مقالات و مضامین

نفاذ اسلام کی جدوجہد کا ایک ناگزیر تقاضا

گزشتہ دنوں راقم الحروف نے آزادکشمیر میں عدالتی سطح پر شرعی قوانین کے نفاذ کے سلسلہ میں اب تک کی پیش رفت کے حوالہ سے کچھ گزارشات پیش کی تھیں اور ان میں جمعیۃ علماء اسلام آزاد کشمیر کے سربراہ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یوسف خان آف پلندری کی خدمات کا تذکرہ کیا تھا۔ اس ضمن میں مولانا موصوف کا گرامی نامہ موصول ہوا ہے جس کا اہم حصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۹ اکتوبر ۲۰۰۰ء

مولانا محمد سعید الرحمان علویؒ اور دیگر مرحومین

میرے پرانے ساتھی اور معروف صاحب قلم مولانا محمد سعید الرحمان علویؒ گزشتہ روز اچانک حرکت قلب بند ہو جانے سے انتقال کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم مجلس احرار اور جمعیۃ علمائے اسلام کے بزرگ راہنما حضرت مولانا محمد رمضان علویؒ کے فرزند تھے۔ مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں کئی سال تک طالب علمی کے دور میں ان سے رفاقت رہی، بعض اسباق میں ہم سبق بھی تھے، مطالعہ و تحریر کا ذوق طالب علمی کے دور میں ہی نمایاں تھا اور فراغت کے بعد ہفت روزہ خدام الدین، ترجمان اسلام اور چٹان میں ایک عرصہ تک کام کرتے رہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

نومبر ۱۹۹۴ء

مالاکنڈ ڈویژن میں نفاذ شریعت کی جدوجہد اور دینی جماعتوں کی افسوسناک سردمہری

نفاذ شریعت کا مطالبہ کرنے والوں کے طریق کار سے اختلاف کی گنجائش کے باوجود اس جدوجہد کی حمایت اور پشت پناہی ملک کی دینی قوتوں کی ذمہ داری ہے۔ اس حوالہ سے ملک کی دینی جماعتوں اور نفاذ شریعت کی دعوے دار قوتوں کا کردار قطعی طور پر غیر تسلی بخش رہا ہے، وہ ذہنی تحفظات کے خول میں بند رہیں اور اخباری بیانات کے ذریعہ اس ’’جہاد‘‘ میں شرکت کر کے مطمئن ہوگئیں کہ انہوں نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔ اس طرز عمل نے عوام کی مایوسی میں اضافہ کیا ہے جو ہمارے نزدیک بہت بڑا نقصان ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

دسمبر ۱۹۹۴ء

حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ

جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے امیر حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ گزشتہ روز طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کی عمر 100 برس کے لگ بھگ تھی اور وہ 1962ء سے جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے امیر چلے آرہے تھے۔ مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ جنہیں پاکستان کے دینی و علمی حلقوں میں حضرت درخواستیؒ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، عالم اسلام کی ممتاز علمی شخصیات میں شمار ہوتے تھے اور جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے ساتھ بے پناہ شغف اور بے شمار احادیث زبانی یاد ہونے کے باعث انہیں حافظ الحدیث کے لقب سے پکارا جاتا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

نومبر ۱۹۹۴ء

’’دروس الحدیث‘‘

اس وقت ہمارے سامنے ’’دروس الحدیث‘‘ کی تین جلدیں ہیں جو ’’مسند امام احمد بن حنبلؒ‘‘ کی ساڑھے چھ سو سے زائد روایات پر مشمل ہیں جبکہ ان کی مجموعی ضخامت ایک ہزار صفحات کے لگ بھگ ہے۔ یہ تینوں جلدیں عمدہ کتابت و طباعت اور مضبوط جلد کے ساتھ مزین ہیں۔ حضرت صوفی صاحب مدظلہ کا اندازِ بیان عام مجالس میں سادہ اور عام فہم ہوتا ہے اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ دقیق علمی اور تحقیقی مباحث سے گریز کرتے ہوئے سامعین کو زندگی کے مختلف شعبوں کے بارے میں مسائل و احکام ذہن نشین کرائے جائیں، یہ رنگ دروس الحدیث میں بھی جھلکتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

فروری مارچ ۱۹۹۵ء

مسلم ممالک میں ریاستی جبر کا شکار دینی تحریکات

عالمی سطح پر کمیونزم اور مغربی جمہوریت کی سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد ایک نئی سرد جنگ کا آغاز ہوگیا ہے جس میں ایک طرف عالم اسلام کی دینی تحریکات ہیں جو مسلم معاشرہ میں قرآن و سنت کے احکام و قوانین کی مکمل عملداری کے لیے سرگرم عمل ہیں اور دوسری طرف دنیا بھر کی غیر مسلم اور مسلم حکومتیں اور لابیاں ہیں جو اسلامی بیداری کی تحریکات کو بنیاد پرست، جنونی اور کٹرپن کی حامل قرار دے کر ان کی مخالفت اور کردار کشی کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

نومبر ۱۹۹۴ء

کچھ حزب التحریر کے بارے میں

ان دنوں برطانیہ کے قومی ذرائع ابلاغ میں ’’حزب التحریر‘‘ کا تذکرہ چل رہا ہے اور 7 اگست 1994ء کو ویمبلے کانفرنس ہال لندن میں حزب التحریر کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی ’’بین الاقوامی خلافت کانفرنس‘‘ کے حوالہ سے مختلف امور زیر بحث ہیں۔ اس کانفرنس میں برطانیہ بھر سے ہزاروں مسلمانوں نے شرکت کی جن میں یونیورسٹیوں کے طلبہ اور طالبات نمایاں تھے جس سے یہ تاثر عام ہوا کہ حزب التحریر کو برطانیہ کے پڑھے لکھے مسلمانوں میں گہرا اثر و رسوخ حاصل ہے۔ اسی وجہ سے سیاسی و مذہبی حلقوں میں حزب التحریر سنجیدہ گفتگو کا موضوع بنی ہوئی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اکتوبر ۱۹۹۴ء

فرزندِ جھنگویؒ اور جمعیۃ علماء اسلام

مولانا مسرور نواز جھنگوی کی الیکشن میں بھاری اکثریت سے کامیابی اور اس کے بعد جمعیۃ علماء اسلام میں شمولیت کا اعلان دونوں اچھی اور حوصلہ افزا خبریں ہیں جن پر دینی حلقوں میں خوشی کا اظہار کیا جا رہا ہے اور جھنگ کی صورتحال میں اس تبدیلی کا خیرمقدم کیا جا رہا ہے۔ ہمارے جذبات بھی اس حوالہ سے یہی ہیں اور ہم اپنے عزیز محترم مولانا مسرور نواز کو مبارک باد دیتے ہوئے خوشی محسوس کر رہے ہیں۔ موصوف کے ساتھ کوئی ملاقات تو یاد نہیں ہے مگر ان کے والد محترم حضرت مولانا حق نواز جھنگوی شہیدؒ کے ساتھ ایک عرصہ تک ملاقاتیں اور دینی جدوجہد میں رفاقت رہی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۹ دسمبر ۲۰۱۶ء

وطنِ عزیز کے کلیدی مناصب اور مذہبی طبقات کے خدشات

جنرل قمر جاوید باجوہ کی آرمی چیف کے طور پر تقرری کے اعلان کے ساتھ ہی ملک کے مختلف حصوں سے فون آنا شروع ہوگئے جو ان کا گکھڑ کے ساتھ تعلق ہونے کی وجہ سے تھے۔ چونکہ میرا آبائی قصبہ بھی گکھڑ ہے اس لیے بعض دوستوں نے مبارکباد دی جبکہ بعض حضرات نے اس شبہ اور تشویش کا اظہار کیا کہ کہیں وہ قادیانی تو نہیں ہیں؟ مجھے یہ بات پہلی بار اسی موقع پر معلوم ہوئی کہ جنرل موصوف کا تعلق میرے آبائی شہر سے ہے، ان سے تو ذاتی تعارف نہیں ہے لیکن گکھڑ کی باجوہ فیملی کو جانتا ہوں جس کے بعض حضرات ہمارے ساتھی اور دوست بھی ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳ دسمبر ۲۰۱۶ء

عالم اسلام یا پاکستان میں ایک روز عید کے امکانات

عید الفطر اس سال بھی پاکستان میں ایک دن نہیں منائی جا سکی کیونکہ صوبہ سرحد کے اکثر علاقوں میں باقی ملک سے ایک دن پہلے منائی گئی ہے۔ اس پر مختلف حلقوں میں بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری ہے اور ایسا ہر سال ہوتا ہے کہ عید کے چند روز تک بحث و مباحثہ جاری رہتا ہے لیکن اس حوالہ سے کوئی ٹھوس عملی پیش رفت ہوئے بغیر خاموشی طاری ہو جاتی ہے۔ اس سلسلہ میں چند اصولی باتوں کا تذکرہ مناسب معلوم ہوتا ہے جن سے قارئین کو موجودہ صورتحال کا پس منظر سمجھنے میں کچھ آسانی ہوگی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۶ جنوری ۲۰۰۰ء

مسلم پرسنل لاء اور موجودہ عالمی صورتحال

اس کے ساتھ میں یہ بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ مسلم ممالک میں غیر مسلموں کو پرسنل لاء میں جداگانہ تشخص فراہم کیا گیا ہے۔خود پاکستان کے دستور میں ان کا یہ حق تسلیم کیا گیا ہے اور سب سے پہلے علماء کرام نے 22 متفقہ دستوری نکات میں اس اصول کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا کہ پرسنل لاء میں تمام اقلیتوں کو اپنے مذہبی احکام پر عمل کرنے کی آزادی ہوگی۔ اس لیے جب پاکستان میں عیسائی اقلیت اور دیگر اقلیتوں کو یہ حق دینے سے انکار نہیں کیا گیا تو برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک میں مسلمانوں کا یہ حق تسلیم کرنے میں بھی کوئی حجاب نہیں ہونا چاہیے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۱ اگست ۱۹۹۹ء

آل پارٹیز ختم نبوت کانفرنس کے مطالبات

کانفرنس سے مولانا سمیع الحق نے کہا کہ اصل بات امریکہ کے تسلط سے نجات حاصل کرنے کی ہے کیونکہ جب تک غلامی کا یہ طوق ہماری گردن سے نہیں اترتا اس قسم کے جزوی مسائل پیدا ہوتے رہیں گے اور ہم ان کے حل میں لگے رہیں گے۔ اصل مسئلہ قومی آزادی کی بحالی کا ہے اور ہمیں عالمی استعمار سے مکمل آزادی اور خودمختاری حاصل کرنے کے لیے ایک نئی جنگِ آزادی کا آغاز کرنا ہوگا۔ راقم الحروف نے اس طرف توجہ دلائی کہ عقیدۂ ختم نبوت کے علاوہ اور مسائل بھی بیرونی دباؤ کی زد میں ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲ جون ۲۰۰۲ء

توہین رسالت کا قانون: فرحت اللہ بابر کے جواب میں

یہ بات درست ہے کہ عام آدمی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور کسی مولوی صاحب کا لوگوں کو اشتعال دلا کر کسی کے قتل پر آمادہ کرنا اس سے بھی زیادہ سنگین جرم ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر اس کے ساتھ عام مسلمانوں کے جذبات کے خلاف بین الاقوامی اداروں کی مہم، مغربی ممالک کی طرف سے گستاخان رسولؐ کی پشت پناہی، اور ملک کے عدالتی نظام پر بے اعتمادی کے عوامل کو بھی پیش نظر رکھا جائے تو صرف قانون کو ہاتھ میں لینے والوں کو تنہا مجرم قرار دینا کسی طرح بھی قرین انصاف نہیں ہوگا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲ اگست ۲۰۰۲ء

اللہ تعالیٰ اپنے دین کی اشاعت کے اسباب خود پیدا کرتا ہے

مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ کی تاریخ کا سب سے زیادہ قابل ذکر باب یہ ہے کہ شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کے والد محترم شیخ حبیب اللہ مرحوم نے، جو گکھڑ کے قریب بستی جلال کے رہنے والے تھے، اسی مسجد میں مولانا سراج الدین احمدؒ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا تھا۔ اسی زمانہ میں گکھڑ کے قریب دو بستیوں ترگڑی اور تلونڈی کھجور والی کے دو اور غیر مسلم بھی مشرف بہ اسلام ہوئے۔ ایک کا نام شیخ عبد الرحیمؒ ہے جو ضلع گوجرانوالہ کے معروف صنعتکار الحاج سیٹھی محمد یوسف مرحوم (راہوالی گتہ مل والے) کے والد محترم تھے، وہ ترگڑی کے رہنے والے تھے اور ہندو تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۷ مارچ ۲۰۰۲ء

تنزانیہ کے حکمران خاندان کا قبولِ اسلام

مالیر کوٹلہ (بھارت) سے مولانا مفتی فضیل الرحمان ہلال عثمانی کی زیر ادارت شائع ہونے والے دینی جریدہ ماہنامہ دارالسلام نے مئی 2000ء کے شمارہ میں افریقہ کے مسلم اکثریت رکھنے والے ملک تنزانیہ کے سابق صدر جولیس نریرے اور ان کے خاندان کے قبول اسلام کے واقعہ اور اس کے پس منظر پر جناب منظور الحق آف کامٹی کی رپورٹ شائع کی ہے جو انہی کے الفاظ میں قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵ جون ۲۰۰۰ء

بسنت کے بارے میں حکومتِ پنجاب کا موقف

ہمیں حیرت پنجاب کے ایڈووکیٹ جنرل مقبول انور ملک صاحب کے اس ارشاد پر ہوتی ہے کہ انہیں بسنت پر پابندی لگانے کے لیے کوئی قانون نہیں مل رہا۔ اس کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ ان کے سامنے شریعت اسلامیہ کے قوانین نہیں ہیں۔ ورنہ انہیں یہ بات معلوم ہوتی کہ فقہاء اسلام نے ’’سد ذرائع‘‘ کا ایک مستقل اصول بیان کیا ہے کہ جو چیز کسی غلط نتیجہ کا باعث بن رہی ہو اور جس سے کسی نقصان کا واضح خطرہ نظر آرہا ہو اسے جائز ہونے کے باوجود شرعاً ممنوع قرار دیا جا سکتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۹ فروری ۲۰۰۱ء

دینی نظامِ تعلیم ۔ اصلاحِ احوال کی ضرورت اور حکمتِ عملی

جنوبی ایشیا کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے جن دینی مدارس کے بارے میں آج ہم بحث و گفتگو کر رہے ہیں وہ اس وقت عالمی سطح کے ان اہم موضوعات میں سے ہیں جن پر علم و دانش اور میڈیا کے اعلیٰ حلقوں میں مسلسل مباحثہ جاری ہے۔ مغرب اور عالم اسلام کے درمیان تیزی سے آگے بڑھنے والی تہذیبی کشمکش میں یہ مدارس اسلامی تہذیب و ثقافت اور علوم و روایات کے ایسے مراکز اور سرچشموں کے طور پر متعارف ہو رہے ہیں جو مغربی تہذیب و ثقافت کے ساتھ کسی قسم کی مصالحت اور ایڈجسٹمنٹ کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۸ اگست ۲۰۰۰ء

دینی مدارس کو درپیش چیلنجز کے موضوع پر ایک اہم سیمینار

انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اسلام آباد نے ۳ اگست ۲۰۰۰ء کو ’’دینی مدارس اور درپیش چیلنجز‘‘ کے عنوان سے ایک مجلس مذاکرہ کا اہتمام کیا جس میں ملک کے منتخب ارباب علم و دانش نے شرکت کی اور دینی مدارس کے حوالہ سے مختلف پہلوؤں پر اظہار خیال کیا۔ مجلس مذاکرہ کی تین نشستیں ہوئیں۔ پہلی نشست کی صدارت اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر ایس ایم زمان، دوسری نشست کی صدارت قومی اسمبلی کے سابق رکن مولانا گوہر رحمان اور تیسری نشست کی صدارت نیشنل سکیورٹی کونسل کے رکن ڈاکٹر محمود احمد غازی نے کی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۷ و ۱۸ اگست ۲۰۰۰ء

مولانا مفتی عبد الباقی / مولانا منظور عالم سیاکھوی

گزشتہ ہفتہ کے دوران ورلڈ اسلامک فورم کے سرپرست اعلیٰ اور ویمبلڈن پارک لندن کی جامع مسجد کے خطیب حضرت مولانا مفتی عبد الباقی انتقال فرماگئے ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ کافی عرصہ سے فالج کے مریض تھے اور وفات کے وقت ان کی عمر ساٹھ برس سے زائد تھی۔ مفتی صاحب مرحوم کا تعلق صوبہ سرحد پاکستان کے ضلع مردان سے تھا، وہ حضرت السید مولانا محمد یوسف بنوریؒ کے معتمد شاگردوں میں شمار ہوتے تھے اور 1970ء کے لگ بھگ مولانا بنوریؒ ہی کے ارشاد پر لندن آگئے تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

ستمبر ۱۹۹۴ء

مولانا حکیم نذیر احمدؒ آف واہنڈو

ضلع گوجرانوالہ کے بزرگ عالم دین اور تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن مولانا حکیم نذیر احمدؒ 22 نومبر 1993ء کو واہنڈو میں انتقال کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کی عمر اَسی برس تھی اور زندگی کا بیشتر حصہ انہوں نے دین کی تعلیم و تبلیغ میں بسر کیا۔ مولانا حکیم نذیر احمدؒ کی ولادت 1913ء میں واہنڈو میں ہوئی، زمیندار گھرانے سے تعلق تھا۔ دینی تعلیم انہوں نے ہنجانوالی نامی گاؤں میں مولانا حافظ عبد الغفور صاحب سے حاصل کی جو اس زمانہ میں علاقہ میں دینی تعلیم کا ایک بڑا مرکز شمار ہوتا تھا اور اس درسگاہ کا تعلق اہل حدیث مکتب فکر سے تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جنوری ۱۹۹۴ء

صومالیہ، مشرقی افریقہ کا افغانستان

صومالیہ غلامی کے دور میں تین حصوں میں تقسیم تھا۔ ایک پر برطانیہ کی عملداری تھی، دوسرا حصہ فرانس کے قبضہ میں تھا، جبکہ تیسرے پر اٹلی کی آقائی کا پرچم لہرا رہا تھا۔ آزادی کے بعد برطانوی و صومالی لینڈ نے مشترکہ جمہوریت قائم کر لی جبکہ فرانسیسی صومالیہ بدستور الگ حیثیت رکھتا ہے۔ صومالیہ کا اکثر علاقہ بنجر ہے، کچھ حصہ کاشت ہوتا ہے، کیلا زیادہ پیدا ہوتا ہے، مویشیوں اور کھالوں کی تجارت بھی ہوتی ہے، اور اب کچھ معدنی ذخائر اور تیل کا سراغ لگا ہے جو ابھی تحقیقی و تجزیہ کے مراحل میں ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جنوری ۱۹۹۴ء

لاؤڈ اسپیکر اور علماء کرام

ان دنوں پاکستان کی وفاقی حکومت کے ایک مبینہ فیصلہ کے حوالہ سے لاؤڈ اسپیکر دینی حلقوں میں پھر سے موضوع بحث ہے اور لاؤڈ اسپیکر کی آواز کو مساجد کی چار دیواری کے اندر محدود کر دینے کے فیصلہ یا تجویز کو مداخلت فی الدین قرار دے کر اس کی پرجوش مخالفت کی جا رہی ہے۔ ایک دور تھا جب لاؤڈ اسپیکر نیا نیا متعارف ہوا تو مساجد میں اس کے استعمال کے جواز و عدم جواز اور نماز میں لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے سے امام کی آواز مقتدیوں تک پہنچنے کی شرعی حیثیت کی بحث چھڑ گئی تھی۔ ایک مدت تک ہمارے فتاوٰی اور علمی مباحث میں اس کا تذکرہ ہوتا رہا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جولائی ۱۹۹۴ء

کیا مولانا عبید اللہ سندھیؒ اشتراکیت سے متاثر ہوگئے تھے؟

مولانا عبید اللہ سندھیؒ بھی نادان دوستوں اور بے رحم ناقدوں کے اس طرز عمل سے محفوظ نہیں رہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس منفرد انقلابی مفکر کی وفات کو نصف صدی گزر جانے کے بعد بھی ہم اس کی فکر کو لے کر آگے بڑھنے کی بجائے تاریخ کے صفحات میں اسے تلاش اور دریافت کرنے کے مرحلہ میں ہی رکے ہوئے ہیں- مولانا عبید اللہ سندھیؒ کون تھے؟ برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش کی تاریخ میں ان کی جدوجہد اور کردار کی حیثیت کیا ہے؟ اور کیا وہ اپنے فکر و فلسفہ میں مغربی سرمایہ داری اور اشتراکیت کی عالمی کشمکش سے متاثر ہو کر فریق بن گئے تھے؟ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

ستمبر ۱۹۹۴ء

مولانا ظفر علی خان اور شورش کاشمیری کے صحافتی کردار کا تسلسل

مولانا محمد علی جوہرؒ کا ’’کامریڈ‘‘ اور مولانا ابوالکلام آزادؒ کا ’’الہلال‘‘ ایک دور میں ہماری ملی امنگوں اور جذبات کی علامت ہوا کرتے تھے۔ انہوں نے مسلمانوں میں ملی حمیت کا جذبہ بیدار رکھنے اور انہیں عالمی استعمار کی سازشوں سے خبردار کرنے میں جو کردار ادا کیا وہ تاریخ کا ایک ناقابل فراموش باب ہے۔ انہوں نے ملت اسلامیہ کو داخلی محاذ پر درپیش فتنوں کی طرف رخ نہیں کیا اور اپنی تمام تر توجہ خارجی محاذ پر مرکوز رکھی۔ مگر مولانا ظفر علی خانؒ اور شورش کاشمیریؒ نے داخلی محاذ پر بھی بھرپور کردار ادا کیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

یکم اکتوبر ۱۹۹۹ء

مسئلہ کشمیر اور سردار محمد عبد القیوم خان

گزشتہ کالم میں آزاد کشمیر کے سابق وزیراعظم سردار محمد عبد القیوم خان کے ساتھ ایک دو ملاقاتوں کے دوران ان کے ساتھ ہونے والی گفتگو میں قارئین کو شریک کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ سردار صاحب کے ساتھ میری ملاقاتوں کا سلسلہ بہت پرانا ہے۔ مظفر آباد کے اقتدار کے لیے ان کی آنکھ مچولی کی سیاست بسا اوقات میری سمجھ سے بالاتر ہو جاتی ہے لیکن آج کے سیاستدانوں کی مجموعی کھیپ کو سامنے رکھتے ہوئے دو حوالوں سے ان کا وجود غنیمت محسوس ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ وہ باخبر اور صاحب مطالعہ سیاست دان ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۰ جون و یکم جولائی ۲۰۰۰ء

چرچ آف انگلینڈ اور دوسری شادی کا حق

مسیحی حلقوں میں طلاق اور اس کے بعد شادی کا تصور ابھی تک مذہبی تعلیمات کے منافی سمجھا جا رہا ہے جس کی اس دور میں سب سے بڑی مثال برطانوی ولی عہد شہزادہ چارلس ہیں۔ چونکہ ان کے اور لیڈی ڈیانا کے درمیان تفریق طلاق کی وجہ سے ہوئی تھی اس لیے دوبارہ شادی کا معاملہ شہزادہ موصوف کے لیے الجھن کا باعث بنا ہوا ہے اور صحافتی حلقوں کی طرف سے اس تاثر کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اگر شہزادہ چارلس نے دوسری شادی کی تو انہیں چرچ کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا اور یہ مخالفت ان کے تخت و تاج کے استحقاق کے لیے خطرہ بن سکتی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۸ ستمبر ۱۹۹۹ء

مولانا مفتی محمد عیسٰی گورمانی اور دیگر مرحومین

حضرت مولانا مفتی محمد عیسیٰ خانؒ گورمانی، گوجرانوالہ۔ حضرت مولانا محمد یعقوبؒ ربانی، فاروق آباد، ضلع شیخوپورہ۔ مولانا محمد اسماعیل محمدیؒ، رانا ٹاؤن، شیخوپورہ۔ مولانا غلام رسول شوقؒ، کوٹلہ، ضلع گجرات۔ مولانا عبد الرؤفؒ، تھب، باغ، آزاد کشمیر۔ مکمل تحریر

۲۷ نومبر ۲۰۱۶ء

پرانا ریلوے اسٹیشن گوجرانوالہ کی مسجد کا معاملہ

وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق صاحب کی خدمت میں یکم اگست 2016ء کو رجسٹرڈ ڈاک سے میں نے ایک عریضہ ارسال کیا تھا جس کا مضمون یہ ہے۔ ’’گوجرانوالہ شہر میں پرانے ریلوے اسٹیشن کو گرا کر نئی عمارت تعمیر کی جا رہی ہے۔ اس سلسلہ میں آنجناب کو توجہ دلائی جا رہی ہے کہ ریلوے اسٹیشن میں گزشتہ تین عشروں سے ایک مسجد موجود ہے جس میں اردگرد بازار اور مارکیٹوں کے سینکڑوں لوگ پنج وقتہ نماز اور جمعۃ المبارک جماعت کے ساتھ ادا کرتے ہیں اور یہ مسجد اب بھی بارونق و آباد ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۲ نومبر ۲۰۱۶ء

ہماری پالیسیوں کی بنیاد اور حکمرانوں کی قلابازیاں

اب جب ملک کے عوام سڑکوں پر آئے ہیں تو حکمرانوں نے زبان بدل لی ہے کہ اگر پھانسی سے بڑی کوئی سزا ہو تو ہم گستاخ رسولؐ کو وہ سزا دینے کے لیے بھی تیار ہیں، جبکہ صدر محترم کا ارشاد ہے کہ اس قانون میں ترمیم کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ ہمارے ہاں حکمرانوں کی یہ قلابازیاں کوئی نئی بات نہیں ہے، اس کا مظاہرہ اس سے قبل بھی کئی مواقع پر ہو چکا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں پالیسیوں کی بنیاد لوگوں کے خوف پر ہے، باہر کے لوگوں کا خوف بڑھ جائے تو رخ ادھر ہو جاتا ہے اور اندر کے لوگوں کا خوف پریشان کرنے لگے تو پالیسیوں کا توازن اس طرف جھکنے لگتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اگست ۱۹۹۴ء

مسئلہ کشمیر پر قومی یکجہتی کے اہتمام کی ضرورت

حکومتی حلقوں اور اپوزیشن کی اس کشمکش سے قطع نظر بین الاقوامی پریس کا یہ تجزیہ بھی قابل توجہ ہے کہ قرارداد کے لیے جو محنت ضروری تھی پاکستان کی وزارت خارجہ اس کا اہتمام نہیں کر سکی حتیٰ کہ قرارداد کی حمایت میں مسلم ممالک سے روابط اور انہیں قائل کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی گئی جس کی وجہ سے انسانی حقوق کمیشن میں قرارداد کی منظوری کے امکانات مخدوش تھے اور پاکستان نے شکست سے بچنے کے لیے قرارداد کو واپس لینے یا موخر کرنے میں عافیت سمجھی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اپریل ۱۹۹۴ء

متوقع دستوری ترامیم ۔ ارکان پارلیمنٹ کے نام کھلا خط

اخباری اطلاعات کے مطابق وفاقی کابینہ کی خصوصی کمیٹی دستور کا تفصیلی جائزہ لے رہی ہے اور توقع کی جاتی ہے کہ پارلیمنٹ میں حکومت کی طرف سے چند روز تک آئینی ترامیم کا ایک نیا بل سامنے آنے والا ہے۔ اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ زیر بحث امور کے بارے میں دینی نقطۂ نظر سے چند ضروری گزارشات آپ کی خدمت میں پیش کی جائیں تاکہ پاکستان کے اسلامی تشخص اور دستور پاکستان کی نظریاتی بنیاد کے تحفظ کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے آپ پورے شعور و ادراک کے ساتھ اس اہم بحث میں شریک ہو سکیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جنوری ۱۹۹۴ء

مفتی اعظم سعودی عرب کا خطبہ حج اور او آئی سی

سعودی عرب میں آل سعود اور آل شیخ کی اصطلاحات عام طور پر دیکھنے سننے میں آتی ہیں۔ یہ دو خاندانوں کے نام ہیں۔ ایک حکمران خاندان ہے جو آل سعود کہلاتا ہے جبکہ دوسرا الشیخ محمد بن عبد الوہاب کا خاندان ہے جو آل شیخ کہلاتا ہے۔ سعودی مملکت کے قیام کے وقت سے ان دو خاندانوں میں شراکت اقتدار اور تعاون کا یہ معاہدہ چلا آرہا ہے کہ مذہبی اور عدالتی امور میں آل شیخ کی بالادستی ہے اور ان کے فیصلوں کو فوقیت حاصل ہوتی ہے جبکہ سیاسی و معاشی اور دیگر اجتماعی معاملات آل سعود کے کنٹرول میں ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

یکم مارچ ۲۰۰۲ء

سودی نظام کا کولہو اور اس کے بیل

جہاں تک نظام کو تبدیل کرنے کی صلاحیت کا تعلق ہے ہم اس صلاحیت سے محروم نہیں ہیں، ہم تو ایک فون کال پر پورے سسٹم میں ’’یو ٹرن‘‘ لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور نفع و نقصان کی پرواہ کیے بغیر اسے نباہنے اور بھگتنے کا حوصلہ بھی ہمارے اندر موجود ہے۔ اس لیے بات سسٹم کو تبدیل کرنے کی صلاحیت اور اس تبدیلی کے نقصانات برداشت کرنے کے حوصلہ کی نہیں ہے بلکہ اصل بات کچھ اور ہے۔ جب تک ہم اس بات کا پوری طرح ادراک کر کے اسے گرفت میں لانے کی کوشش نہیں کریں گے نو آبادیاتی استحصالی نظام کے ’’کولہو‘‘ کے گرد اسی طرح چکر کاٹتے رہیں گے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۹ جون ۲۰۰۲ء

سودی نظام اور سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ

سپریم کورٹ آف پاکستان کے شریعت ایپلیٹ بینچ نے ہر قسم کے سود اور سودی کاروبار کو قرآن و سنت سے متصادم اور غیر اسلامی قرار دے کر فیصلہ دے دیا ہے کہ سود اور سودی کاروبار کے بارے میں تمام مروجہ قوانین 31 مارچ 2000ء کو خودبخود ختم ہو جائیں گے۔ جسٹس خلیل الرحمان خان، جسٹس منیر اے شیخ، جسٹس وجیہہ الدین اور جسٹس مولانا محمد تقی عثمانی پر مشتمل ایپلیٹ بینچ نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلہ کے خلاف متعلقہ فریقوں کی اپیلوں کی طویل سماعت کے بعد یہ تاریخی فیصلہ صادر کیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲ جنوری ۲۰۰۰ء

اسلام میں شخصی اور تجارتی سود دونوں حرام ہیں

حکومتی حلقے موجودہ مالیاتی نظام کے تسلسل کو ہر حال میں باقی رکھنا چاہتے ہیں اور سودی قوانین کو اسلامی قوانین میں تبدیل کرنے کے لیے قطعاً تیار نہیں ہیں۔ اس کی غمازی اٹارنی جنرل آف پاکستان کے اس بیان سے بھی ہوتی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ہم ایسے علماء تلاش کر رہے ہیں جو سود کا شرعی طور پر جواز پیش کر سکیں۔ اس لیے اس سلسلہ میں اب تک ہونے والے اقدامات کی روشنی میں قیاس کیا جا سکتا ہے کہ حکومت عدالت عظمیٰ سے اس فیصلہ پر عملدرآمد کو غیر معینہ مدت تک ملتوی کرانے یا کم از کم مزید مہلت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۲ جون ۲۰۰۲ء

مسئلہ کشمیر : عالمی سازشیں، متحرک گروہ اور قابل قبول حل

البتہ مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں سازش، مفادات اور خیر خواہی کے عوامل میں فرق معلوم کرنے کے لیے ہمیں کوئی نہ کوئی حد فاصل اور اصول ضرور قائم کر لینا چاہیے اور میرے خیال میں اس سلسلہ میں دو نکتے کسوٹی کا کام دے سکتے ہیں اور انہیں بہرحال پیش نظر رکھنا چاہیے۔ پہلا یہ کہ جموں و کشمیر کی وحدت کا برقرار رہنا اس خطہ کے عوام کا تاریخی حق ہے، اس لیے جو فارمولا یا کوشش کشمیر کی وحدت کو ختم کرنے اور اس خطہ جنت نظیر کو تقسیم کرنے کے حوالہ سے ہو میرے نزدیک وہ کشمیری عوام کے خلاف سازش ہے اور ایسی ہر کوشش کو مسترد کرنا چاہیے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۸ جون ۲۰۰۰ء

اختلافات کا دائرہ اور اہلِ علم و دانش کا اسلوب

راجہ صاحب کے ساتھ اس گفتگو میں بنیادی طور پر دو نکات زیر بحث ہیں۔ ایک ’’مذہبی کج بحثی‘‘ کے حوالہ سے کہ راجہ صاحب کو شکایت ہے کہ مذہبی لوگوں میں برداشت اور دوسرے فریق کی رائے کے احترام کا مادہ کم ہوتا ہے جس سے مذہبی جھگڑے جنم لیتے ہیں اور مذہبی بحث و مباحثہ افہام و تفہیم کے ماحول کا باعث بننے کی بجائے تنازعات کی شدت میں اضافے کا سبب بن جاتا ہے۔ مجھے راجہ صاحب کی رائے سے اتفاق ہے لیکن ایک استثناء کے ساتھ کہ سب اہل دین اور اصحاب علم کے بارے میں یہ تاثر قائم کر لینا درست نہیں ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۲ مئی ۲۰۰۰ء

کیا شہدائے بالاکوٹ کا جہاد صرف سکھوں کے خلاف تھا؟

محترم راجہ انور صاحب نے تحریک آزادی، مجاہدین اور سید احمد شہیدؒ کے حوالہ سے پھر قلم اٹھایا ہے اور مختلف پہلوؤں پر اپنی معلومات اور تاثرات و خیالات کو قارئین کے سامنے رکھا ہے۔ راجہ صاحب کو ہم صاحب قلم، صاحب مطالعہ اور صاحب رائے دانشور سمجھتے ہیں اور انہیں تاریخی واقعات کا جائزہ لینے اور ان کے بارے میں اپنی رائے پیش کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔ لیکن کسی واقعہ یا تحریک کے بارے میں ایسا تاثر دینا کہ اس سے اس واقعہ یا تاریخ کا مجموعی تناظر ہی الٹ دیا جائے، تحقیق اور تجزیہ نگاری کے مسلمہ اسلوب اور معیار سے مطابقت نہیں رکھتا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۵ جولائی ۲۰۰۰ء

مغربی فلسفہ کی یلغار اور دینی صحافت کی ذمہ داریاں

برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش پر برطانوی تسلط کے خلاف جنگ آزادی میں مسلمانوں نے فیصلہ کن کردار ادا کیا اور جنگ آزادی کے آخری مراحل میں اسلامی فلسفہ حیات کی حکمرانی کے لیے پاکستان کے نام سے الگ ملک کا مطالبہ کر کے تقسیم ہند کی راہ ہموار کی، اس طرح دنیا کے نقشہ پر پاکستان کا وجود نمودار ہوگیا۔ لیکن پاکستان کے قیام کے بعد اس وطن عزیز میں اسلامی فلسفہ حیات کی حکمرانی قائم کرنے کے بجائے مغربی فلسفہ کو ہی منزل قرار دے لیا گیا اور ملک میں مغربی جمہوریت اور سولائزیشن کی حکمرانی یا قرآن و سنت کی بالادستی کے لیے ایک طویل کشکش کا آغاز ہوگیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

مئی ۱۹۹۴ء

قرارداد مقاصد اور اس کے تقاضے

قیام پاکستان کے بعد ملک کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں یہ سوال اٹھ کھڑا ہوا تھا کہ پاکستان کا دستور اسلامی ہوگا یا سیکولر؟ جن لوگوں نے پاکستان کی تحریک میں مسلمانوں کے لیے الگ مملکت کے قیام، جداگانہ مسلم تہذیب، دو قومی نظریہ، اسلامی احکام و قوانین پر مبنی اسلامی سوسائٹی کی تشکیل، اور پاکستان کا مطلب کیا لا الہٰ الا اللہ کے وعدوں و نعروں کی فضا میں ایک نئے اور الگ ملک کے شہری کی حیثیت سے نئی زندگی کا آغاز کیا تھا، ان کا تقاضہ و مطالبہ تھا کہ ملک کا دستور اسلامی ہو ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۴ فروری ۲۰۰۰ء

’’فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ یہود میں ہے‘‘

نیویارک ٹائمز کی 26 اکتوبر 2000ء کو شائع کردہ ایک خبر کے مطابق امریکی خاتون اول ہیلری کلنٹن نے دو مسلمان تنظیموں کی طرف سے انتخابی مہم کے لیے دی جانے والی رقوم واپس کرنے کا اعلان کیا ہے۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ ہیلری کلنٹن نے ان مسلمان تنظیموں کے عہدے داروں کے اسرائیل مخالف نظریات کی وجہ سے ایسا کیا ہے۔ امریکہ میں مسلمان خاصی تعداد میں آباد ہیں اور ان کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے بلکہ بعض رپورٹوں کے مطابق مسلمانوں کی تعداد امریکہ میں یہودیوں کے برابر ہوگئی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵ نومبر ۲۰۰۰ء

آزادیٔ کشمیر اور سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ

شاہ جی نے کہا کہ ’’کشمیر تو آپ اپنے ہاتھ سے دے چکے، اگر فائربندی کی بات نہ ہوتی تو ممکن ہے کوئی بات بن جاتی۔ مگر اب تو میری بات لکھ کر جیب میں ڈال لو کہ فرنگی اور ہندو اب آپ کو کشمیر نہیں دیں گے۔ ہاں اگر کبھی فرنگی کو ضرورت ہو کہ وہ اس مستقل فساد کو ختم کرنا چاہے تو ممکن ہے اس کا کچھ حصہ آپ کے پاس آجائے‘‘۔ شاہ جیؒ کا مطلب یہ تھا کہ جب 1948ء میں کشمیری مجاہدین اور ان کے ساتھ آزاد قبائل کے غیور مسلمان سری نگر اور پونچھ میں داخل ہو رہے تھے اس وقت جنگ جاری رکھنے کی بجائے سیز فائر قبول کر کے ہندوستان کو کشمیر پر مسلح قبضے کا موقع فراہم کیا گیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۷ جون ۲۰۰۱ء

صوفیائے کرام اور مجاہدین

راجہ صاحب نے صوفیاء کرام اور مجاہدین کے الگ الگ راستوں کی نشاندہی کی ہے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ مجاہدین کی طرح تلوار لہرا کر اسلام کا نعرہ لگانے کی بجائے صوفیاء کرام کی طرح خاموشی، محبت اور رواداری کے ساتھ اسلام کی دعوت دینا زیادہ مؤثر ہے۔ لیکن راجہ صاحب یہ تاریخی حقیقت نظر انداز کر گئے ہیں کہ صوفیاء کرام اور مجاہدین کا راستہ کبھی ایک دوسرے سے متضاد اور مختلف نہیں رہا، دونوں ایک دوسرے کے کام میں ہمیشہ معاون و مددگار رہے ہیں۔ میں اپنے اس دعویٰ کے ثبوت میں ہندوستان پر ہونے والے تین بڑے عسکری حملوں کا حوالہ دینا چاہوں گا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۶ مئی ۲۰۰۰ء

اسرائیل کے قیام کا مقصد اور ’’عرب منصوبہ‘‘

اس سے قبل جب سعودی ولی عہد شہزادہ عبد اللہ کی طرف سے 1967ء کے مقبوضہ علاقے خالی کر دینے کی صورت میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی پیشکش کی گئی تھی تو ہم نے اس کالم میں عرض کیا تھا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ سعودی عرب نے فلسطین کی تقسیم اور اسرائیل کے قیام کے لیے اقوام متحدہ کی اس قرارداد کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے جس سے سعودی عرب کے بانی شاہ عبد العزیز نے امریکی صدر ٹرومین کے نام اپنے 1948ء کے تحریر کردہ خط میں صاف طور پر انکار کر دیا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳ اپریل ۲۰۰۲ء

مسلم ممالک کا نصاب تعلیم اور بل کلنٹن کی ہدایات

جدہ میں اکنامک فورم سے خطاب کرتے ہوئے سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے اس کا ایک جملہ ایک قومی اخبار نے یوں نقل کیا ہے: ’’انہوں نے مسلمانوں پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے تعلیمی نظام میں عقیدے کی تلقین ختم کریں‘‘۔ اس بارے میں کچھ گزارشات گزشتہ کالم میں پیش کی جا چکی ہیں۔ 22 جنوری 2002ء کو ایک اور قومی اخبار نے جناب کلنٹن کے اس خطاب کی مزید تفصیلات شائع کی ہیں جن کے پیش نظر کچھ مزید معروضات ضروری محسوس ہوتی ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۸ جنوری ۲۰۰۲ء

علماء دیوبند کے بارے میں ایک غلط فہمی

راجہ انور صاحب محترم نے جنگ آزادی میں علماء دیوبند کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے یہ شکایت کی ہے کہ علماء دیوبند نے جدید سائنسی علوم کو استعماری سازش قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا۔ اور پھر انہوں نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ اسی وجہ سے علماء کے مقابلہ میں سرسید احمد خان مرحوم کی سوچ کو کامیابی ہوئی ہے اور زندگی کی دوڑ میں علماء دیوبند پیچھے رہ گئے ہیں۔ میرے خیال میں یہ شکایت اور نتیجہ دونوں تاریخی طور پر درست نہیں ہیں۔ شکایت اس لیے کہ علماء دیوبند یا کسی بھی طبقہ کے سنجیدہ علماء نے سائنسی علوم کو کبھی استعماری سازش قرار نہیں دیا اور نہ ہی ان کی مخالفت کی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۴ مئی ۲۰۰۰ء

سوات کی صورتحال اور قومی مفاد کا تقاضا

سوات اور اس کے اردگرد کے علاقوں میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ خلافِ توقع نہیں اور جو آئندہ ہونے جا رہا ہے وہ بھی توقع کے خلاف نہیں ہوگا، اس لیے کہ یہ سب کچھ طے شدہ ہے۔ جو ہوگیا ہے، جو ہو رہا ہے اور جو ہونے والا ہے اس کے حق میں اور اس کے خلاف دونوں طرف دلائل دیے جا سکتے ہیں اور دیے جا رہے ہیں لیکن دو باتوں سے شاید ہی کوئی ذی شعور اختلاف کر سکے: ایک یہ کہ اس سے پاکستان کمزور ہو رہا ہے اور قومی وحدت کے گرد خطرات کی دھند گہری ہوتی جا رہی ہے۔ دوسری یہ کہ اس سب کچھ کے باوجود مسئلہ کے حل کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۸ مئی ۲۰۰۹ء

کشمیر اور فلسطین ۔ عالمی طاقتوں کی ترجیحات

یہ وہی صورتحال ہے جو فلسطین میں اس سے قبل ہم دیکھ چکے ہیں کہ جناب یاسر عرفات کو عسکری زندگی سے نکال کر مذاکرات کی میز پر لانے کے بعد اس بات پر مسلسل مجبور کیا جا رہا ہے کہ جو فلسطینی لوگ مذاکرات کے عمل کو قبول نہ کرتے ہوئے عسکری کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں انہیں عسکری کارروائیوں سے باز رکھنے یا ان کے باز نہ آنے کی صورت میں انہیں کچلنے اور ان کی عسکری صلاحیت کو مفلوج کرنے کے لیے بھی یاسر عرفات کردار ادا کریں، بلکہ اس مقصد کے لیے اسرائیل کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۴ جون ۲۰۰۲ء

مولانا عبد اللطیفؒ بالاکوٹی

گزشتہ ماہ کے دوران شاہی مسجد سرائے عالمگیر کے خطیب حضرت مولانا عبد اللطیف بالاکوٹی اللہ کو پیارے ہوگئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کی عمر ۷۴ برس کے لگ بھگ تھی۔ وہ دارالعلوم دیوبند کے فاضل تھے اور بالاکوٹ ہزارہ کے گاؤں بھنگیاں کے رہنے والے تھے۔ ان کی عمر کا بیشتر حصہ راولپنڈی، جہلم اور سرائے عالمگیر میں دینی علوم کی تدریس میں بسر ہوا۔ سرائے عالمگیر میں وہ 1961ء میں آئے اور آخر وقت تک وہیں دینی خدمات سر انجام دیتے رہے۔ شاہی مسجد میں خطابت کے علاوہ مرکزی عیدگاہ میں جامعہ حنفیہ تعلیم القرآن کے نام سے دینی درسگاہ قائم کی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

فروری مارچ ۱۹۹۴ء

افغانستان اور عراق کے بارے میں اسلامی دنیا کے الگ الگ معیارات

ایک سال قبل گیارہ ستمبر کے روز نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور واشنگٹن کے پینٹاگون پر ہونے والے خودکش حملوں کی یاد منائی جا چکی ہے۔ ان حملوں میں ہزاروں افراد جاں بحق ہوئے اور اس کارروائی نے پوری دنیا کی سیاست کا رخ تبدیل کر دیا۔ سیاسی وابستگیوں کے پیمانے بدل گئے، اخلاق و اقدار کے معیار تبدیل ہوگئے، حقوق و مفادات کی کشمکش نے ایک نیا انداز اختیار کر لیا، دنیا کی واحد طاقت ہونے کے نشہ سے سرشار امریکہ کے لیے یہ وار ہوش و حواس سے محرومی کا باعث بن گیا، بے بس مظلوموں پر خوفناک قیامت ٹوٹ پڑی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۴ ستمبر ۲۰۰۲ء

Pages