بیانات و محاضرات

عقیدۂ ختم نبوت اور ایک قادیانی مغالطہ

غلط یا صحیح کی بحث اپنی جگہ پر ہے لیکن تاریخی تناظر میں مرزا غلام احمد قادیانی کو بنی اسرائیل کے ان انبیاء کرام پر قیاس نہیں کیا جا سکتا جن کے آنے سے مذہب تبدیل نہیں ہوا تھا۔ بلکہ اس کی حیثیت یہ ہے کہ ایک شخص نے نئی نبوت اور وحی کا دعویٰ کیا جسے قبول کرنے سے امت مسلمہ نے مجموعی طور پر انکار کر دیا، جس کی وجہ سے وہ اور اس پر ایمان لانے والے پہلے مذہب کا حصہ رہنے کی بجائے نئے مذہب کے پیروکار کہلائے، اور ان کا مذہب ایک الگ اور مستقل مذہب کے طور پر متعارف ہوا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

یکم جون ۲۰۱۶ء

کیا قرآن کریم صرف پڑھ لینا کافی ہے؟

دنیا میں بحمد اللہ تعالیٰ اس وقت قرآن کریم کے کروڑوں حفاظ موجود ہیں جو اللہ تعالیٰ کے اس پاک کلام کا اعجاز ہے لیکن ہر مسلمان کو کچھ نہ کچھ قرآن کریم یاد ہونا ضروری ہے۔ ہمیں اس کا تھوڑا سا اندازہ کر لینا چاہیے کہ ہر مسلمان مرد، عورت، بوڑھے، بچے کو کم سے کم کتنا قرآن کریم یاد کرنا ضروری ہے۔ صرف ایک بات پر غور کر لیں کہ پانچ وقت کی نماز ہر مسلمان پر فرض ہے۔ ان پانچ نمازوں کی رکعتوں کو شمار کرلیں اور یہ دیکھ لیں کہ ان میں سورۃ فاتحہ کے ساتھ کتنی رکعتوں میں قرآن کریم پڑھنا لازمی ہے اور اس سلسلہ میں حضورؐ کی سنت مبارکہ کیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۰ مئی ۲۰۱۶ء

نبی اکرمؐ کا خطبہ حجۃ الوداع

خطبۂ حجۃ الوداع جسے کہتے ہیں، یہ حضورؐ کی مختلف ہدایات کا مجموعہ ہے۔ ان میں دو تو بڑے خطبے ہیں۔ ایک خطبہ حضورؐ نے عرفات میں ارشاد فرمایا، یہی خطبہ سنتِ رسولؐ کے طور پر اب بھی ۹ ذی الحجہ کی دوپہر کو عرفات کے میدان میں پڑھا جاتا ہے۔ دوسرا خطبہ وہ ہے جو حضورؐ نے منٰی میں ارشاد فرمایا۔ جبکہ امام قسطلانیؒ نے ’’المواہب اللدنیۃ‘‘ میں حضرت امام شافعیؒ کے حوالہ سے چار خطبات کا ذکر کیا ہے۔ اس موقع پر صحابہ کرامؓ کثیر تعداد میں تھے، انہوں نے نبی کریمؐ سے خطبات سنے، جس کو جو بات یاد رہی اس نے وہ آگے نقل کر دی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳ تا ۷ ستمبر ۲۰۰۷ء

تذکرہ عمر فاروقؓ اور حسنین کریمینؓ

حضرت عمرؓ کے بارے میں تو ہمارے چیف جسٹس صاحب بھی فرماتے ہیں کہ اگر ملک میں کرپشن کو ختم کرنا ہے اور گڈ گورننس کا قیام عمل میں لانا ہے تو ہمیں حضرت عمر فاروقؓ کے طرز حکومت کو اپنانا ہوگا۔ جبکہ حضرت حسنؓ کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ امت کی وحدت کے لیے بڑی سے بڑی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہیے اور مسلمانوں میں اتحاد کے لیے ہر وقت محنت کرنی چاہیے۔ اسی طرح سیدنا حضرت حسینؓ کی قربانی اور شہادت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ظلم و جبر کے خاتمہ اور عدل و انصاف کے قیام کے لیے ٹوٹ جانا ہی اہل حق کی نشانی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۷ دسمبر ۲۰۱۱ء

مولوی اور وکیل

زمینی حقیقت یہ ہے کہ مولوی دینی علوم اور شریعت کے قوانین کا علم تو رکھتا ہے مگر مروجہ قوانین اور قانونی نظام کا علم اس کے پاس نہیں ہے۔ جبکہ وکیل مروجہ قوانین اور قانونی نظام کا علم و تجربہ تو رکھتا ہے مگر شریعت کے قوانین و احکام اس کے علم کے دائرہ میں شامل نہیں ہیں۔ اس لیے یہ ضروری ہوگیا تھا کہ مولوی اور وکیل دونوں مل کر اس ذمہ داری کو قبول کریں اور اس کے لیے کام کریں لیکن ایسا نہیں ہوا۔ جس کی وجہ سے ملک میں دستور اور قانون و شریعت میں سے کسی کی حکمرانی ابھی تک عملاً قائم نہیں ہو سکی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳ مئی ۲۰۱۶ء

قانون اور سیرتِ حضرت علیؓ

حضرت علیؓ کا یہ ارشاد ہمارے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے کہ جب ملعون ابن ملجم نے قاتلانہ حملہ میں انہیں زخمی کر دیا تو وہ موت و حیات کی کشمکش میں تھے۔ جبکہ ابن ملجم پکڑا جا چکا تھا۔ حضرت علیؓ نے اس حال میں بھی اپنے بیٹے حضرت حسنؓ کو تلقین کی کہ اسے کچھ کہنا نہیں اور نہ ہی کوئی اذیت دینی ہے اس لیے کہ میں ابھی زندہ ہوں۔ اگر میں زندہ رہا تو یہ فیصلہ میں خود کروں گا کہ اسے معاف کرنا ہے یا سزا دینی ہے۔ لیکن اگر میں ان زخموں میں شہید ہوگیا تو پھر تمہیں اس سے قصاص لینے کا حق حاصل ہوگا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۰ اپریل ۲۰۱۶ء

قرآن کریم اور پاکستان کا تعلق

قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور تحریک پاکستان کے دیگر قائدین نے قیام پاکستان سے پہلے اور بعد اپنی بیسیوں تقاریر و بیانات میں اس کا اظہار کیا۔ بلکہ ایک موقع پر قائد اعظمؒ سے پوچھا گیا کہ پاکستان کا دستور کیا ہوگا تو انہوں نے واضح طور پر کہا کہ پاکستان کا دستور ہمارے پاس پہلے سے قرآن کریم کی شکل میں موجود ہے اور وہی ہمارے دستور و قانون کی بنیاد ہوگا۔ اس کے ساتھ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ قرآن کریم جس طرح چودہ سو سال قبل سیاسی و معاشرتی حوالہ سے قابل عمل تھا اسی طرح وہ آج بھی قابل عمل ہے اور ہماری راہنمائی کرتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۳ مارچ ۲۰۱۶ء

قادیانیوں کا ایک مغالطہ

قادیانی حضرات کا کہنا ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے مستقل نبوت کا دعویٰ نہیں کیا بلکہ حضرت محمد رسول اللہؐ کی پیروی میں نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے جو عقیدۂ ختم نبوت کے منافی نہیں ہے۔ مگر یہ بات محض ایک مغالطہ ہے اور میں جناب سرور کائناتؐ کی سیرت طیبہ کی روشنی میں اس کا جائزہ لینا چاہتا ہوں۔ رسول اللہؐ کے دور میں تین بندوں نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔ یمامہ کے مسیلمہ کذاب، بنو اسد کے طلیحہ بن خویلد، یمن کے اسود عنسی، جبکہ ایک خاتون سجاح بھی نبوت کی دعوے دار تھی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۱ جنوری ۲۰۱۶ء

حکمت عملی کا جہاد

یہ بات غور طلب ہے کہ منافقین کے خلاف کون سا جہاد ہوا؟ اس لیے کہ دس سالہ مدنی دور میں منافقوں کے خلاف ایک بار بھی ہتھیار نہیں اٹھایا گیا۔ وہ مدینہ منورہ میں رہے اور سارے معاملات میں شریک رہے، شرارتیں بھی کرتے رہے اور بڑے بڑے فتنے انہوں نے کھڑے کیے مگر ایک بار بھی ان کے خلاف تلوار استعمال نہیں ہوئی۔ حتیٰ کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بعض سرکردہ منافقوں کو قتل کرنے کی اجازت مانگی گئی مگر جناب سرور کائنات ؐ نے اجازت دینے سے انکار کر دیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جنوری ۲۰۱۶ء

آج کے انسانی معاشرے کے مسائل اور مذہب کا کردار

میں کانفرنس کے معزز شرکاء کو اس بات پر غور کی دعوت دوں گا کہ ان میں سے کون سے مسائل ہیں جو مذہب کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں؟ زیادہ سے زیادہ دہشت گردی اور شدت پسندی کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ ان میں کسی حد تک مذہب کا کردار ہو سکتا ہے۔ لیکن باقی سب مسائل مذہب کی وجہ سے نہیں بلکہ مذہبی تعلیمات سے انحراف کے نتیجے میں وجود میں آئے ہیں۔ اس لیے ہمیں یکطرفہ بات نہیں کرنی چاہیے اور اپنے ایجنڈے کو متوازن اور بیلنس بنانا چاہیے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۵ نومبر ۲۰۱۵ء

اسلام اور سائنس

اسلام اور سائنس کے موضوع پر گفتگو کے بیسیوں دائرے ہیں، ان میں سے صرف ایک پہلو پر عرض کرنا چاہوں گا کہ کیا اسلام اور سائنس آپس میں متصادم ہیں؟ کیونکہ عموماً‌ یہ بات دنیا میں کہی جاتی ہے کہ مذہب اور سائنس ایک دوسرے کے مخالف ہیں اور ان کے درمیان بُعد اور منافاۃ ہے۔ میں آج کی گفتگو میں اس سوال کا جائزہ لینے کی کوشش کروں گا۔ سب سے پہلے اس بات پر غور فرمائیں کہ مذہب اور سائنس کے باہم مخالف اور متصادم ہونے کا جو تاثر عام طور پر پایا جاتا ہے اس کے بڑے اسباب دو ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۵ نومبر ۲۰۱۵ء

قدیم اور جدید تعلیم کی اصطلاحات

قرآن کریم حادث کے مقابلہ میں بلاشبہ قدیم ہے اور وہ ہمارا اعتقادی مسئلہ ہے، لیکن جدید کے مقابلے میں قرآن کریم یا حدیث و سنت کو قدیم قرار دینا یہ تاثر پیدا کرتا ہے کہ یہ پرانے علوم ہیں جن کا زمانہ گزر چکا ہے اور آج ان کی جگہ نئے علوم و فنون نے لے لی ہے۔ یہ بات قطعی طور پر غلط ہے، اس لیے کہ قرآن و سنت قیامت تک کے لیے ہیں اور ماضی کی طرح حال کا زمانہ، بلکہ آنے والا مستقبل بھی قرآن و سنت کے دائرہ کار میں شامل ہے، اور قرآن کریم کی ٹرم قیامت تک باقی رہے گی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۶ ستمبر ۲۰۱۵ء

بخاری شریف کو ایک نظام حیات کے طور پر بھی پڑھیں

امام بخاریؒ نے صرف احادیث بیان نہیں کیں بلکہ قرآن کریم کی آیات اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے ہزاروں احکام و مسائل مستنبط کیے ہیں۔ وہ پہلے مسئلہ بیان کرتے ہیں، پھر اس کے مطابق قرآن کریم کی آیت، حدیث نبویؐ، اور آثار صحابہؓ و تابعینؒ لاتے ہیں، جس سے اہل سنت کے منہج استدلال کی وضاحت بھی ہوجاتی ہے کہ ہمارے دین کی کسی بھی بات کی بنیاد قرآن کریم کے بعد احادیث اور آثار صحابہؓ پر ہے۔ اور یہی اہل سنت کی اعتقادی و فقہی اساس ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۲ اگست ۲۰۱۵ء

قیام پاکستان اور علماء کرام

قیام پاکستان کا بنیادی مقصد اور فلسفہ یہ ہے کہ مسلم اکثریت کے علاقے میں حکومت خود مسلمانوں کی ہونی چاہیے اور قرآن و سنت کے احکام و قوانین کے مطابق ملک کا نظام تشکیل پانا چاہیے۔ یہ اسلام کے تقاضوں میں سے ہے، جناب نبی اکرمؐ کی سنت مبارکہ ہے، اور ملت اسلامیہ کی تاریخ اور ماضی کے تسلسل کا حصہ ہے۔ جناب نبی اکرمؐ کی سنت مبارکہ کے حوالہ سے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ مکہ مکرمہ سے ہجرت کے بعد جب مدینہ منورہ میں مسلمانوں کی سوسائٹی قائم ہوئی تو نبی اکرمؐ نے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۲ اگست ۲۰۱۵ء

دینی طلبہ سے تین گزارشات

تیسری بات یہ ہے کہ پڑھنے کے ساتھ ساتھ تربیت اور تجربے کی مشق بھی کرتے رہیں۔ سکول و کالج میں سائنس پڑھاتے ہوئے جہاں لیکچر میں تھیوری پڑھائی جاتی ہے وہاں لیبارٹری میں پریکٹیکل بھی کرایا جاتا ہے۔ ہم سبق میں تھیوری تو پڑھتے ہیں مگر عملی زندگی میں اس کے پریکٹیکل کی مشق نہیں کرتے۔ مثلاً قدوری یا فقہ کی کسی کتاب میں نماز کی ترتیب اور آداب تو پڑھ لیتے ہیں مگر اپنی نماز میں اس کا اہتمام کرنے کی فکر نہیں ہوتی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳ اگست ۲۰۱۵ء

تحفظ ختم نبوت کی جدوجہد کے چند پہلو

میں قادیانیوں سے کہا کرتا ہوں کہ انہیں مسیلمہ اور اسود کے راستہ پر بضد رہنے کی بجائے طلیحہؓ اور سجاحؒ کا راستہ اختیار کرنا چاہیے اور غلط عقائد سے توبہ کر کے مسلم امت میں واپس آجانا چاہیے۔ جبکہ اہل اسلام سے میری گزارش یہ ہے کہ قادیانیوں کے دجل و فریب کا مقابلہ اپنی جگہ لیکن انہیں اسلام کی دعوت دینا اور دعوت کے لیے مناسب ماحول پیدا کرنا بھی ضروری ہے۔ اور یہ بات بھی سمجھنا ضروری ہے کہ مقابلہ کا ماحول اور نفسیات الگ ہوتی ہیں جبکہ دعوت کا ماحول اور نفسیات اس سے بالکل مختلف ہوتی ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جون ۲۰۱۵ء

حالات کا تغیر اور علماء کرام کی ذمہ داریاں

ہمارے اکابر کا ہمیشہ سے یہ معمول رہا ہے کہ وہ حالات کے تغیر اور اس سے پیدا شدہ صورت حال پر مسلسل نظر رکھتے ہیں اور اس حوالہ سے سامنے آنے والے مسائل اور ضروریات کو نظر انداز کرنے کی بجائے ان کے حل کی صورتیں نکالتے ہیں۔ اس لیے کہ نئے پیدا ہونے والے مسائل کو نظر انداز کر دینا ان کا صحیح حل نہیں ہوتا بلکہ ان کے مناسب حل کی طرف قوم کی راہ نمائی کرنا علماء کرام کی ذمہ داری شمار ہوتا ہے۔ یہ بات تو فطری طور پر طے ہے کہ حالات تبدیل ہوتے رہتے ہیں، قوموں کے عرف و تعامل میں مسلسل تغیر بپا رہتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۵ اپریل ۲۰۱۵ء

مذہبی ہم آہنگی اور باہمی رواداری کے تقاضے

آرا و افکار کا تنوع اور خیالات و تاثرات کا اختلاف سیاست میں بھی ہے، تہذیب و ثقافت میں بھی ہے، معیشت و تجارت میں بھی ہے، طب و حکمت میں بھی ہے، اور مذہب میں بھی ہے۔ اس لیے اختلافات کا موجود ہونا کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے بلکہ انسانی عقل و دانش کے مسلسل استعمال کی علامت ہے۔ البتہ اختلاف کا اظہار جب اپنی جائز حدود کو کراس کرنے لگتا ہے تو وہ تنازعہ اور جھگڑے کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ رواداری اور ہم آہنگی کے باب میں یہی نکتہ سب سے زیادہ قابل توجہ ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۲ مارچ ۲۰۱۵ء

قرآن کریم صرف ماضی کی کتاب نہیں!

قرآن کریم کی تعلیم و تدریس اور حفظ و تلاوت کا سلسلہ دنیا بھر میں تمام تر مخالفتوں اور رکاوٹوں کے باوجود دن بدن وسیع ہوتا جا رہا ہے اور اس کے دائرے کو سمیٹنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو رہی، جو بلاشبہ قرآن کریم کا اعجاز ہے۔ لیکن اس سے عالمی استعماری حلقے اس مغالطہ کا شکار ہوگئے ہیں کہ قرآن کریم کی تعلیم و تدریس اور قراءت و تلاوت کا یہ سلسلہ دینی مدارس کی وجہ سے باقی ہے۔ اس لیے وہ دینی مدارس کے پیچھے پڑ گئے ہیں اور دینی مدارس کا کردار محدود کرنے اور انہیں غیر مؤثر بنانے کے لیے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۹ فروری ۲۰۱۵ء

رسول اکرمؐ کا منافقین کے ساتھ طرز عمل

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے اور اسے اپنا مرکز بنایا تو یہود اور مشرکین کے مختلف قبائل کے ساتھ ساتھ آپ کو ایک ایسے طبقہ سے بھی واسطہ پڑا جو کلمہ پڑھ کر بظاہر مسلمانوں میں شامل ہوگیا تھا لیکن دل سے مسلمان نہیں ہوا تھا، اور دل سے اس کی تمام تر ہمدردیاں اور معاونتیں کفار کے ساتھ تھیں جن کا تذکرہ قرآن کریم میں مختلف مقامات پر موجود ہے۔ غزوہ احد میں یہ لوگ تین سو کی تعداد میں عبد اللہ بن ابی کی سرکردگی میں میدان چھوڑ کر واپس چلے گئے تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۳ فروری ۲۰۱۵ء

تبدیلی کا نعرہ اور دینی مدارس

اعجاز چودھری صاحب نے اس کنونشن کا مقصد یہ بتایا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف علماء کرام سے راہ نمائی حاصل کرنا چاہتی ہے اس لیے سرکردہ علماء کرام کو اس اجتماع میں شرکت کی زحمت دی گئی ہے۔ چنانچہ ایک طالب علم کے طور پر میں بھی حاضر ہوا ہوں اور محترم عمران خان صاحب کی موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے چند باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ جب ملک کے نظام میں تبدیلی کی کوئی بات ہوتی ہے تو سب سے زیادہ خوشی ہمیں ہوتی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۸ جنوری ۲۰۱۵ء

ہم آہنگی کی حکمت عملی ۔ ماضی اور حال کے تجربات کی روشنی میں

پاکستان میں ہم آہنگی اور کشمکش کے اسباب میں چار امور خصوصی توجہ کے طلبگار ہیں۔ ہمارا اجتماعی مزاج یہ بن گیا ہے کہ دو باتیں ہمارے درمیان اتحاد، ہم آہنگی اور رواداری کا سبب بنتی ہیں، جبکہ دو باتیں انتشار و افتراق اور کشمکش کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد کے تناظر میں بات کروں گا کہ جب بھی ہم نے کسی مشترکہ قومی یا دینی مسئلہ کے لیے جدوجہد کی ہے ہمارے درمیان ہم آہنگی کا ماحول پیدا ہوا ہے اور تمام مذہبی مکاتب فکر باہمی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک پیج پر آگئے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۰ جنوری ۲۰۱۵ء

رسول اکرمؐ بحیثیت سیاستدان

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کائنات کی سب سے بڑی صاحب کمالات شخصیت ہیں اور آپؐ کو کمال کی ہر صفت عروج کے اعلیٰ ترین درجہ پر عطا ہوئی ہے۔ آپؐ سب سے بڑے رسول و نبی، سب سے بڑے قانون دان، سب سے بڑے جرنیل، سب سے اعلیٰ حکمران اور اس کے ساتھ ساتھ سب سے بڑے سیاست دان بھی ہیں۔ آنحضرتؐ کی سیاسی زندگی کے مختلف اور متنوع پہلو ہیں جن میں سے ہر ایک پر مستقل کام کی ضرورت ہے اور ہمارے ہاں سیرت نبویؐ کے ان پہلوؤں پر سب سے کم کام ہو رہا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵ جنوری ۲۰۱۵ء

حالات کا اتار چڑھاؤ اور سیرت نبویؐ سے رہنمائی

حالات کے اتار چڑھاؤ سے یقیناً پریشانی ہوتی ہے لیکن یہ اتار چڑھاؤ تاریخ کا ناگزیر حصہ ہے اور اہل حق کے سفر کے سنگ میل ہی مسائل و مشکلات اور مصائب و آلام ہوتے ہیں۔ اس لیے ان سے گبھرانے کی ضرورت نہیں ہے اور میں اس سلسلہ میں دور نبویؐ کے دو تین واقعات کا تذکرہ کرنا چاہوں گا کہ ایسے حالات میں ہمیں کیسے کام کرنا چاہیے؟ جناب نبی اکرم ﷺ جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ کی طرف جا رہے تھے تو ظاہری کیفیت یہ تھی کہ چھپتے چھپاتے مدینہ منورہ پہنچنے کی کوشش تھی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۹ جنوری ۲۰۱۵ء

دینی مدارس ایک بار پھر موضوع بحث

دینی مدرسہ ایک بار پھر عالمی اور ملکی ماحول میں مختلف سطحوں پر موضوع بحث ہے، اور اس کے مثبت اور منفی پہلوؤں پر گفتگو ہو رہی ہے۔ 16 دسمبر کے سانحۂ پشاور کے بعد اس بحث میں شدت آگئی ہے، جبکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نئی قومی پالیسی سامنے آنے کے بعد دہشت گردی کے ساتھ مدرسہ کے مبینہ تعلق کو اجاگر کرنے میں بہت سی سیکولر لابیاں اور حلقے از سرِ نو متحرک ہوگئے ہیں۔ چنانچہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ معروضی صورت حال میں اس مسئلہ کے ضروری پہلوؤں پر ایک بار نظر ڈال لی جائے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۹ جنوری ۲۰۱۵ء

سیرت طیبہ اور امن عامہ

جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ امن کو ترجیح دی ہے، معاشرہ میں منافرت اور فساد کو پھیلنے سے روکا ہے، اور عام لوگوں کے امن کے ساتھ ساتھ ان کے جذبات و احساسات کا بھی پوری طرح لحاظ رکھا ہے۔ اسی طرح سوسائٹی میں فساد کا ذریعہ بننے والی باتوں کی جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی کے ساتھ نفی فرمائی ہے اور ان کی مذمت کی ہے۔ اس حوالہ سے بیسیوں واقعات میں سے ایک دو کا تذکرہ کرنا چاہوں گا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۱ دسمبر ۲۰۱۴ء

دیوبند کی بانی شخصیات

دیوبندی مکتب فکر کا تذکرہ کیا جائے تو تین شخصیتوں کا نام سب سے پہلے سامنے آتا ہے۔ اور تاریخ انہی تین بزرگوں کو دیوبندیت کا نقطہ آغاز بتاتی ہے۔ امام الطائفہ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کو دیوبندیت کے سرپرست اعلیٰ کی حیثیت حاصل ہے۔ جبکہ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ ، اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ سے دیوبندیت کے علمی، فکری اور مسلکی تشخص کی ابتدا ہوتی ہے۔ اور یہ تین شخصیات دیوبندی مکتب فکر کی اساس اور بنیاد سمجھی جاتی ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اکتوبر ۲۰۱۴ء

شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ

شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ کا شمار برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش کے ان عظیم راہنماؤں میں ہوتا ہے جنہوں نے برطانوی استعمار کی غلامی کے دورِ عروج میں سورج غروب نہ ہونے والی سلطنت کے غلبہ و استعلا کو نہ صرف یہ کہ خود ذہنی اور شعوری طور پر قبول نہ کیا بلکہ فکر و عمل، جہد و استقامت اور عزم و استقلال کی شمع کو اپنے خون سے روشن کر کے برادرانِ وطن کو آزادی اور استقلال کی اس شاہراہ پر گامزن کر دیا جس پر چلتے ہوئے اس خطہ کے عوام نے غلامی کی ہولناک دلدل کو عبور کر کے حریت کے میدان میں قدم رکھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۱ مارچ ۱۹۸۷ء

قرآن کریم کے حقوق

8 ،9، 10 جولائی کو دنیا ٹی وی کے سحری و افطاری کے پانچ نشریاتی پروگراموں میں شرکت کا موقع ملا جنہیں جناب انیق احمد بڑے ذوق و مہارت کے ساتھ چلا رہے ہیں۔ پہلے پروگرام میں مولانا اسعد تھانوی، مولانا شجاع الملک اور مولانا قاری اکبر مالکی کے ساتھ رفاقت رہی۔ موضوعِ گفتگو عمومی طور پر ’’قرآن کریم کے حقوق‘‘ تھا جبکہ سورۃ الانبیاء کی آیت 10 کا یہ جملہ بطور خاص زیر بحث آیا کتاباً فیہ ذکرکم۔ کم و بیش تین گھنٹے پر مشتمل اس پروگرام میں بیسیوں نکات پر بات ہوئی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۸ جولائی ۲۰۱۴ء

دینی تحریکات کی کامیابی اور ناکامی

مختلف دینی تحریکات میں محنت اور قربانیوں کے باوجود ہم کامیابی حاصل نہیں کر پاتے۔ تو کیا یہ کہہ کر آگے بڑھ جانا کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو یونہی منظور تھا اور ہمیں نیت اور محنت کا ثواب تو مل ہی جائے گا، یا اس ناکامی کے اسباب کی نشاندہی کرنا اور ان کے ازالہ کی کوشش کرنا بھی ضروری ہے۔ یہ بات درست ہے کہ اللہ تعالیٰ کو یونہی منظور تھا اور یہ بات بھی شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ مقصد کے حصول میں کامیاب نہ ہونے کے باوجود خلوص نیت اور محنت و قربانی کا ثواب بہرحال ملتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۶ جون ۲۰۱۴ء

بین الاقوامی تعلقات و معاملات

اس وقت دنیا میں بین الاقوامی معاہدات کی حکومت ہے اور اقوام متحدہ اور اس کے ساتھ دیگر عالمی ادارے ان بین الاقوامی معاہدات کے ذریعہ دنیا کے نظام کو کنٹرول کر رہے ہیں۔ اس لیے ہماری آج کی سب سے بڑی علمی و فکری ضرورت یہ ہے کہ دنیا میں رائج الوقت بین الاقوامی معاہدات کا جائزہ لیا جائے اور اسلامی تعلیمات و احکام کے ساتھ ان کا تقابلی مطالعہ کر کے ان کی روشنی میں اپنا لائحہ عمل اور حکمت عملی طے کی جائے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۸ جون ۲۰۱۴ء

نعت رسولؐ کے آداب

جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر مبارک ہم اپنی نسبت کے اظہار اور شناخت کے لیے کرتے ہیں کہ اس سے انسانی سوسائٹی کی رنگا رنگ تقسیم میں ہمارا تعارف ہو جاتا ہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نسبت کے اظہار کے بعد مزید کسی تعارف کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔ ہم یہ تذکرہ محبت کے اظہار کے لیے بھی کرتے ہیں کہ جس سے محبت ہوتی ہے اس کا ذکر بھی اکثر زبان پر رہتا ہے۔ اور یہ ذکر کرنا نہیں پڑتا بلکہ خود بخود ہو جاتا ہے کہ محبت اپنا اظہار خود کرتی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳ مئی ۲۰۱۴ء

معاشرے کے خصوصی افراد

اعضا کی صحت بھی بہت بڑی نعمت ہے، لیکن عزم و حوصلہ اور قوت ارادی ان سے بھی بڑی نعمتیں ہیں جنہیں کام میں لا کر جسمانی کمزوریوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ انسان بہت کمزور بھی ہے اور انسان بہت طاقت ور بھی ہے۔ اگر اس کے عزم و حوصلہ کا رخ کمزوری کی طرف ہے تو اس سے زیادہ کمزور کوئی نہیں ہے۔ اور اگر اس کی قوت ارادی عزم و ہمت کی طرف متوجہ ہے تو اس سے زیادہ طاقت ور بھی کوئی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عزم و حوصلہ کی صورت میں بہت بڑی قوت عطا فرمائی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۹ اپریل ۲۰۱۴ء

حدیث نبویؐ ۔ تمام علوم دینیہ کا اصل ماخذ

حدیث کو ہمارے ہاں علوم دینیہ کی ایک قسم کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور وہ بلاشبہ دلائل شرعیہ (۱) قرآن کریم (۲) حدیث و سنت (۳) اجماع اور (۴) قیاس میں ایک اہم دلیل شرعی ہے۔ لیکن حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے حدیث کا تعارف اس سے وسیع تناظر میں کرایا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ حدیث نبویؐ تمام علوم دینیہ کا اصل ماخذ اور منبع ہے اور اسی سے ہمیں قرآن و سنت سمیت تمام علوم شرعیہ حاصل ہوتے ہیں۔ اس کی مثال کے طور پر میں یہ عرض کرتا ہوں کہ قرآن کریم تک ہماری رسائی کا ذریعہ بھی حدیث ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۰ اپریل ۲۰۱۴ء

علماء کرام کی تربیت

سب سے پہلے تو اس بات کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا کہ ’’تربیت علماء کورس‘‘ کا عنوان بہت اہم ہے جو احساس دلا رہا ہے کہ ہم لوگ جو علماء کرام کہلاتے اور سمجھے جاتے ہیں انہیں بھی تربیت حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ ہمارے ہاں عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہم علماء کرام اب مزید تعلیم اور تربیت سے بے نیاز ہیں اور سند فراغت حاصل ہوتے ہی ہم ’’خدائی فوجدار‘‘ بن کر لوگوں پر مسلّط ہونے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔ حالانکہ تعلیم و تربیت تو زندگی بھر ساتھ چلتی ہے اور انسان موت تک طالب علم ہی رہتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۰ مارچ ۲۰۱۴ء

فقہ حنفی پر ایک نظر

فقہ حنفی نے عالم اسلام میں طویل عرصہ تک حکومت کی ہے اور وہ عباسی خلافت اور عثمانی خلافت کے علاوہ جنوبی ایشیا میں مغل حکومت کا بھی مدّتوں قانون و دستور رہی ہے۔ امام اعظم حضرت امام ابوحنیفہؒ کو اللہ رب العزت نے یہ اعزاز بخشا ہے کہ ان کی علمی و فقہی کاوشوں کو امت مسلمہ میں سب سے زیادہ قبولیت حاصل ہوئی ہے۔ اور صدیوں تک کئی حکومتوں کا دستور و قانون رہنے کے ساتھ ساتھ عام مسلمانوں میں بھی اس کے پیروکاروں کی ہمیشہ اکثریت رہی ہے جو آج بھی اپنا تسلسل قائم رکھے ہوئے ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

یکم مارچ ۲۰۱۴ء

دستور کی بالادستی اور قومی خودمختاری کا مسئلہ

اسلامی نظریاتی کونسل 1973ء میں دستور کے نفاذ کے بعد قائم ہوئی تھی جس کے ذمہ یہ بات تھی کہ وہ ملک کے تمام قوانین کا جائزہ لے کر خلاف اسلام قوانین کی نشاندہی کرے اور ان کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنے کے لیے تجاویز مرتب کرے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے ملک میں رائج سات سو سے زیادہ غیر شرعی قوانین کی نشاندہی کر کے انہیں اسلام کے مطابق بنانے کے لیے تجاویز مرتب کر کے حکومت کے حوالے کر رکھی ہیں۔ سارا کام مکمل ہو جانے کے باوجود اب تک قانون سازی کیوں نہیں ہوئی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۶ فروری ۲۰۱۴ء

کراچی یونیورسٹی کی سیرت کانفرنس میں شرکت

جامعہ کراچی کی سیرت چیئر نے صوبائی وزارت مذہبی امور اور شیخ زاید اسلامک سنٹر کے تعاون سے 12-13 فروری کو دو روزہ عالمی سیرت کانفرنس کا اہتمام کر رکھا تھا جس میں پاکستان، عراق، بھارت اور بنگلہ دیش وغیرہ سے ممتاز اصحابِ دانش نے سیرت النبی ﷺ کے مختلف پہلوؤں پر اظہار خیال کیا۔ کانفرنس کا عمومی عنوان ’’سیرت نبویؐ اور عصر حاضر‘‘ تھا۔ اس عنوان کے تحت مقررین نے اپنے اپنے ذوق اور خیال کے مطابق سرور کائنات ﷺ کے حضور خراج عقیدت پیش کیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۳ فروری ۲۰۱۴ء

ختم نبوت کانفرنس کیپ ٹاؤن

انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ اور مسلم جوڈیشل کونسل جنوبی افریقہ کے زیر اہتمام کیپ ٹاؤن میں منعقد ہونے والی سہ روزہ عالمی ختم نبوت کانفرنس اتوار کو 2 بجے اختتام پذیر ہوگئی۔ کانفرنس کی مختلف نشستوں کی صدارت انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے سربراہ مولانا عبد الحفیظ مکی، دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی، مدرسہ صولتیہ مکہ مکرمہ کے مہتمم مولانا ماجد مسعود اور مسلم جوڈیشل کونسل جنوبی افریقہ کے صدر الشیخ احسان ھندوکس نے کی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

دسمبر ۲۰۱۳ء

سنی شیعہ جھگڑوں کی وجوہات

ملک کے کسی حصے میں سنی شیعہ تنازعہ عام طور پر دو میں سے کسی ایک مسئلہ پر کھڑا ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ حضرات صحابہ کرامؓ میں سے کسی بزرگ شخصیت پر تبرّا کے عنوان سے توہین کی جاتی ہے جو اہل سنت کے کسی فرد کے لیے قابل برداشت نہیں ہو سکتی ۔ ۔ ۔ دوسرا سبب ماتمی جلوس ہے کہ اس میں جو کچھ ہوتا ہے وہ ایک فریق کے نزدیک بالفرض عبادت ہو تب بھی یہ صورت حال قابل قبول نہیں ہوتی کہ دوسرا فریق جو غالب اکثریت بھی رکھتا ہے اس کے دروازہ پر یہ عبادت ادا کی جائے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۴ نومبر ۲۰۱۳ء

خلافت کا قیام، کس کی ذمہ داری؟

اس پہلو پر غور کرنا بھی ضروری ہے کہ بحیثیت نبی اور رسول جناب نبی اکرمؐ کی دیگر ذمہ داریاں بھی اسی طرح امت کو منتقل ہوگئی ہیں جس طرح دعوت و تبلیغ کی ذمہ داری امت کے ذمہ آگئی ہے۔ ان ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری امت مسلمہ کی اجتماعی قیادت اور مسلم سوسائٹی میں اللہ تعالیٰ اور ان کے آخری رسولؐ کی تعلیمات و احکامات کا عملی نفاذ ہے۔ حضرات انبیاء کرامؑ نے لوگوں کو صرف اللہ تعالیٰ کے دین کی دعوت نہیں دی بلکہ اس دعوت کے ذریعہ کلمہ پڑھنے والوں کا باہمی نظم قائم کیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۰ نومبر ۲۰۱۳ء

دعوت دین کے عصری مسائل، تقاضے اور اہداف

دنیا بھر کے غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے مسیحی مشنریوں کی طرز پر مسلمانوں کا کوئی منظم نیٹ ورک موجود نہیں ہے۔ حالانکہ سات ارب کی انسانی آبادی میں مسلمانوں کی تعداد پونے دو ارب بیان کی جاتی ہے۔ اور سوا پانچ ارب انسان اس بات کے انتظار میں ہیں کہ انہیں کوئی اسلام کی دعوت دے، انہیں جناب نبی اکرم ﷺ سے متعارف کرائے اور ان تک قرآن کریم کی تعلیمات پہنچانے کا اہتمام کرے۔ ظاہر ہے کہ یہ ذمہ داری بہرحال ہم مسلمانوں کی ہی بنتی ہے، اس کے لیے آسمان سے فرشتے نہیں اتریں گے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۶ اکتوبر ۲۰۱۳ء

حضورؐ کی مجلسی زندگی

جناب نبی اکرم ﷺ کے روز مرہ معمولات کا آغاز بھی مجلس سے ہوتا تھا اور اختتام بھی مجلس پر ہی ہوتا تھا، صبح نماز کے بعد عمومی مجلس ہوتی تھی اور رات کو عشاء کے بعد خواص کی محفل جمتی تھی جبکہ دن میں بھی مجلس کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ سیرت اور حدیث کی مختلف روایات میں بتایا گیا ہے کہ نماز فجر کے بعد جناب نبی اکرم ﷺ مسجد میں ہی اشراق کے وقت تک تشریف فرما ہوتے تھے، اس دوران وہ ساتھیوں کا حال احوال پوچھتے تھے، کسی نے خواب دیکھا ہوتا تو وہ بیان کرتا تھا اور تعبیر پوچھتا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳ فروری ۲۰۱۳ء

عدلِ اجتماعی کا تصور تعلیمات نبویؐ کی روشنی میں

عام طور پر ایک حکومت اور ریاست کی ذمہ داری میں شہریوں کی جان و مال کی حفاظت، امن کی فراہمی، انصاف کے قیام اور ان کے حقوق کی پاسداری کو شامل کیا جاتا ہے۔ لیکن جناب نبی اکرم ﷺ نے حکومت و ریاست کی ذمہ داریوں میں ایک اور بات کا اضافہ کیا کہ وہ شہریوں کو ضروریات زندگی کی فراہمی اور سوسائٹی کے نادار، بے سہارا اور معذور لوگوں کی کفالت کی بھی ذمہ دار ہے۔اسی کو آج کی دنیا میں رفاہی ریاست اور ویلفیئر اسٹیٹ سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۹ جنوری ۲۰۱۳ء

اسلام کا نظام خلافت

سوال پیدا ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور آپؐ کے بعد کسی نئے نبی کے آنے کا کوئی امکان نہیں ہے تو پھر آپؐ کے بعد سیاسی نظام کس کے ہاتھ میں ہوگا۔ چنانچہ مذکورہ بالا جملہ کے ساتھ ہی جناب نبی اکرمؐ نے فرما دیا کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا وستکون بعدی خلفاء البتہ میرے بعد خلفاء ہوں گے جو اس سیاسی نظام کو سنبھالیں گے۔ اس طرح آپؐ نے خلافت کو امت مسلمہ کے سیاسی نظام کے طور پر بیان فرمایا ہے اور اسلام کے سیاسی نظام کا عنوان ’’خلافت‘‘ ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جنوری ۲۰۱۳ء

علوم اسلامیہ میں تحقیق کے جدید تقاضے

پہلی بات یہ ہے کہ اسلامی علوم و فنون کے حوالہ سے تحقیق اور ریسرچ کے شعبہ میں ہم ایک عرصہ سے تحفظات اور دفاع کے دائرے میں محصور چلے آرہے ہیں۔ مستشرقین نے اسلام، قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اعتراضات اور شکوک و شبہات پھیلانے کا سلسلہ شروع کیا تو ہم ان کے جوابات میں مصروف ہوگئے اور تحقیق کے میدان میں ابھی تک ہمارا رخ وہی ہے۔ کم و بیش تین صدیاں گزر گئی ہیں کہ ہماری علمی کاوشوں کی جولانگاہ کم و بیش یہی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۷ جون ۲۰۱۴ء

بین الاقوامی قوانین اور اسلامی تعلیمات

ڈاکٹر عامر الزمالی کی کتاب کا اردو ترجمہ اس وقت ہمارے سامنے ہے جو مختلف اصحابِ علم کے مقالات کا مجموعہ ہے۔ پروفیسر محمد مشتاق احمد نے انتہائی مہارت اور ذوق کے ساتھ اسے اردو کے قالب میں ڈھالا ہے اور آج کے دور کی ایک اہم ضرورت کو پورا کیا ہے جس پر وہ اور بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی ہم سب کی طرف سے شکریہ کے مستحق ہیں۔ بین الاقوامی قوانین و معاہدات کا اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مطالعہ اور مطابقت و اختلاف کے پہلوؤں کی نشاندہی ہماری اس دور کی اہم ضرورت ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۳ ستمبر ۲۰۱۳ء

اختلاف رائے کے دائرے، حدود اور آداب

ہمارا عمومی مزاج یہ بن گیا ہے کہ کسی اختلاف کی اصل سطح اور دائرہ کو پیش نظر رکھے بغیر ہر اختلاف میں ایک ہی طرح کا طرز عمل اختیار کر لیا جاتا ہے جس سے اختلافات اکثر اوقات تنازعات کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ اس لیے میں مذہبی اختلافات کی مختلف سطحوں اور دائروں کے بارے میں اپنے طالب علمانہ مطالعہ کی روشنی میں کچھ امور کا ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۷ جون ۲۰۱۳ء

شاہ ولی اللہؒ کی تعلیمات اور فکرِ اقبالؒ میں فرق

حضرت شاہ ولی اللہؒ اور علامہ محمد اقبالؒ کے درمیان دو صدیوں کا فاصلہ ہے۔ شاہ ولی اللہؒ کا دور وہ ہے جب اورنگزیب عالمگیرؒ کی نصف صدی کی حکمرانی کے بعد مغل اقتدار کے دورِ زوال کا آغاز ہوگیا تھا اور شاہ ولی اللہؒ کو دکھائی دے رہا تھا کہ ایک طرف برطانوی استعمار اس خطہ میں پیش قدمی کر رہا ہے اور دوسری طرف جنوبی ہند کی مرہٹہ قوت دہلی کے تخت کی طرف بڑھنے لگی ہے۔ جبکہ علامہ اقبالؒ کو اس دور کا سامنا تھا جب انگریزوں کی غلامی کا طویل عرصہ گزارنے کے بعد برصغیر کے باشندے اس سے آزادی کی جدوجہد میں مصروف تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

یکم دسمبر ۲۰۱۲ء

میڈیا کا محاذ اور اسوۂ نبویؐ

جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب جنگ احزاب سے فارغ ہوئے تو آپ نے مسجد نبویؐ میں ایک اعلان فرمایا کہ اب قریشیوں کو ہمارے خلاف جنگ کے لیے یہاں آنے کی ہمت نہیں ہوگی، اب جب بھی جائیں گے ہم ہی جائیں گے۔ دوسری بات یہ فرمائی کہ اب یہ لوگ ہمارے خلاف زبان کی جنگ لڑیں گے اور خطابت و شاعری کا محاذ گرم کریں گے، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کا بازار گرم کریں گے، پروپیگنڈہ کریں گے، کردار کشی کریں گے اور عرب قبائل کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکائیں گے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۳ جنوری ۲۰۱۳ء

Pages

2016ء سے
Flag Counter