکاح و طلاق اور وراثت وغیرہ جیسے خاندانی معاملات میں اسلام کے شرعی احکام پر عمل کرنا مسلمانوں کا حق ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۷ مارچ ۲۰۰۸ء

مولانا منظور احمد چنیوٹی کا عرب ممالک کا دورہ

جمعیۃ علماء اسلام کے راہنما مولانا منظور احمد چنیوٹی خوش قسمت ہیں کہ عقیدۂ ختم نبوت کے ساتھ والہانہ عقیدت کے باعث انہیں عرب ممالک میں اس مشن کی خدمت اور حرمین شریفین کی بار بار زیارت کا موقع ملتا رہتا ہے اور اس ضمن میں ان کی خدمات وقیع ہیں۔ جن دنوں پاکستان میں تحریک ختم نبوت جاری تھی مولانا موصوف سعودی عرب میں تھے اور تحریک کے عالمی سفیر کے طور پر اس محاذ پر کام کر رہے تھے جس کی اجمالی رپورٹ قارئین ترجمان اسلام میں پڑھ چکے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۵ اپریل ۱۹۷۵ء

متحدہ جمہوری محاذ کی دو سالہ جدوجہد

متحدہ جمہوری محاذ کے باعزم رہنما ہدیۂ تبریک کے مستحق ہیں کہ اس دور میں بھی جمہوری اقدار کی سربلندی اور ملکی سالمیت کے تحفظ کی جدوجہد میں مصروف ہیں جبکہ حکمران پارٹی اپنے اقتدار کو مضبوط اور شخصی آمریت کو مستحکم کرنے کی خاطر تمام سیاسی، اخلاقی اور جمہوری حدود و قیود کو خیرباد کہہ چکی ہے۔ محب وطن سیاسی رہنماؤں کے خلاف سرکاری ذرائع ابلاغ کا مکروہ پراپیگنڈا اور پولیس و فیڈرل فورس کے وحشیانہ مظالم ہٹلر اور مسولینی کی روح کو بھی شرما رہے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۶ جون ۱۹۷۵ء

آزادیٔ مساجد و مدارس اور علماء کا موقف

وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ مولانا مفتی محمود ایم این اے نے ۱۰ نومبر ۱۹۷۶ء کو راولپنڈی میں وفاق کی مجلس شوریٰ اور دیگر مکاتیب فکر کے ذمہ دار علماء کرام کا ایک مشترکہ کنونشن طلب کیا ہے جس میں مساجد و مدارس کی آزادی و خودمختاری کو بعض سرکاری اقدامات سے درپیش خطرات کا جائزہ لیا جائے گا اور ان خطرات کے سدباب کے لیے مشترکہ لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔ اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مساجد و مدارس کی آزادی و خودمختاری کے بارے میں علماء کرام کے موقف پر ایک سرسری نگاہ ڈال لی جائے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۹ نومبر ۱۹۷۶ء

کل جماعتی آزادیٔ مساجد و مدارس کنونشن ۔ اہم فیصلے اور قراردادیں

وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ حضرت مولانا مفتی محمود ایم این اے کی دعوت پر آزادیٔ مساجد و مدارس کے سوال پر غور و خوض کے لیے مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام کا ایک بھرپور کنونشن ۱۰ نومبر ۱۹۷۶ء کو صبح ۱۰ بجے جامعہ حنفیہ عثمانیہ ورکشاپی محلہ راولپنڈی میں وفاق المدارس کے نائب صدر حضرت مولانا عبد الحق ایم این اے اکوڑہ خٹک کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ کنونشن میں ملک کے چاروں صوبوں سے دیوبندی، بریلوی اور اہل حدیث مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے ایک سو کے قریب مندوبین نے شرکت کی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۹ نومبر ۱۹۷۶ء

الیکشن اور خان عبد القیوم خان

وفاقی وزیرداخلہ خان عبد القیوم خان ان دنوں جس انداز سے چہچہا رہے ہیں اس سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ آئندہ انتخابات کے لیے ’’ڈمی اپوزیشن‘‘ کو سامنے لانے کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں ورنہ خان عبد القیوم خان اور حکومت پر تنقید! لا حول ولا قوۃ الا باللہ۔ بہرحال خان موصوف اور حکمران گروہ کے درمیان اس ’’نورا کشتی‘‘ میں بسا اوقات کچھ راز کی باتیں بھی منظر عام پر آجاتی ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۷ دسمبر ۱۹۷۶ء

سیاسی جماعتوں کی تعداد ۔ حکومت اور قومی راہنماؤں کی توجہ کے لیے

اگر ہمارے ہاں سیاسی عمل تسلسل کے ساتھ آزادانہ طور پر جاری رہتا تو تین چار عام انتخابات کے بعد ملک گیر سطح پر عوام سے منظم رابطہ رکھنے والی تین چار سیاسی جماعتیں خود بخود سامنے آجاتیں اور بے عمل و غیر منظم سیاسی گروپ عملی سیاست سے ’’ناک آؤٹ‘‘ ہو جاتے۔ لیکن بد قسمتی سے ایسا نہیں ہوا اور چند عہدہ داروں، منشور، دستور، ایک آدھ دفتر اور سیاسی بیانات کی کاغذی دیواروں پر قائم ہونے والی بے شمار پارٹیاں ’’برساتی کھمبیوں‘‘ کی طرح نمودار ہوتی چلی گئیں جس کا عملی نتیجہ یہ ہے کہ قومی درد رکھنے والے سیاسی کارکنوں کی ایک بڑی تعداد سیاسی گروپوں میں بٹ کر رہ گئی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۷ اپریل ۱۹۷۸ء

گریڈ سسٹم نہیں پورا انتظامی ڈھانچہ!

صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے گزشتہ روز پاکستان انجینئرنگ کونسل کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے گریڈ سسٹم کی خرابیوں کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ تنخواہوں میں گریڈ سسٹم کی وجہ سے ملازمین کی توجہ صرف گریڈ پر رہ گئی ہے اور ملک کو اس سے بہت نقصان پہنچا ہے۔ گریڈ سسٹم کی موجودہ صورت دراصل مختلف محکموں میں تنخواہوں کے تفاوت کو ایک دائرہ میں لانے کے لیے طے کی گئی تھی اور تنخواہوں کے بے شمار معیاروں کو ختم کر کے ۲۲ گریڈ قائم کیے گئے تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲ اپریل ۱۹۸۲ء

برمی مسلمانوں کی حالت زار

بعض اخباری اطلاعات کے مطابق برما میں مسلمانوں پر عرصۂ حیات ایک بار پھر تنگ کر دیا گیا ہے اور انہیں وحشیانہ مظالم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ رابطہ عالم اسلامی کے تین کونسلروں نے برمی حکومت کے نام ایک عرضداشت میں مطالبہ کیا ہے کہ برمی مسلمانوں کا قتل عام فورًا بند کیا جائے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۸ اپریل ۱۹۷۸ء

ہزارہ میں انسدادِ سود پر چند اجتماعات

اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ’’یمحق اللہ الربوا ویربی الصدقات‘‘ اللہ تعالیٰ سود کے ذریعہ رقم کو بے برکت اور ڈی ویلیو کر دیتے ہیں جبکہ صدقہ کی صورت میں رقم کی قدروقیمت میں اضافہ ہوتا ہے۔ بے برکتی کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں: مثلاً مال کسی نقصان میں ضائع ہو جائے، بے مقصد کاموں پر خرچ ہو جائے، یا وہ کام جو کم مال خرچ کرنے سے ہو سکتے ہوں ان پر زیادہ مال خرچ ہو جائے وغیرہ۔ یوں سمجھ لیں کہ بے برکتی ہماری مصنوعی کرنسی کی طرح ہے کہ گنتی بڑھتی جاتی ہے مگر افادیت اور قدر مسلسل کم ہوتی چلی جاتی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵ ستمبر ۲۰۱۷ء

اسلام وکالت کا مخالف نہیں

پشاور ہائی کورٹ کے صدر جناب لطیف آفریدی اور بعض دیگر سرکردہ وکلاء کو مبینہ طور پر القاعدہ اور طالبان کی طرف سے دھمکی آمیز خطوط موصول ہوئے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ ’’وکالت یہودیوں کا پیشہ ہے، چھوڑ دو ورنہ مار دیں گے‘‘۔ اس پر رد عمل کے اظہار کے طور پر خبر میں بتایا گیا ہے کہ وکالت کا پیشہ یہودیوں کی میراث نہیں ہے اور اسلام میں وکالت کا پیشہ جائز ہے۔ یہ خبر یا خط عین اس وقت منظر عام پر آیا ہے جب ملک بھر کے وکلاء دستور کی بالادستی اور اعلیٰ عدالتوں کے معزول کیے جانے والے ججوں کی بحالی کے لیے تحریک کو منظم کر رہے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۶ جنوری ۲۰۰۸ء

اراکان کا مختصر تاریخی پس منظر

میانمر (برما) کے صوبہ اراکان کے مہاجر مسلمانوں کی ایک رفاہی تنظیم جمعیۃ خالد بن ولید الخیریہ کے علماء کا ایک وفد ان دنوں پاکستان کے مختلف شہروں میں اپنے مسلمان بھائیوں کو مظلوم اراکانی مہاجر مسلمانوں کی حالت زار کی طرف توجہ دلانے کے لیے سرگرم عمل ہے۔ اراکان مسلم اکثریت کی پٹی ہے جہاں کے مسلمان ایک عرصہ سے ریاستی جبر کا شکار ہو کر اپنے بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں لیکن کوئی بین الاقوامی ادارہ حتیٰ کہ مسلم حکومتیں بھی رسمی لیپاپوتی سے ہٹ کر ان کے مسائل کے حل کی طرف توجہ دینے کے لیے تیار نہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۲ ستمبر ۲۰۰۹ء

نومسلموں سے مسلمانوں کا سلوک

میں اس وقت اسکاٹ لینڈ کے دارالحکومت ایڈنبرا کے قریب ایک بستی ڈنز میں اپنے بھانجے ڈاکٹر سبیل رضوان کے گھر میں بیٹھا یہ سطور لکھ رہا ہوں۔ اس سے قبل دو روز میں نے گلاسگو میں گزارے اور مختلف احباب سے ملاقات کے علاوہ دو تین اجتماعات سے خطاب بھی کیا۔ ۶ اپریل کی شب ڈاکٹر رضوان مجھے گلاسگو سے لے کر گھر پہنچے تو رات کے دو بج چکے تھے اور میرا پروگرام یہ تھا کہ ظہر تک کا وقت ان کے پاس گزار کر واپس گلاسگو جاؤں گا تاکہ شام نو بجے برمنگھم کے لیے فلائٹ پکڑ سکوں جس کے لیے میں نے سیٹ بک کروا رکھی تھی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۳ و ۲۴ مئی ۲۰۰۸ء

اراکان اور کشمیر میں مماثلت

میانمار (برما) کی حکمران پارٹی کی سربراہ آنگ سان سوچی نے بھارتی خبر رساں ایجنسی اے این آئی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت اور میانمار کو ایک جیسے مسائل کا سامنا ہے کہ روہنگیا (اراکان) اور کشمیر کے تنازعات ملتے جلتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جس طرح بھارت کو کشمیر میں دہشت گردی کا سامنا ہے اسی طرح ہمیں بھی روہنگیا میں مسلمانوں کی طرف سے دہشت گردی کا معاملہ درپیش ہے۔ آنگ سان سوچی نے تو یہ بات بھارتی حکمرانوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے کی ہے جو ایک مفروضہ سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۲ ستمبر ۲۰۱۷ء

مسئلہ قادیانیت، دینی جماعتوں کے مطالبات

۹ جون کو مدرسہ قاسم العلوم اندرون شیرانوالہ گیٹ لاہور میں علماء کرام، مشائخ عظام اور سیاسی راہنماؤں کے مشترکہ کنونشن میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ (۱) قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے، (۲) کلیدی آسامیوں سے قادیانیوں کو الگ کیا جائے، (۳) ربوہ کو کھلا شہر قرار دے کر مسلمانوں کو وہاں بسنے کی جازت دی جائے، (۴) واقعہ ربوہ کے سلسلہ میں مرزا ناصر احمد اور دیگر ذمہ دار افراد کو فی الفور گرفتار کیا جائے۔ کنونشن میں ان مطالبات کے لیے پر امن تحریک چلانے کی غرض سے ’’آل پارٹیز ختم نبوت ایکشن کمیٹی‘‘ کے قیام کا بھی فیصلہ کیا گیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۴ جون ۱۹۷۴ء

علامہ شبیر احمدؒ عثمانی ‒ افسر شاہی کے کرشمے ‒ اخباری کاغذ کا بحران ‒ پیپلز پارٹی کی مہم

حکومت ہر سال تحریک پاکستان کے راہنماؤں کے ایامِ ولادت اور برسیوں پر ان کی خدمات کو منظرِ عام پر لانے کا اہتمام کرتی ہے اور اخبارات و جرائد ان مواقع پر خصوصی اشاعتوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ یومِ ولادت یا برسی منانے کی شرعی پوزیشن سے قطع نظر دورِ حاضر کی ایک روایت اور حکومت و اخبارات کی اخلاقی ذمہ داری کے نقطۂ نظر سے یہ شکوہ بجا ہے کہ تحریک پاکستان کے سربرآوردہ قائد شیخ الاسلام علامہ شبیر احمدؒ عثمانی کی اٹھائیسویں برسی کے موقع پر نہ تو ریڈیو اور ٹی وی نے کوئی پروگرام نشر کیا اور نہ قومی اخبارات و جرائد نے ان پر کوئی خصوصی اشاعت حتیٰ کہ مضمون تک شائع کیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۰ دسمبر ۱۹۷۷ء

جمعیۃ علماء اسلام اور امام ولی اللہ کا انقلابی اسلامی پروگرام

تحریک آزادیٔ ہند میں کانگریس اور مسلم لیگ سمیت دوسری جماعتیں ایک عرصہ تک صرف داخلی خودمختاری اور آئینی مراعات کے مطالبات پر اکتفا کیے ہوئے تھیں لیکن بہت جلد ان کو جمعیۃ علماء ہند کی طرح مکمل آزادی کے اسٹیج پر آنا پڑا ۔۔۔ اور پھر جب پاکستان کے قیام کی تحریک چلی تو اگرچہ ولی اللہی پارٹی کے سرکردہ ارکان قیام پاکستان کے مخالف تھے اور جمعیۃ علماء ہند نے کھلم کھلا اس کی مخالفت کی تھی، لیکن اس فیصلہ سے اختلاف کر کے تحریک پاکستان کے کیمپ میں شامل ہونے والے عظیم راہنما علامہ شبیر احمدؒ عثمانی بھی ولی اللہی گروہ سے ہی تعلق رکھتے تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۸ فروری ۱۹۷۵ء

کراچی کا فساد ‒ ریڈیو اور ٹیلی ویژن ‒ پاور لومز کی صنعت

جناب رسالتمآبؐ کی ولادت باسعادت کے مقدس دن کراچی میں جو کچھ ہوا وہ انتہائی افسوسناک ہے اور ہر شہری ان افراد کے غم میں رنجیدہ ہے جو شر پسند عناصر کی غنڈہ گردی کا شکار ہوگئے۔ تا دمِ تحریر سامنے آنے والی تفصیلات کے مطابق اسے فرقہ وارانہ فساد کا نام دیا گیا ہے مگر قائد جمعیۃ حضرت مولانا مفتی محمود کا یہ ارشاد بالکل بجا ہے کہ حالیہ تحریک اور انتخابی مہم میں مختلف مکاتب فکر کی طرف سے باہمی اتحاد و اتفاق اور اعتماد و رواداری کا جو مثالی مظاہرہ دیکھنے میں آیا ہے اس کے پیش نظر کسی اشتعال کے بغیر فرقہ وارانہ فساد کی بات کچھ قرین قیاس معلوم نہیں ہوتی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳ مارچ ۱۹۷۸ء

فرقہ وارانہ کشیدگی اور ہماری ذمہ داری

اردن کے شاہ حسین نے گزشتہ دنوں ایک اخباری انٹرویو میں کہا ہے کہ ’’عالمِ اسلام میں شیعہ سنی تنازعات کو ہوا دینے کی مسلسل کوشش کی جا رہی ہے اور بین الاقوامی سطح پر سازشی عناصر اس سلسلہ میں مصروفِ عمل ہیں‘‘۔ اسلام میں ایک جائز حد کے اندر اختلافِ رائے کی افادیت و ضرورت کو تسلیم کیا گیا ہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس علمی اختلاف کو رحمت قرار دیا ہے۔ لیکن یہ اختلاف وہ ہے جو علمی مسائل میں جائز حدود کے اندر نیک نیتی سے دینی امور کی وضاحت کے لیے کیا جائے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۲ مارچ ۱۹۸۲ء

صحافت اور ذمہ داری ‒ بسوں کے کرایوں میں اضافہ

صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں ذمہ دارانہ صحافت پر کوئی پابندی نہیں ہے اور نہ ہی مستقبل میں کوئی پابندی عائد کرنے کا ارادہ ہے۔ اخبارات کو چاہیے کہ وہ ایک عظیم مشن اور سماجی خدمت کے جذبے کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کریں اور اپنے پیشہ وارانہ مفادات کا لحاظ رکھتے ہوئے عوام کی مثبت خطوط پر رہنمائی کریں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۹ اپریل ۱۹۸۲ء

ایرانی عوام کی جدوجہد

برادر پڑوسی ملک ایران کے عوام ایک عرصہ سے شہنشاہیت کے خاتمہ کے لیے نبرد آزما ہیں، ان کی پرجوش تحریک کی قیادت علامہ آیت اللہ خمینی اور علامہ آیت اللہ شریعت سدار جیسے متصلب شیعہ راہنماؤں کے ہاتھ میں ہے اور اس تحریک میں علماء و طلباء کے علاوہ خواتین، مزدور، ملازمین اور دوسرے طبقے بھی سرگرم دکھائی دیتے ہیں۔ ہزاروں ایرانی اس وقت تک اس جدوجہد میں اپنی جانوں پر کھیل چکے ہیں اور تحریک کی شدت کا یہ عالم مکمل تحریر

۱۵ دسمبر ۱۹۷۸ء

گلگت بلتستان کا اصل مسئلہ کیا ہے؟

ستمبر کے آخر میں بلتستان کے پانچ روزہ سفر کے دوران مجھے گلگت بلتستان کو داخلی خودمختاری کے پیکیج کے تحت صوبائی درجہ دینے کے بارے میں مختلف طبقات کے لوگوں سے گفت و شنید کا موقع ملا، ان میں علماء کرام بھی ہیں، سیاسی جماعتوں کے رہنما بھی ہیں، صحافی حضرات بھی ہیں اور انتظامیہ و عدلیہ کے بعض اعلیٰ افسران بھی شامل ہیں۔ ان حضرات کے تاثرات ملے جلے ہیں، حمایت کرنے والے لوگ بھی موجود ہیں اور مخالفت کرنے والوں کی کمی بھی نہیں، جبکہ حمایت کے باوجود تحفظات رکھنے والے حضرات بھی اچھی خاصی تعداد میں پائے جاتے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۱ اکتوبر ۲۰۰۹ء

پاکستان، امریکی مفاد کی کڑی؟

جہاں تک امریکہ کی فوجی امداد کی بحالی کا تعلق ہے، اگر امریکہ پاکستان کی امداد بحال کر دے تو اس سے پاکستان کو دفاعی ضروریات پوری کرنے اور برصغیر میں طاقت کا توازن برقرار رکھنے میں یقیناً مدد ملے گی۔ لیکن اس امداد کے پس منظر میں ڈاکٹر کیسنجر کے ریمارکس کے پیش نظر ہم اس خدشہ کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ شاید ایک بار پھر پاکستان کی خارجہ پالیسیوں کے گرد استعماری زنجیروں کا حلقہ تنگ کیا جا رہا ہے اور امریکہ کی طرف سے فوجی امداد کی یہ بحالی اس سلسلہ کی ایک کڑی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۴ اکتوبر ۱۹۷۴ء

پارلیمنٹ کا فیصلہ اور قادیانیوں کے عزائم

قادیانیت کے سلسلہ میں پارلیمنٹ کے فیصلہ کو ایک ماہ گزر چکا ہے لیکن ابھی تک نہ تو اس فیصلہ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ضروری اقدامات کا آغاز ہوا ہے اور نہ ہی قادیانی گروہ نے اس فیصلہ کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ مرزا ناصر احمد نے گزشتہ دنوں ربوہ میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے آئین میں واضح ممانعت کے باوجود اپنے دادا کی نبوت کا پرچار جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے اور ’’خدا کی بشارتوں‘‘ کے حوالے سے کہا ہے کہ میں جنوری تک اس فیصلہ کے بارے میں کوئی ردعمل ظاہر نہیں کروں گا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۸ اکتوبر ۱۹۷۴ء

حضرت مولانا مفتی محمودؒ کی وفات پر تعزیتی قرارداد

مجلس شوریٰ کے اجلاس میں قائد محترم حضرت مولانا مفتی محمود نور اللہ مرقدہ کو شاندار خراجِ عقیدت پیش کیا گیا۔ شرکائے اجلاس نے پرنم آنکھوں اور مضطرب دلوں کے ساتھ قائد مرحوم کے مشن پر کاربند رہنے کا عزم کرتے ہوئے ان کے درجات کی بلندی کے لیے دعا کی اور اس موقع پر انتہائی رقت انگیز فضا میں مندرجہ ذیل قرارداد کے ذریعہ حضرت مفتی اعظم رحمہ اللہ تعالیٰ کی دینی، سیاسی اور علمی خدمات پر انہیں خراج عقیدت پیش کیا گیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۹ دسمبر ۱۹۸۰ء

علماء کا سیاست میں حصہ لینا کیوں ضروری ہے؟

آج کل ایک گمراہ کن غلطی عام طور پر ہمارے معاشرہ میں پائی جاتی ہے کہ علماء اسلام کو ملکی سیاست میں حصہ نہیں لینا چاہیے بلکہ مساجد میں بھی صرف نماز، روزہ اور حج وغیرہ عبادات و اخلاقیات ہی کی بات کرنی چاہیے۔ اس کے علاوہ ملکی معاملات پر گفتگو کرنا اور عام لوگوں کے سیاسی مسائل میں دلچسپی لینا علماء کے لیے غیر ضروری بلکہ نامناسب ہے۔ یہ غلط فہمی سامراج اور اس کے آلۂ کار افراد نے اتنے منظم طریقہ سے پھیلائی ہے کہ آج سامراجی نظام اس غلط فہمی کے سہارے مساجد و مدارس دینیہ میں سیاسیات کے تذکرہ کو روکنے کے لیے قانونی اقدامات کی طرف بڑھنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۴ جولائی ۱۹۷۵ء

Pages