۲۰۲۳ء کی متفرق رپورٹس
متحدہ علماء کونسل پاکستان نے محکمہ تعلیم کی طرف سے دینی مدارس کی متوازی رجسٹریشن اور اوقاف ایکٹ کے تحت دینی قیادتوں کو اعتماد میں لیے بغیر محکمہ اوقاف کی سرگرمیوں پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے، اور محکمہ تعلیم سے مطالبہ کیا ہے کہ دینی قیادتوں کو اعتماد میں لے کر کام کو آگے بڑھایا جائے۔ یہ مطالبہ آج ۱۳ فروری ۲۰۲۳ء کو لاہور میں مولانا عبد الرؤف ملک کی زیر صدارت ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
تحریکِ ختمِ نبوت کی معروضی صورتحال اور ضروری تقاضے
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ آج مدنی مسجد سمن آباد میں حاضری پر مولانا قاضی عبد الودود نے بتایا کہ ان کے والد گرامی حضرت مولانا حافظ عبد الصبور رحمہ اللہ تعالیٰ کی وفات کو بارہ سال گزر چکے ہیں جس سے ماضی کی بہت سی یادیں ذہن میں تازہ ہو گئیں۔ مولانا حافظ عبد الصمدؒ میرے بزرگ ساتھی اور بڑے بھائی تھے، جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے فاضل تھے، مجھ سے چند سال قبل فراغت حاصل کی مگر تین چار سال ہمارے اکٹھے جامعہ میں گزرے اور کچھ اسباق میں رفاقت بھی رہی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
’’دفاعِ سیدنا حضرت عثمان غنیؓ ریلی‘‘
میں اس ریلی کے شرکاء کے ساتھ ان کے جذبات و احساسات میں یکجہتی کے اظہار اور ان کے اس جائز مطالبہ کی حمایت کے لیے آپ کے سامنے کھڑا ہوں کہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخی کرنے والے بدبخت کو گرفتار کیا جائے اور قانون کے مطابق سزا دی جائے۔ میں حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی اس سنت کی پیروی کرنے کے لیے آیا ہوں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
تخصصات کے کورسز اور جدید مسائل
جامعۃ التخصص فی العلوم الاسلامیہ ملتان کی افتتاحی تقریب کے موقع پر جامعہ کے سربراہ حضرت مولانا امداد اللہ انور صاحب اور ان کے رفقاء کو مبارکباد دیتا ہوں اور تمام شرکاء کی خدمت میں مبارکباد عرض کرتے ہوئے یہ کہنا چاہوں گا کہ بہت ضروری اور مبارک عمل ہے کہ دینی مدارس کے طلبہ اور فضلاء کو ضروری مضامین میں تخصصات کرائے جائیں۔ یہ ہماری پرانی روایت میں ’’تکمیل‘‘ کہلاتی تھی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
بالاکوٹ میں پیامِ شہداء کانفرنس
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ پچھلے سال جب حاضر ہوا توہمارے محترم بزرگ ، بھائی اور قائد حضرت مولانا قاضی خلیل احمد صاحب رحمہ اللہ موجود تھے، ان کے وصال کے بعد میں حاضر نہیں ہو سکا تھا، مفتی اخلاق احمد صاحب اور ان کی ٹیم کا شکر گزار ہوں کہ اس پروگرام کے حوالے سے مجھے حاضری کا موقع فراہم کیا۔ سب سے پہلے آپ سب دوستوں سے تعزیت کرتا ہوں، بلکہ میں خود تعزیت کا مستحق ہوں۔ حضرت مولانا قاضی خلیل احمد صاحبؒ مجاہد ِاسلام اور خطیبِ ہزارہ تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ کی حسین یادیں
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی قدس اللہ سرہ العزیز ان بزرگوں میں سے ہیں جن کے ساتھ میری زندگی بھر تحریکی، مسلکی اور دینی رفاقت رہی۔ جن چند بزرگوں کے ساتھ میری رفاقت مسلسل رہی اور ایک دوسرے پر اعتماد بھی الحمد للہ ہمیشہ رہا، ان میں ایک مولانا چنیوٹیؒ ہیں۔ آپؒ چنیوٹ کے رہنے والے تھے، ان کے والد محترم سے میری ملاقاتیں ہوئی ہیں، ان کی زیارت بھی کی ہے، ان کے گھر کئی دفعہ گیا ہوں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
تحریک ختم نبوت کی چند یادیں
میری یادداشتوں کے حوالے سے ایک شعبہ تحریک ختم نبوت کا بھی ہے۔ ختم نبوت کی تحریک میں کچھ نہ کچھ حصہ لیتا رہا ہوں۔ تحریک ختم نبوت کے ساتھ میرا تعلق کب ہوا، کن کن مراحل سے گزرا اس کا کچھ خلاصہ عرض کرنا چاہوں گا۔ قادیانیوں کو پاکستان بننے کے بعد غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے لیے ایک تحریک ۱۹۵۳ء میں چلی تھی۔ اس وقت میری عمر پانچ سال تھی، مگر اس دور کی چند جھلکیاں ابھی تک ذہن کی اسکرین پر جھلملا رہی ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
دینی مدارس کے تعلیمی نصاب و نظام کا اصل ہدف
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ماہِ رواں کے دوران پاکستان بلکہ جنوبی ایشیا کے تمام ممالک میں دینی مدارس کے تعلیمی سال کا آغاز ہو رہا ہے جن کی تعداد مجموعی طور پر ایک لاکھ سے زیادہ بیان کی جاتی ہے جبکہ ان میں پڑھنے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ ان مدارس کا ایک بڑا امتیاز یہ ہے کہ یہ دین کی تعلیم اصل مآخذ اور اوریجنل سورسز سے دیتے ہیں جو دنیا کا مسلّمہ تعلیمی اصول ہے کہ کسی بھی علم یا فن کی تعلیم اصل ماخذ سے دی جاتی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
یہودی مصنوعات کا بائیکاٹ، جہاد کا ایک اہم شعبہ
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ جمعیۃ اہل السنۃ والجماعۃ گوجرانوالہ کا شکر گزار ہوں کہ ایک اہم موضوع پر اس سیمینار کا اہتمام کیا جس میں جمعیۃ کے سیکرٹری جنرل مولانا حافظ گلزار احمد آزاد نے عمرہ اور بحرین کے حالیہ سفر کی کچھ تفصیلات بیان کی ہیں اور وہاں کے دوستوں کے جذبات سے ہمیں آگاہ کیا ہے، اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر سے نوازیں، آمین یا رب العالمین ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
اپریل ۲۰۲۴ء کی رپورٹس
حفظِ قرآن کی سعادت حاصل ہونا بہت بڑی خوش نصیبی ہے۔ گکھڑ منڈی (محمد گلشاد سلیمی) حفظِ قرآن کی سعادت حاصل ہونا بہت بڑی خوش نصیبی ہے۔ حافظ قرآن ہونا ایسا اعزاز ہے جو دنیا و آخرت میں ہمیشہ رہنے والا ہے۔ قرآن کتابِ ہدایت بھی ہے، کتابِ شفا بھی، اور کتابِ انقلاب بھی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ان سب پر خوشی منانے کا کہا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
دینی جدوجہد کے دائرے اور تقاضے: علماء کرام سے چند گزارشات
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ میں متحدہ علماء کونسل کھاوڑہ آزادکشمیر کی قیادت اور رفقاء کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اس اجتماعی محفل میں علماء کرام کی زیارت، ملاقات اور گفتگو کی دعوت دی۔ یہ حاضری میرے لیے سعادت کی بات ہے۔ ایک عالم کی زیارت بھی ثواب کا باعث ہوتی ہے، یہاں آ کر بہت سے علماء کرام کی زیارت و ملاقات سے فیضیاب ہوا ہوں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
عصرِ حاضر میں بخاری شریف کا پیغام
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ مولانا محمد یعقوب طارق کا شکر گزار ہوں کہ یاد فرمایا، حضرات علماء کرام کی زیارت ہوئی، آپ سے ملاقات ہوئی، اور ایک اچھی مجلس میں جہاں جامعہ فریدیہ کے فضلاء نے بخاری شریف کا آخری سبق پڑھا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہماری حاضری قبول فرمائیں۔ چند باتیں عرض کروں گا مگر ابتدا ایک لطیفے سے کروں گا۔ ہمارے نقیب حضرات کو بہت شوق ہوتا ہے کہ انہوں نے خطیب کو دعوت دینے کے لیے پانچ سات لقب بولنے ہوتے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
بخاری شریف صرف حدیث کی کتاب نہیں
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ حضرت مولانا محمد عمر قریشی دامت برکاتہم ہمارے بزرگ اور بڑے بھائی ہیں، شفقت فرماتے ہیں تو حاضری ہو جاتی ہے اور اس مبارک محفل میں حاضری لگ جاتی ہے ۔ اس سے بڑا احسان یہ فرماتے ہیں کہ ان بزرگوں کی زیارت کروا دیتے ہیں جو شاید ہم زندگی بھر نہ کر پاتے۔ حضرت کی مہربانی سے اللہ والوں کی زیارت نصیب ہوئی ہے اور ان کی مجلس میں بیٹھنے کا شرف حاصل ہوا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
مارچ ۲۰۲۴ء کی رپورٹس
دینی و عصری طبقات کے امتزاج کا خواب: الشریعہ اکادمی کے زیر اہتمام تین سالہ آن لائن درسِ نظامی اور ایک سالہ التخصص فی الدعوۃ والارشاد کورسز کے اختتام پر منعقدہ تقریبِ اعزاز سے خطاب کرتے ہوئے مولانا زاہد الراشدی صاحب نے سب سے پہلے درسِ نظامی اور تخصص مکمل کرنے والے شرکاء اور اساتذہ کرام کو مبارکباد پیش کی اور آنے والے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔ اس کے بعد فرمایا کہ پچپن سال سے میرے ذہن میں ایک خواب اٹکا ہوا تھا جسے اب مکمل ہوتا دیکھ رہا ہوں۔ جس طرح شیخ الہند رحمہ اللہ نے دارالعلوم دیوبند اور علی گڑھ کو جوڑنے کی کوشش کی اور یہ فرمایا تھا کہ یہ دونوں ملیں گے تو کام بنے گا۔ امت کا کام، ملت کا کام، دین کا کام ان دون مکمل تحریر
نفاذِ اسلام کی جدوجہد
پاکستان میں نفاذِ شریعت کی جدوجہد کن معاملات اور کن مراحل سے گزری۔ اس میں پہلی بات تو یہ ہے کہ جب پاکستان بنا تو اس میں شامل بہت سی ریاستوں میں عدالتی دائرے میں قوانین نافذ تھے۔ پاکستان میں ریاست سوات، دیر، چترال، ریاست امبھ، خیرپور، بہاولپور، قلات یہ بہت بڑا علاقہ تھا جو ریاستوں پر مشتمل تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
قومی مصائب کے اسباب اور نجات کا راستہ
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ اللہ رب العزت نے انسانی سوسائٹی اور ماحول میں جو مصیبتیں اور آزمائشیں آتی ہیں ان کے حوالے سے اپنا ایک ضابطہ بیان فرمایا ہے۔ مصیبتیں آتی رہتی ہیں، شخصی طور پر بھی، اجتماعی، علاقائی اور قومی طور پر بھی۔ اور دنیا بھر کے حوالے سے بھی وقتاً فوقتاً مصیبتیں آتی ہیں جو انسانوں کو بھگتنا پڑتی ہیں۔ کائنات کا کنٹرول اللہ رب العزت کے ہاتھ میں ہے۔ جو کچھ ہوتا ہے اللہ رب العزت کی مرضی سے ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
نفاذِ اسلام اور عدلیہ
’’قراردادِ مقاصد‘‘ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں حاکمیتِ اعلیٰ اللہ تعالی کی ہے، حکومت کا حق عوام کے منتخب نمائندوں کو ہے، اور پارلیمنٹ اور حکومت قرآن و سنت کی پابند ہیں۔ قراردادِ مقاصد دستور میں چلی آ رہی تھیں لیکن اس کے دیباچے کے طور پر۔ جنرل ضیاء الحق مرحوم نے اپنے اختیارات استعمال کیے اور جو دو چار اچھے کام کیے ان میں ایک یہ بھی تھا کہ اس کو دیباچے سے نکال کر اصل دستور میں شامل کر دیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
نفاذِ اسلام اور پارلیمنٹ
اس کے بعد پاکستان میں جب شریعت کے عملی نفاذ کا مطالبہ شروع ہوا تو یہ مسئلہ کھڑا ہو گیا کہ اگر شریعت نافذ کرنی ہے تو کسی چیز کے شریعت ہونے یا نہ ہونے میں فیصلے کی اتھارٹی کون ہو گی؟ یہ بنیادی جھگڑا چلتا رہا ہے۔ بات اصولی طور پر ٹھیک ہے کہ پاکستان میں شریعت کا نفاذ ہونا چاہیے اور پاکستان میں شریعت کے خلاف کوئی قانون نافذ نہیں ہونا چاہیے۔ یہ اصول میں لکھا ہوا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
۱۹۵۶ء اور ۱۹۶۲ء کے دساتیر
اس کے بعد ایک نئی کشمکش شروع ہو گئی۔ جب قراردادِ مقاصد منظور ہوئی تو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے صدر مولوی تمیز الدین خان مرحوم تھے جو مشرقی پاکستان سے دستور ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہو کر آئے تھے اور فرید پور کے ضلع سے تھے۔ مجلس کے صدر تھے اور بہت سنجیدہ، فاضل اور دانشور آدمی تھے۔ قرارداد مقاصد کو منظور کروانے میں ان کا بہت کردار تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
قادیانی مسئلہ
اس کے بعد ایک تیسرا مرحلہ درپیش آگیا۔ دیکھیں آج کے دور میں اسلام نافذ کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔ بڑے مراحل طے کرنا پڑتے ہیں اور بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد تیسرا مسئلہ قادیانیوں کے حوالے سے پیش آگیا جو بڑا زبردست مسئلہ تھا۔ قادیانی ختمِ نبوت کے واضح منکر تھے اور اب بھی منکر ہیں اور مرزا غلام احمد کی نبوت کے قائل ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
مذہب اور ریاست کا باہمی تعلق
آج کی دنیا میں تین ملک ہیں جہاں اپنے اپنے طور پر مذہب کو حکومت کی اساس قرار دیا گیا ہے۔ پہلا ملک سعودی عرب ہے جس کا آئین یہ ہے کہ قرآن و سنت کے مطابق نظام چلے گا ،لیکن فیصلے کی فائنل اتھارٹی بادشاہ ہے۔ سعودیہ میں آخری اتھارٹی امرِ مَلکی ہے، نہ کسی کو اسے چیلنج کرنے کا اختیار ہے اور نہ اختلاف کا حق حاصل ہے۔ سعودی عرب میں قرآن و سنت کے مطابق نظام چلتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
قیامِ پاکستان اور دستور سازی
پہلی بات یہ ہے کہ پاکستان ہندوستان کو تقسیم کر کے بنا ہے۔ جب انگریز برصغیر میں آئے تھے تو متحدہ ہندوستان اورنگزیب کے زمانے سے ایک ملک چلا آ رہا تھا جو اَب چار ملکوں میں تقسیم ہو گیا ہے یعنی بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش اور برما۔ جب انگریزوں نے یہاں قبضہ کیا تو پہلے انہوں نے برما کو الگ کیا۔ اس کے بعد ہندوستان کی آزادی کے وقت یہاں کی سیاسی پارٹیوں میں دو نقطۂ نظر سامنے آ گئے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
خلافت کے ادوار
خلافت کا تاریخی پس منظر، نظریہ امامت و خلافت، خلافت کے مختلف معیارات، خلافت کے نظام کا ابتدائی تعارف، اور اسلام کے رفاہی ریاست کا تصور ذکر کرنے کے بعد خلافت کے جو مختلف ادوار گزرے ہیں ان کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ خلافتِ راشدہ کے بعد جو تاریخی طور پر خلافت کا دور گنا جاتا ہے وہ خلافتِ بنو امیہ کا دور ہے۔ مؤرخین خلافتِ بنو امیہ کا آغاز سیدنا حضرت امیر معاویہؓ سے کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
خلافت کا رِفاہی تصور اور نظم
ریاست اور رفاہی ریاست میں کیا فرق ہوتا ہے؟ کسی بھی ملک کی حکومت اور ریاست کے چار پانچ بنیادی کام سمجھے جاتے ہیں: سرحدوں کی حفاظت، ملک میں امن قائم کرنا، لوگوں کو ایک دوسرے پر ظلم کرنے سے روکنا، انصاف فراہم کرنا ، اور لوگوں کو زندگی کی سہولتیں زیادہ سے زیادہ فراہم کرنا۔ یعنی کسی ریاست کی بنیادی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وہ سرحدوں کی حفاظت کرے تاکہ کوئی باہر سے حملہ نہ کرے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
خلافت کے معیارات
خلافت کا تاریخی تناظر کہ کیسے خلافت کا آغاز ہوا، خلافت کن کن ادوار سے گزری، اور خلافت کے مختلف معیارات جو تاریخ میں تقریبا بارہ تیرہ سو سال چلتے رہے، وہ کیا تھے؟ اس حوالے سے یہ کہنا چاہوں گا کہ خلافت کے ادوار جو تاریخی اعتبار سے کہلاتے ہیں، ان میں خلافتِ راشدہ، خلافتِ امویہ، خلافتِ عباسیہ اور خلافتِ عثمانیہ کے ادوار ہیں۔ اہلِ سنت والجماعت کے ہاں خلافتِ راشدہ کا دور اصطلاحاً تیس سال کا دور کہلاتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
خلافت کا سیاسی نظام
فقہاء کرام لکھتے ہیں کہ خلیفہ کا انتخاب اور خلافت کا قیام امت کے اجتماعی فرائض میں سے ہے ۔ خلافت کے قیام کے فرض ہونے کے دلائل میں دو بڑی دلیلیں حضرت شاہ ولی اللہؒ نے بیان فرمائی ہیں: ایک دلیل یہ دی ہے کہ قرآن کریم کے بہت سے احکامات حکومت کی موجودگی پر موقوف ہیں۔ مثلاً حدود کا نفاذ، جہاد، بیت المال کا قیام، عدالتوں کا قیام اور انصاف کی فراہمی وغیرہ، یہ سارے معاملات حکومت کا وجود چاہتے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
خلافت اور پاپائیت
یہ بات ایک اور تناظر میں سمجھنے کی کوشش کریں جو آج کی فکری اور سماجی دنیا کا بہت بڑا مسئلہ اور بہت بڑا مغالطہ ہے۔ مغرب کے پروٹسٹنٹ عیسائیوں نے مارٹن لوتھر کی تحریک کے نتیجے میں پاپائیت کو مسترد کر دیا تھا۔ جبکہ رومن کیتھولک آج بھی پاپائے روم کے تابع ہیں۔ لیکن ایک زمانہ گزرا ہے جب رومن کیتھولک پاپائے روم حکمرانوں کے سرپرست ہوتے تھے، ان کا فیصلہ آخری ہوتا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
خلافت اور امامت
سیاسی نظام پر اہلِ سنت اور اہلِ تشیع کا بنیادی اختلاف ہے۔ اہلِ تشیع امامت کی اصطلاح کے ساتھ بات کرتے ہیں اور اہلِ سنت خلافت کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ امامت اور خلافت ، یا امام اور خلیفہ میں کیا فرق ہے؟ اہلِ تشیع امام کو خدا کا نمائندہ اور معصوم عن الخطا کہتے ہیں، اور پیغمبر کی طرح اتھارٹی اور اختلاف سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ امامت میں اللہ کی نیابت ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
خلافت کا تصور اور تاریخی پس منظر
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ میں ایک اہم موضوع پر بات کرنا چاہوں گا کہ خلافتِ اسلامیہ کیا ہے؟ خلافت کا شرعی تصور کیا ہے؟ اس کی علمی اور فکری بنیادیں کیا ہیں؟ تاریخ کا تناظر کیا ہے؟ اور خلافت کے مسئلہ پر ہمارا دنیا کے ساتھ جو تنازع ہے، اس میں ہمارا موقف کیا ہے اور دنیا کا موقف کیا ہے؟ ہماری کشمکش کس میدان میں ہے اور کیسے آگے بڑھ رہی ہے؟ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
حلال و حرام کا تصور اور حلال فوڈز اتھارٹی
حلال و حرام کی حتمی اتھارٹی اللہ تبارک و تعالیٰ اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، اس فرق کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ خود اتھارٹی ہیں لیکن جناب نبی کریمؐ اتھارٹی کے نمائندے ہیں۔ اللہ تعالیٰ حلال و حرام کے معاملے میں حضور نبی کریمؐ سے یہ فرماتے ہیں ’’یایھا النبی لم تحرم ما احل اللہ لک‘‘ کہ اللہ نے حلال کیا ہے تو آپ کیسے حرام کر رہے ہیں؟ چنانچہ حلال و حرام کی واحد اتھارٹی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
موجودہ قومی صورتحال میں پاکستان شریعت کونسل کی جدوجہد
۱۰ مارچ ۲۰۲۴ء کو مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں پاکستان شریعت کونسل کی صوبائی مجلس عاملہ کے اجلاس سے خطاب کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ مکمل تحریر
فروری ۲۰۲۴ء کی رپورٹس
مولانا زاہد الراشدی کی قوم سے اپیل: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ کل ۸ فروری ۲۰۲۴ء کو ملک بھر میں قومی اور صوبائی انتخابات ہو رہے ہیں، قوم آئندہ پانچ سال کے لیے قومی اور صوبائی حکومتوں کا، پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کا انتخاب کرے گی۔ یہ بہت نازک مرحلہ ہے۔ اس موقع پر میں گزارش کرنا چاہوں گا کہ تمام حلقوں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
اجتہاد کا شرعی تصور اور چند مغالطے
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ اجتہاد لفظاً کوشش کرنے کا نام ہے۔ شرعاً جو اجتہاد ہے اس کی تعریف اور شرائط اصولِ فقہ کی کتابوں میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہیں۔ لیکن میں اس دائرے سے ہٹ کر آج کے عمومی تناظر اور فہم کے دائرے میں اجتہاد کی بات کرنا چاہوں گا۔ شرعاً اجتہاد کی ضرورت یہ ہے کہ جب تک وحی جاری تھی، زمانے کے حالات بدلتے تھے اور نئی ضروریات پیش آتی تھیں، تو وحی کے ذریعے ہدایت و رہنمائی ہو جاتی تھی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
جنوری ۲۰۲۴ء کی رپورٹس
ملک و ملت اور دین سے وفاداری کا عہد کرنے والے امیدواروں کو ووٹ دیں: ۳۱ جنوری ۲۰۲۴ء بروز بدھ بعد نماز ظہر جامع مسجد مکی کوکاکولا سٹاپ ملتان روڈ لاہور میں پاکستان شریعت کونسل لاہور کے زیرِ اہتمام ایک اہم نشست کا انعقاد کیا گیا جس کا عنوان ’’مسئلہ فلسطین / قومی و صوبائی اسمبلی کے انتخابات/ ملکی و بین الاقوامی صورتحال تھا‘‘ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
مسئلہ فلسطین اور ملک میں الیکشن کی صورتحال
آج مختلف دینی پروگرامز کے حوالے سے ٹنڈو الٰہ یار حاضری ہوئی ہے، اور صحافی برادری سے ملاقات اس حوالے سے خوشی کا باعث بنی ہے کہ میں خود بھی ایک صحافی ہوں، صحافی برادری کے ساتھ میرا تعلق بھی ہے۔ میں پریس کلب اور آپ سب حضرات کا شکر گزار ہوں کہ اس ملاقات کا اہتمام کیا۔ میں پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل کے طور پر چند باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
علم کی پختگی اور زمانے کی پہچان
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ جامعہ اسلامیہ راولپنڈی صدر کے سالانہ اجتماع میں حاضری میرے لیے ہمیشہ سعادت کی بات ہوتی ہے کہ بزرگوں کی زیارت، طلباء سے ملاقات اور گفتگو میں شرکت ہو جاتی ہے۔ اور میرے لیے توسب سے بڑی بات یہ ہے کہ شیخ الحدیث حضرت مولانا قاری سعید الرحمٰن صاحبؒ جوہمارے بزرگ تھے اور جماعتی، تحریکی اور تعلیمی زندگی میں ہم آپس میں ساتھی تھے، اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمیں ایک عرصہ تک رفاقت نصیب فرمائی، اس رفاقت کی کچھ یادیں تازہ ہو جاتی ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
اکتوبر ۲۰۲۳ء کی رپورٹس
جامعہ نصرۃ العلوم کے قراء کرام کے اعزاز میں ایک خصوصی نشست: علامہ زاہد الراشدی صاحب کی سرپرستی میں خلافتِ راشدہ اسٹڈی سنٹر کے زیر اہتمام ۵ اکتوبر ۲۰۲۳ء بروز جمعرات عصر کے متصل بعد خلافتِ راشدہ لائبریری مرکزی جامع مسجد شیرانوالہ باغ میں محکمہ اوقاف پاکستان کے زیر اہتمام گوجرانوالہ ڈویژنل حسنِ قراءت مسابقہ کے پوزیشن ہولڈرز طلباء کرام کے اعزاز میں عصرانے کا اہتمام کیا گیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
نومبر ۲۰۲۳ء کی رپورٹس
اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کیا جائے گا: قلعہ دیدار سنگھ (نامہ نگار) مرکزی سیکرٹری جنرل پاکستان شریعت کونسل علامہ زاہد الراشدی نے کہا ہے کہ اسرائیل کے وجود کو کبھی تسلیم نہیں کیا جائے گا اور اس کا وجود بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ’’پاسبان پاکستان‘‘ کے زیر اہتمام فلسطین کی حمایت میں منعقدہ پریس کانفرنس کے دوران کیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
دسمبر ۲۰۲۳ء کی رپورٹس
ضلع وزیرآباد میں پاکستان شریعت کونسل کی تشکیل کا فیصلہ: پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی قومی فلسطین کنونشن میں شرکت کیلئے اسلام آباد جاتے ہوئے آج صبح وزیر آباد میں تھوڑی دیر رکے اور مدنی مسجد الٰہ آباد میں جماعتی احباب سے ملاقات کی۔ اس موقع پر پروفیسر حافظ منیر احمد، مولانا قاری محمد عثمان رمضان، مولانا حافظ امجد محمود معاویہ، مولانا حافظ نصر الدین خان عمر ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
استحکامِ پاکستان کی جدوجہد کے پانچ اہم دائرے
مرکزی علماء کونسل گوجرانوالہ بالخصوص مولانا شاہ نواز فاروقی، مولانا عبید اللہ حیدری اور ان کے رفقاء کا شکرگزار ہوں کہ آج کی اہم قومی ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے اس سیمینار کا اہتمام کیا اور اس میں کچھ گزارشات پیش کرنے کا موقع فراہم کیا۔ استحکامِ پاکستان کے حوالے سے غور و فکر اور اس کے مختلف پہلوؤں کے حوالے سے تبادلۂ خیالات آج کا اہم قومی تقاضہ ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
الیکشن میں دینی جماعتوں کی صورتحال او رہماری ذمہ داری
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ملک میں عام انتخابات کی آمد آمد ہے، تاریخ کا اعلان ہو چکا ہے، مختلف جماعتیں میدان میں ہیں اور انتخابی مہم شروع ہو گئی ہے۔اس ماحول میں ملک کی دینی جماعتوں اور دینی حلقوں کو کیا کرنا چاہیے، اس کے بار ےمیں چند گزارشات پیش کرنا چاہوں گا۔ پہلی بات یہ ہے کہ دینی حلقوں، دینی جماعتوں اور علماء کرام کا انتخابی سیاست سے کیا تعلق ہے، یہ انتخابی عمل میں کیوں شریک ہوتے ہیں؟ یہ بنیادی سوال ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
برصغیر میں ماضی قریب کی دینی جدوجہد پر ایک نظر
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ نو آبادیاتی دور میں عیسائی ممالک نے دنیا کے مختلف حصوں پر قبضے جمائے اور مسلمان ممالک میں سے کوئی فرانس کے تسلط میں چلا گیا، کوئی برطانیہ، کوئی ہالینڈ، کوئی پرتگال اور کوئی اٹلی کے قبضے میں چلا گیا۔ مجموعی طور پر تقریباً ایک صدی ایسی گزری ہے کہ مسلم ممالک کی اکثریت غیر مسلم مسیحی قوتوں کے تسلط میں تھی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
قرآن حکیم اور ہماری زندگی
قرآن کریم کا ہماری عملی زندگی سے کیا تعلق ہے؟ اس سوال کا جواب دینے سے پیشتر یہ بات جاننا ضروری ہے کہ قرآن حکیم اور ہماری زندگی کی انفرادی طور پر حقیقت کیا ہے اور پھر ان دونوں کے حقائق کے درمیان تعلق کس نوعیت کا ہے؟ اگر ان دونوں کے حقائق لازم ملزوم ہیں تو قرآن حکیم ہماری زندگی کے لیے ضروری ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
اسلامی ریاست کی اصولی بنیادیں
آج یومِ پاکستان ہے جو اس تاریخی قرارداد کی یاد میں منایا جاتا ہے جو آج سے سات عشرے قبل لاہور کے اس میدان میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں منظور کی گئی، جہاں اس قرارداد کی یادگار کے طور پر مینارِ پاکستان تعمیر کیا گیا ہے۔ اس قرارداد میں کہا گیا کہ مسلمان ایک مستقل قوم کی حیثیت رکھتے ہیں اور دین و مذہب کے ساتھ ساتھ اپنی الگ تہذیب و ثقافت کا امتیاز انہیں حاصل ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
ماہِ شعبان اور ترجمہ و تفسیر قرآن کے حلقے
شعبان المعظم کے آغاز کے ساتھ ہی ملک کے مختلف حصوں میں دورۂ تفسیر قرآن کریم کے حلقوں کا آغاز ہو گیا ہے اور اپنے اپنے ذوق اور دائرہ فکر کے مطابق بیسیوں بلکہ سینکڑوں مقامات پر علمائے کرام اپنے شاگردوں کا حلقہ سنبھالے قرآن کریم کے ترجمہ و تفسیر کی خدمت سرانجام دینے میں مصروف ہیں۔ الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں بھی گزشتہ سال سے دورۂ تفسیر کی کلاس ان دنوں چل رہی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
عصرِ حاضر کے چیلنجز اور علماء کرام کی ذمہ داریاں
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ مکتبہ یاران اور العصر فاؤنڈیشن کراچی کا شکر گزار ہوں کہ علماء کرام اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کام کرنے والے اہلِ علم کی اس متنوع مجلس اور گلدستہ میں مجھے بھی حاضری کا شرف بخشا، عروس البلاد کراچی کے حضرات سے ملاقات ہوئی اور کچھ عرض کرنے کا موقع مل رہا ہے، اللہ رب العزت اس کاوش کو قبول فرمائیں، انتظام کرنے والوں کو جزائے خیر عطا فرمائیں اور ہم سب کی حاضری کو قبول کرتے ہوئے اسے دارین کی سعادتوں اور خیر کا ذریعہ بنائیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
نوجوان اہلِ علم کی تعلیمی و معاشرتی ذمہ داریاں
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ محترم ڈاکٹر محمد زمان چیمہ صاحب پرنسپل کالج، اساتذہ کرام، عزیز طلباء و طالبات! میرے لیے سعادت کی بات ہے کہ جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے منعقد ہونے والے اس اجتماع میں اپنے شہر کی قدیم درسگاہ اور تعلیمی مرکز اسلامیہ کالج میں ایک مرتبہ پھر حاضری کا موقع ملا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
دو ریاستی حل : نگران وزیر اعظم سے تین گزارشات
گزشتہ دنوں اسلام آباد کنونشن سینٹر میں ’’حرمتِ مسجدِ اقصیٰ اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داری‘‘ کے عنوان پر ایک بڑا قومی سیمینار ہوا تھا جس میں تمام مکاتب فکر کے قائدین جمع ہوئے، میں بھی اس میں شریک تھا، وہاں میں نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ اسرائیل کے بارے میں پاکستان بننے کے فوراً بعد بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم نے اعلان کیا تھا کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے جسے ہم کبھی تسلیم نہیں کریں گے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
انسانی حقوق: اسلامی اور مغربی نقطہ ہائے نظر کے پانچ بنیادی فرق
انسانی حقوق آج کی دنیا کا ایک اہم موضوع ہے جس پر غالباً سب سے زیادہ گفتگو ہوتی ہے، اور اسلامی تعلیمات کے حوالے سے انسانی حقوق پر گفتگو کے بہت سے پہلو ایسے ہیں جن پر گفتگو ضروری ہے۔ مگر آج کی مجلس میں صرف ایک پہلو پر کچھ گزارشات پیش کرنا چاہوں گا، وہ یہ کہ انسانی حقوق کے آج کے فلسفہ اور حقوقِ انسانی کے اسلامی فلسفہ میں کیا فرق ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
’’حرمتِ مسجدِ اقصیٰ اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داری‘‘ : تین اہم سوالات
مجلسِ اتحادِ امت پاکستان کے زیر اہتمام ۶ دسمبر ۲۰۲۳ء کو اسلام آباد کنونشن سینٹر میں ’’حرمتِ مسجدِ اقصٰی اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داری‘‘ کے عنوان پر قومی سیمینار سے خطاب کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ میں اس اجتماع میں ایک کارکن کے طور پر اپنا نام شمار کرنے کے لیے حاضر ہوا ہوں، اللہ تعالیٰ ہم سب کی حاضری قبول فرمائیں۔ میں بس دو تین سوالات عرض کرنا چاہوں گا، باقی قائدین جو خطاب فرمائیں گے وہ ہمارا ایجنڈا ہوگا ان شاء اللہ تعالیٰ اور اس پر عمل کیا جائے گا۔ مکمل تحریر